Language:

حضرت مولانا مفتی محمد حسن مدظلہ

اس دور قحط الرجال میں حضرت مولانا مفتی محمد حسن مدظلہٗ کی شخصیت روشنی کی درخشاں قندیل ہے۔ آپ کے محاسن و معارف، خدا خوفی، بلندی کردار، دینی غیرت و حمیت، محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور گستاخانِ رسول سے بے پناہ نفرت و حقارت کے بارے میں لکھنے کے لیے ایک دفتر درکار ہے۔ آپ نے خود کو تحفظ ختم نبوت کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ آپ جس جذبے سے اپنے شاگردوں کو اس محاذ پر تیار کر رہے ہیں، اس کی مثال ملنا محال ہے۔ آپ اپنی ایک تحریر میں فرماتے ہیں:

’’دین اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک اہم ترین عقیدہ، عقیدہ ختم نبوت ہے۔ اس مبارک عقیدہ کی عظمت کو بیان کرنے کے لیے صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ یہ عقیدہ پورے دین اسلام کی روح ہے۔ جیسے روح کے بغیر جسم کی کوئی حیثیت نہیں۔ ایسے ہی عقیدہ ختم نبوت کے بغیر کسی عمل کی کوئی اہمیت نہیں۔ اگرچہ لاکھ نمازیں پڑھے، روزے رکھے، حج کرے، سب بے کار ہے۔ یہ قرب قیامت کا دور ہے۔ روز بروز نت نئے فتنے مختلف شکلوں میں رونما ہو رہے ہیں۔ ان میں سے ایک خطرناک ترین فتنہ، قادیانیت کا فتنہ ہے۔ یہ حضور اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے باغی اور دشمن ہیں۔

مسیلمہ کے جانشین گرہ کٹوں سے کم نہیں                    کتر کے جیب لے گئے پیمبری کے نام سے

آج بھی یہ مختلف چالوں سے مسلمانوں کے ایمان پر حملہ آور ہیں۔ دوستی، نوکری چھوکری پیسوں کے لالچ اور غیر ملکی ویزہ کا جھانسہ دے کر ان کے ایمان کو لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔بندہ سیدھے لفظوں میں عرض کر رہا ہے۔ اللہ نہ کرے، اگر کسی مسلمان نے قادیانیوں کے مکر و فریب میں آ کر برطانیہ، جرمن، کسی اور ملک کا ویزہ لے لیا اور کسی قادیانی لڑکی سے شادی کر کے قادیانی بن گیا تو گنبد خضریٰ سے اس کا ویزہ ختم ہو گیا۔ گنبد خضریٰ سے اس کا رشتہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔ اے میرے غیرت مند مسلمان بھائی! اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ، اگر خدانخواستہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارا رشتہ ختم ہو گیا تو ہمارے پلے رہے گا کیا۔ پھر یہ ویزہ کب تک کام آئے گا، شادی کا من تو کب تک پورا کرے گا۔ ہماری ساری امیدوں کا سہارا آپصلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ہستی ہی تو ہے۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں پیش کرنے کے قابل کوئی پونجی ہے تو وہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہی تو ہے۔ لہٰذا آقائے دوجہاں، سرور کونین، فخر دو عالم، سرور دو عالم، سید المرسلین، خاتم النبیینصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت (جو گناہگار سے گناہگار مسلمان کے سینے میں جوش مار رہی ہے) کے وسیلے سے ایک ایک مسلمان سے پرُزور اپیل کی جاتی ہے کہ وہ قادیانیوں سے مکمل طور پر بائیکاٹ کرے۔ ان سے ہر قسم کے تعلقات کو ختم کرے اور ان کے ساتھ تعلقات کو ختم کرنے کے لیے اپنے دل کو غیرت دلانے کے لیے اس جملے کو پڑھ لیا کرے۔

اے مسلمان جب تو کسی قادیانی سے ملتا ہے تو گنبد خضریٰ میں دل مصطفیصلی اللہ علیہ وسلم دکھتا ہے۔ قادیانی مسلمانوں کا روپ دھار کر اور ان کے شعائر (نشانیوں) کو استعمال کر کے تعلقات کے جھانسے میں سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ لہٰذا ان کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات حرام ہیں۔مزید وضاحت کے لیے حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہیدؒ کی ایک تحریر ملاحظہ فرمائیں۔

’’قادیانیوں کی سو نسلیں بھی بدل جائیں تو ان کا حکم زندیق اور مرتد کا رہے گا۔ سادہ کافر کا حکم نہیں ہو گا، اس لیے کہ ان کا جو جرم ہے یعنی کفر کو اسلام اور اسلام کو کفر کہنا، یہ جرم ان کی آئندہ نسلوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ الغرض قادیانی جتنے بھی ہیں، خواہ وہ اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہوئے ہوں یا پیدائشی ’’احمدی‘‘ ہوں یعنی قادیانیوں کے گھر پیدا ہوئے ہوں اور یہ کفر ان کو ورثے میں ملا ہو، ان سب کا ایک ہی حکم ہے۔ یعنی وہ مرتد اور زندیق ہیں۔ کیونکہ ان کا جرم صرف یہ نہیں کہ وہ اسلام کو چھوڑ کر کافر بنے ہیں بلکہ ان کا جرم یہ ہے کہ دین اسلام کو کفر کہتے ہیں اور اپنے دین کفر کو اسلام کا نام دیتے ہیں اور یہ جرم ہر قادیانی میں پایا جاتا ہے۔ خواہ وہ اسلام کو چھوڑ کر قادیانی بنا ہو یا پیدائشی قادیانی ہو۔‘‘

اس لیے بندہ تمام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ قادیانیوں کی سازشوں اور ان کے مکر و فریب سے بچیں۔ عام مسلمان ان سے (اور اسی طرح دیگر فتنوں سے) بحث و مباحثہ سے اور ان کا لٹریچر پڑھنے سے بچیں۔ یہ سانپ کے زہر سے زیادہ خطر ناک ہے۔ اگر کوئی قادیانی تنگ کرے تو فوراً کسی ماہر عالم سے رجوع کریں۔

یہاں ایک واقعہ کا ذکر کرنا مناسب ہوگا جس کو بندہ اکثر مجالس میں سناتا رہتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ جامعہ اشرفیہ لاہور کے شیخ الحدیث حضرت مولانا صوفی محمد سرور صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی خدمت میں ایک صاحب نے خط لکھا کہ میں نے مرزائیوں کا لٹریچر پڑھا ہے اور میرے ذہن میں عجیب قسم کے شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ میں اب کیا کروں؟ حضرت مولانا صوفی محمد سرور صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے جو جواب مرحمت فرمایا، وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ فرمایا: آپ نے سانپ پکڑنے کا منتر سیکھے بغیر سانپ کو پکڑنے کی کوشش کی ہے۔ وہ ڈسے گا نہیں تو اور کیا کرے گا۔ مطلب یہ کہ قادیانیت کا زہر سانپ کے زہر سے زیادہ خطرناک ہے۔ سانپ کے زہر سے اگر وقت موعود یعنی موت کا وقت آ چکا ہے تو موت آ جائے گی لیکن قادیانیت کا زہر اگر سرایت کر گیا تو وہ دنیا و آخرت دونوں کو تباہ کر دے گا۔ لہٰذا اس فتنے کے بارے میں معلومات رکھنے والے علمائے کرام اور محافظین ختم نبوت قادیانیت کے سانپ کو پکڑنے کا منتر جانتے ہیں۔ جب بھی ضرورت ہو فوراً ان سے رجوع کریں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ پوری امت مسلمہ کی ہر شر اور فتنہ سے بالخصوص فتنۂ قادیانیت سے حفاظت فرمائے اور محافظین ختم نبوت کی جملہ کوششوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین!