Language:

مولانا عبدالستار خاں نیازی رحمۃ اللہ علیہ

            مجاہد ملت حضرت مولانا عبدالستار خاں نیازیؒ تحریک پاکستان کے راہنما، تحریک ختم نبوت کے ہیرو، تحریک نظامِ مصطفیصلی اللہ علیہ وسلم کے روحِ رواں اور تحریک تحفظِ ناموس رسالتصلی اللہ علیہ وسلم کے سالار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں اعلیٰ بصیرت سے نوازا تھا۔ تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر ان کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔ 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں ان کا بڑا اہم کردار ہے۔ تحریک کے مرکز، مسجد وزیر خاں (لاہور) میں تحریک کی قیادت کرتے رہے۔ بالآخر گرفتار ہوئے۔ فوجی عدالت نے انھیں سزائے موت سنا دی۔ آپ نے خندہ پیشانی سے اس سزا کو قبول کیا۔ بعدازاں حکومت نے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا، پھر دو سال اور ایک ماہ بعد یہ سزا بھی ختم ہو گئی۔

مولانا عبدالستار خاں نیازیؒ اپنی اسیری کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’مجھے اپنی زندگی پر فخر ہے کہ جب تحریک ختم نبوت کے مقدمہ کے بعد میری رہائی ہوئی تو پریس والوں نے میری عمر پوچھی۔ اس پر میں نے کہا تھا۔ ’’میری عمر وہ دن اور راتیں ہیں جو میں نے ختم نبوتصلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ کی خاطر پھانسی کی کوٹھڑی میں گزاری ہیں کیونکہ یہی میری زندگی ہے اور باقی شرمندگی۔ مجھے اپنی اس جیل والی زندگی پر ناز ہے۔‘‘

q          حضرت مولانا عبدالستار خاں صاحب نیازیؒ کے ایک مضمون کا اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔ آپ مسئلہ ختم نبوت کی اہمیت و نزاکت پر نہایت موثر انداز میں اظہار خیال فرماتے ہوئے رقمطراز ہیں:

’’چودھویں صدی میں تمام عالم اسلام کے اندر ہر محب اسلام کا یہ فرض ہے کہ ختم نبوت کے مسئلہ کو تمام دوسرے مسائل پر ترجیح دے۔ اگر ہم تحفظ ختم نبوت کے ذریعے اپنی بقا کا اہتمام کر لیتے ہیں تو توحید، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، قرآن شریف، شریعت الغرض کسی اصول دین کو ضعف نہیں پہنچ سکتا، لیکن خدانخواستہ اگر قادیانی تحفظ ختم نبوت کو ہماری لوح قلب سے ذرا بھی اوجھل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر نہ ہمیں ناموسِ صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، ہمارا ایمان برقرار رکھنے میں مدد دے سکتا ہے۔ نہ وِلائے اہل بیتؓ ہماری نجات کے لیے کافی ہو سکتی ہے، نہ قرآن ہی کے اوراق میں ہمارے لیے ہدایت باقی رہ جاتی ہے، نہ مساجد ہی کے محراب و منبر میں کوئی تقدیس باقی رہ جاتی ہے اور نہ اولیاء اللہ اور مشائخ عظام ہی کی نسبتیں جاری رہ جاتی ہیں، نہ علمائے کرام ہی کی تدریس و وعظ میں اثر باقی رہ جاتا ہے، نہیں نہیں صرف یہی نہیں، خاکم بدہن اُمت محمدیہؐ کے تسمیہ اور وجود دونوں پر زَد پڑتی ہے۔ اُمتِ محمدیہ ملل میں تقسیم ہو جاتی ہے، ملتیں، حکومتوں میں بٹ جاتی ہیں اور حکومتیں، گروہوں کی سازشوں کا شکار ہو جاتی ہیں، فقط اتنا ہی نہیں خاندان ملت سے خارج ہو جاتے ہیں، خود خاندان کے اندر صلہ رحمی، قطع رحمی سے مبدل ہو جاتی ہے۔ اس لیے اگر حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام، خاتم النبیین نہیں تو پھر شریعت نہیں، جب شریعت نہیں تو حرام و حلال بھی نہیں، جب حرام و حلال نہیں تو باپ، بیٹے، ماں بہن، خاوند اور بیوی غرض دنیا کے سب رشتے اپنی تقدیس سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ختم نبوت کا انکار آسمان پر فرشتوں کا انکار ہے، زمین پر قبلہ اور حج کا انکار ہے، سیاست میں مسلمانوں کے غلبے اور جداگانہ وجود کا انکار ہے۔ غرض ختم نبوت سے انکار خود مسلمان کے مسلمان ہونے سے انکار ہے، یہاں پہنچ کر زبان گنگ ہو جاتی ہے۔ قلم ٹوٹ جاتا ہے اور الفاظ کا ذخیرہ ختم ہو جاتا ہے‘‘۔

ہے یہ وہ نام خاک کو پاک کرے نکھار کر

ہے یہ وہ نام خار کو پھول کرے سنوار کر

ہے یہ وہ نام ارض کو کر دے سما اُبھار کر

اکبر اسی کا ورد تُو صدق سے بیشمار کر

صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ