Language:

غازی علم الدین شہید رحمۃ اللہ علیہ

            ہندو آریہ سماج تنظیم جو مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے دل آزار کتابیں شائع کرواتی رہتی تھی، 1923ء کے اواخر میں اس تنظیم کے سرگرم رکن راجپال نے ایک ایسی دل آزار کتاب شائع کی، جس میں حضور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں بے پناہ گستاخیاں کی گئی تھیں۔ کتاب کی اشاعت سے پورے ملک میں کہرام مچ گیا۔ مسلمانوں نے احتجاجی جلسے اور جلوس نکالنے شروع کر دیے۔ ملزم راجپال کے خلاف مقدمہ درج ہوا۔ پھر راجپال کو 6 ماہ قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ ہوا۔ بعدازاں ہائی کورٹ نے نہ صرف ملزم کو بری کر دیا بلکہ اس کا جرمانہ بھی معاف کر دیا۔ اس دل آزار کتاب کی اشاعت جاری رہی۔ یکم اپریل 1929ء کی رات ایک نوجوان غازی علم الدین شہید اپنے بڑے بھائی کے ساتھ دہلی دروازہ کے باغ میں جلسہ سننے چلے گئے، جہاں سیّد عطا اللہ شاہ بخاریؒ نے بڑی رقت انگیز تقریر کی۔ دفعہ 144 کا نفاذ تھا جس کی رو سے کسی نوع کا جلسہ یا اجتماع نہیں ہو سکتا تھا لیکن مسلمانوں کا ایک فقید المثال اجتماع بیرون دہلی دروازہ درگاہ شاہ محمد غوثؒ کے احاطہ میں منعقد ہوا۔ وہاں اس عاشق رسولصلی اللہ علیہ وسلم نے ناموسِ رسالت پر جو تقریر کی، وہ اتنی دل گداز تھی کہ سامعین پر رقت طاری ہو گئی۔ کچھ لوگ تو دھاڑیں مار مارکر رونے لگے۔ شاہ جی نے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

’’آج آپ لوگ جناب فخر رسل محمد عربیصلی اللہ علیہ وسلم کے عزت و ناموس کو برقرار رکھنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں۔ آج جنس انسان کو عزت بخشنے والے کی عزت خطرہ میں ہے۔ آج اس جلیل المرتبت کا ناموس معرض خطر میں ہے جس کی دی ہوئی عزت پر تمام موجودات کو ناز ہے۔‘‘ اس جلسہ میں مفتی کفایت اللہ اور مولانا احمد سعید دہلوی بھی موجود تھے۔ شاہ جی نے ان سے مخاطب ہو کر کہا:

’’آج مفتی کفایت اللہ اور احمد سعید کے دروازے پر اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ اور اُمُّ المومنین خدیجہ الکبرٰیؓ کھڑی آواز دے رہی ہیں۔ ہم تمہاری مائیں ہیں۔ کیا تمھیں معلوم نہیں کہ کفار نے ہمیں گالیاں دی ہیں۔ ارے دیکھو! کہیں اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ دروازہ پر تو کھڑی نہیں؟‘‘

یہ الفاظ دل کی گہرائیوں سے اس جوش اور ولولہ کے ساتھ ابل پڑے کہ سامعین کی نظریں معاً دروازے کی طرف اٹھ گئیں اور ہر طرف سے آہ و بکا کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ پھر اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا:

’’تمہاری محبتوں کا تو یہ عالم ہے کہ عام حالتوں میں کٹ مرتے ہو لیکن کیا تمھیں معلوم نہیں کہ آج گنبد خضرٰی میں رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم تڑپ رہے ہیں۔ آج خدیجہؓ اور عائشہؓ پریشان ہیں۔ بتائو! تمھارے دلوں میں اُمہات المومنین کے لیے کوئی جگہ ہے؟ آج اُمُّ المومنین عائشہؓ تم سے اپنے حق کا مطالبہ کرتی ہیں۔ وہی عائشہؓ جنھیں رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ’’حمیرا‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے،جنھوں نے سید عالمصلی اللہ علیہ وسلم  کو وصال کے وقت مسواک چبا کر دی تھی۔ یاد رکھو کہ اگرتم نے خدیجہؓ اور عائشہؓ کے لیے جانیں دے دیں تو یہ کچھ کم فخر کی بات نہیں۔‘‘

شاہ جی نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا:’’جب تک ایک مسلمان بھی زندہ ہے، ناموس رسالت پر حملہ کرنے والے چین سے نہیں رہ سکتے۔ پولیس جھوٹی، حکومت کوڑھی اور ڈپٹی کمشنر نااہل ہے۔ وہ ہندو اخبارات کی ہرزہ سرائی تو روک نہیں سکتا، لیکن علمائے کرام کی تقریریں روکنا چاہتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ دفعہ 144 کے یہیں پرخچے اڑا دیے جائیں۔ میں دفعہ 144 کو اپنے جوتے کی نوک تلے مسل کر بتا دوں گا۔

پڑا فلک کو دل جلوں سے کام نہیں                  جلا کے راکھ نہ کر دوں تو داغ نام نہیں

داغ کا یہ شعر شاہ جی نے کچھ اس انداز سے پڑھا کہ لوگ بے قابو ہو گئے۔ اس تقریر نے سارے شہر میں آگ لگا دی۔ لاہور میں بدنام زمانہ کتاب، اس کے مصنف اور ناشر کے خلاف جا بجا جلسے ہونے لگے۔

6 اپریل 1929ء کو غازی علم الدین ٹھیک ایک بجے راجپال کی دکان پر پہنچ گئے اور دریافت کیا کہ راجپال کہاں ہے؟ راجپال نے خود ہی کہا۔ میں ہوں کیا کام ہے؟ غازی صاحب نے چھری نکال کر اس پر بھرپور حملہ کیا۔ پھر پے در پے وار کر کے اسے واصل جہنم کر دیا اور کہا یہی کام تھا۔

غازی صاحب کو گرفتار کر لیا گیا۔ 10 اپریل 1929ء کو سیشن جج کی عدالت میں مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی۔ 22 مئی 1929ء کو غازی صاحب کو سزائے موت کا حکم سنا دیا گیا۔ 30 مئی کو ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ 15 جولائی کو قائداعظم محمد علی جناحؒ اس مقدمہ کی وکالت کے لیے ہائی کورٹ میں پیش ہوئے مگر ہائی کورٹ نے اپیل خارج کر دی جس کے نتیجہ میں 31 اکتوبر 1929ء کو میانوالی جیل میں آپ کو پھانسی دے دی گئی۔ جسد اطہر کو میانوالی سے لاہور لایا گیا۔ جنازہ میں لاکھوں عاشقانِ رسولصلی اللہ علیہ وسلم  نے شرکت کی۔ آپ کو لاہور کے میانی قبرستان میں دفنایا گیا۔ غازی علم الدین شہید برصغیر کے شہیدان ناموس رسالتصلی اللہ علیہ وسلم کے ہیرو ہیں۔

نامور دانشور جناب صاحبزادہ خورشید گیلانی اپنے مضمون ’’شہید محبت‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’علامہ اقبالؒ کا ایک مصرع ہے:                                ’’طے شود جادۂ صد سالہ بآ ہے گاہے‘‘

یعنی بعض اوقات ایک آہ کے فاصلے پر منزل ہوتی ہے یا لمحے بھر میں سو سال کا سفر طے ہو جاتا ہے، یہ مصرع زبان پر آتے ہی ذہن بے اختیار شہید ناموسِ نبیصلی اللہ علیہ وسلم غازی علم الدین کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ اس نے صدیوں کا سفر اس تیزی اور کامیابی سے طے کیا کہ ارباب ِزہد و تقویٰ اور اصحابِ منبر و محراب بس دیکھتے ہی رہ گئے۔ اس نے ایک قدم انارکلی ہسپتال روڈ پر اٹھایا اور دوسرے قدم پر جنت الفردوس میں پہنچ گیا۔

یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے

اسی جنت کی تلاش میں زاہدوں اور عابدوں کے نجانے کتنے قافلے سرگرداں رہے، کیسے کیسے لوگ غاروں کے ہو کر رہ گئے، کئی پیشانیاں رگڑتے اور سر پٹختے رہے، ہزاروں سربگریباں، چلہ کش اسی آرزو میں دنیا سے اٹھ گئے، لاکھوں طواف و سجود میں غرق رہے، بے شمار صوفی و ملا وقف دعا رہے، اَن گنت پرہیزگار خیالِ جنت میں سرشار رہے، خدا ان سب کی محنت ضرور قبول کرے گا، لیکن غازی علم الدین کا مقسوم دیکھیے! نہ چلہ کیا نہ مجاہدہ، نہ حج کیا، نہ عمرہ کیا، نہ حرم کا مجاور بنا، نہ مکتب میں داخلہ لیا، نہ خانقاہ کا راستہ دیکھا، نہ کنز قدوری کھول کر دیکھی، نہ رازی و کشاف کا مطالعہ کیا، نہ حزب البحر کا ورد کیا، نہ اسم اعظم کا وظیفہ پڑھا، نہ علم و حکمت کے خم و پیچ میں الجھا، نہ کسی حلقۂ تربیت میں بیٹھا، نہ کلام و معانی سے واسطہ رہا نہ فلسفہ و منطق سے آشنا ہوا، نہ مسجد کے لوٹے بھرے، نہ تبلیغی گشت کیا، نہ کبھی شیخی بگھاری نہ کبھی شوخی دکھائی، اسے پاکبازی کا خبط نہیں، محبوبِ حجازی صلی اللہ علیہ وسلم سے ربط تھا۔ وہ تسبیح بدست نہیں، مست مئے الست تھا، وہ فقیہ مسند آرا نہیں، فقیر سرِراہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے مصلحت کیشی سے نہیں، جذبۂ درویشی سے کام لیا، چنین و چناں کے دائروں سے نکل کر کون و مکاں کی وسعتوں میں جا پہنچا، وہم و گمان کی خاک جھاڑ کر ایمان و عشق کے نور میں ڈھل گیا، نجانے ہاتفِ غیب نے چپکے سے اس کے کان میں کیا بات کہی کہ پل بھر میں دل کی کائنات بدل گئی   ؎

پروانے کا حال اس محفل میں، ہے قابل رشک اے اہل نظر

اک شب میں ہی یہ پیدا بھی ہوا، عاشق بھی ہوا اور مر بھی گیا

خدا معلوم کتنی ریاضت سے آغوشِ بسطام نے بایزیدؒ کی پرورش کی، خاکِ بغداد نے جنیدؒ کو جنم دیا، شہر قونیہ نے مولانا رومؒ کو بنایا، دہلی نے شاہ ولی اللہؒ کو پیدا کیا اور ادھر علم الدینؒ، بڑھئی کی دکان سے اٹھا اور ایک ہی جست میں زمان و مکان طے کر ڈالے۔‘‘

مولانا ظفر علی خاں نے غازی علم الدین شہیدؒ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا:

’’شہید علم الدین کے خون کی حدت سے غیرت و حمیت کے وہ چراغ روشن ہوئے ہیں، جنھیں مخالف ہوا کے تند و تیز جھونکے بھی بجھا نہیں سکتے، آپؒ کی شہادت سے قوم کو ایک نئی زندگی ملی ہے، وہ زندگی جسے اب موت بھی نہیں مار سکتی۔‘‘

زندہ ہو جاتے ہیں جو مرتے ہیں حق کے نام پر

اللہ اللہ موت کو کس نے مسیحا کر دیا

غازی علم الدین شہیدؒ اور قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ

غازی علم الدین شہیدؒ کی عظمت پر مبنی ایک ایمان افروز واقعہ ملاحظہ فرمائیں:

            ’’1953ء کی تحریک ختم نبوت میں عالمی مجلس تحفظِ ختم نبوت کے امیر قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ گرفتار ہو کر میانوالی جیل میں قید ہوئے۔ دورانِ قید میں ان کی ملاقات عبداللہ نامی ایک ایسے خوش نصیب قیدی وارڈن سے ہوئی جو جیل میں غازی علم الدین شہید کی نگرانی پر مامور تھا۔ عبداللہ نے قاضی احسان احمد شجاع آبادی کو کئی مواقع پر غازی علم الدین شہیدؒ کے حالات و واقعات سنائے۔ ایک دن عبداللہ وارڈن نے قاضی صاحب کو بتایا کہ آپ بہت خوش قسمت ہیں کہ آپ غازی علم الدین شہیدؒ والی کوٹھری میں قید ہیں۔ قاضی صاحب نے عبداللہ سے درخواست کی کہ وہ غازی علم الدین شہیدؒ کا کوئی ناقابل فراموش واقعہ سنائے۔ عبداللہ وارڈن کے چہرے پر مزید نورانیت اور بشاشت اتر آئی۔ پھر اس نے بتایا کہ جس دن یعنی 31 اکتوبر 1929ء کو جب غازی علم الدین شہید کو پھانسی ہونا تھی، اس سے ایک روز پہلے میں حسب معمول غازیؒ کی کوٹھڑی کا پہرہ دے رہا تھا۔ پیدل چلتے ہوئے میں کوٹھری سے ذرا فاصلے پر عام قیدیوں کی بیرک کی طرف آ گیا۔ مڑ کر کیا دیکھتا ہوں کہ غازی کا کمرہ خوبصورت اور دلکش روشنیوں سے بھر گیا ہے۔ میں یہ سمجھا کہ شاید غازی علم الدین شہیدؒ نے اپنے کمرے کو آگ لگا لی ہے۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ نور کا ایک بادل ہے جو تیزی سے آسمانوں کی طرف چلا گیا۔ چنانچہ میں بھاگم بھاگ غازیؒ کی کوٹھری کی طرف بھاگا۔ اندر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پورا کمرہ بہترین اور مسحور کن خوشبوئوں سے معطر اور منور تھا۔ غازیؒ حالت سجدہ میں زار و قطار رو رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد اٹھے تو میں نے ان کی قدم بوسی کی اور خود بھی بے اختیار رونا شروع کر دیا۔ پھر میں نے عرض کیا، غازی صاحب یہ کیا ماجرا تھا؟ غازی صاحب نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے پھر عرض کیا کہ حضرت! آپ یہ اہم راز اپنے سینے میں لے کر نہ جائیں اور اس واقعہ کی تفصیلات ضرور بتائیں، بہرحال غازیؒ نے میرے بے حد اصرار پر فرمایا، عبداللہ! تمھیں معلوم ہے کہ مجھے کل پھانسی ہو رہی ہے۔ میری دلجوئی اور حوصلہ افزائی کے لیے شافع محشر، حضور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خاص صحابۂ کرامؓ کے ساتھ یہاں خود تشریف لائے اور بڑی محبت اور شفقت فرمائی۔ اس موقع پر حضرت علیؓ نے مجھ سے پوچھا کہ تمھیں پھانسی کا خوف تو نہیں ہے؟ میں نے عرض کیا۔ حضور! بالکل نہیں۔ فرمایا: بیٹا اگر کوئی خوف ہے تو آئو ہمارے ساتھ چلو۔ میں نے پھر عرض کیا۔ حضور! نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔ میں تو بہت خوش اور مطمئن ہوں۔ پھر پیارے آقا و مولا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر اپنا دست مبارک رکھ کر فرمایا: پھانسی کے وقت جیل حکام تم سے تمہاری آخری خواہش پوچھیں گے، تم کہنا کہ میرے ہاتھ کھول دیں۔ میں پھانسی کا پھندا چوم کر خود اپنے گلے میں ڈالنا چاہتا ہوں تاکہ دنیا کو معلوم ہو جائے کہ مسلمان اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلمکی عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا سب سے بڑی سعادت سمجھتا ہے۔ دوسرا یہ کہ تم روزہ رکھ کر آنا، میں تمام صحابۂ کرامؓ اور فرشتوں کے ہمراہ حوض کوثر پر تیرا استقبال کروں گا اور ہم سب روزہ اکٹھے افطار کریں گے۔‘‘

یہ ہے تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا صلہ!