Language:

مرزا کادیانی کی تضادبیانیاں حصہ دوم

ایک شاعر نے کہا تھا:’’بات وہ کہیے کہ جس بات کے سو پہلو ہوں              کوئی تو پہلو رہے بات بدلنے کے لیے ‘‘    آنجہانی مرزا قادیانی اس شعر کی مکمل تصویر تھا۔ گویا شاعر نے یہ شعر مرزا قادیانی ہی کے لیے کہا تھا۔ آپ مرزا قادیانی کے کسی بیان یا کسی بھی تحریر پر غور کریں تو وہ اس شعر کی مکمل تفسیر یا گرگٹ کی تصویر نظر آئے گا۔ آپ اس مضمون کو پڑھیں اور غور فرما کر خود فیصلہ کریں گے کہ آنجہانی مرزا قادیانی  ہر بات میں متضاد رائے رکھتا تھا۔ حالانکہ اس کا دعویٰ تھا:

(1)        :’’اعلموا ان فضل اللہ معی وان روح اللہ ینطق فی نفسی‘‘    ترجمہ: ’’جان لو کہ اللہ کا فضل میرے ساتھ ہے اور اللہ کی روح میرے ساتھ بول رہی ہے۔‘‘                                                                       (انجام آتھم صفحہ 176 روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 176 از مرزا قادیانی)

صفحات کی کمی کے پیش نظر مرزا قادیانی کی تحریروں سے صرف چند حوالے پیش خدمت ہیں جن میں مکمل تضاد پایا جاتا ہے۔ پہلے تضادبیانی کے متعلق مرزا قادیانی کی ’’قیمتی آرا‘‘ ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں وہ خود اپنے دام میں کس طرح گرفتار ہوا ہے۔

(2)دو متضاد اعتقاد  :’’کوئی دانشمند اور قائم الحواس آدمی ایسے دو متضاد اعتقاد ہرگز نہیں رکھ سکتا۔‘‘

(ازالہ اوہام صفحہ 239 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 220 از مرزا قادیانی)

(3)جھوٹا’’جھوٹے کے کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے۔‘‘

(براہین احمدیہ ضمیمہ حصہ پنجم صفحہ 111 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 275 از مرزا قادیانی)

(4)مخبوط الحواس انسان’’ہر ایک کو سوچنا چاہیے کہ اس شخص کی حالت ایک مخبط الحواس انسان کی حالت ہے کہ ایک کھلا کھلا تناقض اپنے کلام میں رکھتا ہے۔‘‘

(حقیقتہ الوحی صفحہ 191 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 191 از مرزا قادیانی)

(5)دو متناقض باتیں’’ایک دل سے دو متناقض باتیں نکل نہیں سکتیں کیونکہ ایسے طریق سے یا انسان پاگل کہلاتا ہے یا منافق۔‘‘                                                                                                            (ست بچن ص 31روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 143 )

(6)پاگل، مجنوں یا منافق  ’’کسی سچیار اور عقلمند اور صاف دل انسان کی کلام میں ہرگز تناقض نہیں ہوتا۔ ہاں اگر کوئی پاگل اور مجنوں یا ایسا منافق ہو کہ خوشامد کے طور پر ہاں میں ہاں ملا دیتا ہو، اس کا کلام بے شک متناقض ہو جاتا ہے۔‘‘                                                                                                                   (ست بچن صفحہ 30 مندرجہ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 142 از مرزا قادیانی)

مرزا قادیانی کے الفاظ میں مذکورہ بالا اقتباسات کا خلاصہ یہ ہے کہ جس انسان کے کلام (تحریر) میں تناقض (تضاد) ہوتا ہے، وہ پاگل، منافق، مخبوط الحواس اور جھوٹا ہوتا ہے۔ آئیے مرزا قادیانی کے خود اپنے قائم کردہ معیار کے مطابق اس کی تحریریں ملاحظہ فرمائیں:

دابۃ الارض:

پہلا موقف: (7)دابۃ الارض سے مراد طاعون:’’تب میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہی طاعون ہے اور یہی وہ دابۃ الارض ہے جس کی نسبت قرآن شریف میں وعدہ ہے۔‘‘                                               (نزول المسیح صفحہ 38 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 415، 416 از مرزا قادیانی)

دوسرا موقف:(8)دابۃ الارض سے مراد علماء سو :’’ان المراد من دابۃ الارض علماء السوئ‘‘

               ترجمہ: ’’یقینا دابۃ لارض سے مراد علماء سو ہیں۔‘‘

(حمامۃ البشریٰ صفحہ 142 مندرجہ روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 308 از مرز قادیانی)

حضرت مسیح علیہ السلام:

پہلا موقف:(9) آسمان سے:’’صحیح مسلم کی حدیث میں جو یہ لفظ موجود ہے کہ حضرت مسیح جب آسمان سے اتریں گے تو ان کا لباس زرد رنگ کا ہوگا۔‘‘                                                                      (ازالہ اوہام صفحہ 81 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 142 از مرزا قادیانی)

دوسرا موقف:(10)آسمان سے نہیں:نحن مناظرون فی امر نزول المسیح من السمائ، ولا نسلم انہ ثابت من الکتاب والسنۃ۔ بعض احادیث میں عیسیٰ ابن مریم کے نزول کا لفظ پایا جاتا ہے لیکن کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے کہ ان کا نزول آسمان سے ہوگا۔‘‘                                                                                (حمامتہ البشریٰ صفحہ 40 روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 206 از مرزا قادیانی)

سرسیّد:

پہلا موقف:(11)سرسیّد… ایک منکر:’’میں نے سید احمد خان صاحب کا نام منکرین کی مد میں اس لیے لکھا ہے کہ ان کو خدا کے اُس الہام بلکہ وحی سے بھی انکار ہے جو خدا سے نازل ہوتی اور علم غیب کی عظمت اپنے اندر رکھتی ہے۔‘‘

                                                                           (سراج منیر صفحہ 56 مندرجہ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 58 از مرزا قادیانی)

دوسرا موقف:(12)سرسیّد… دانا اور مردم شناس:’’سرسید احمد خاں صاحب کے۔ سی۔ ایس۔ آئی نے جو اپنے آخری وقت میں یعنی موت سے تھوڑے دن پہلے میری نسبت ایک شہادت شائع کی ہے۔ اس سے گورنمنٹ عالیہ سمجھ سکتی ہے کہ اس دانا اور مردم شناس شخص نے میرے طریق اور رویہ کو بدل پسند کیا ہے۔‘‘                                        (کشف الغطاء صفحہ 13 مندرجہ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 189 از مرزا قادیانی)

سرسیّدوفات کے بعد :

پہلا موقف:(13)سرسیّد… رعونیت سے بھراتھا:’’ان کے وقت میں خدا نے یہ آسمانی سلسلہ پیدا کیا۔ مگر انھوں نے اپنی دنیوی عزت کی وجہ سے اس سلسلہ کو ایک ذرہ عظمت کی نظر سے نہیں دیکھا بلکہ اپنے ایک خط میں کسی اپنے رُوآشنا کو لکھا کہ یہ شخص جو ایسا دعویٰ کرتا ہے، بالکل ہیچ ہے اور اس کی تمام کتابیں لغو اور بے سود اور باطل ہیں اور اس کی تمام باتیں ناراستی سے بھری ہوئی ہیں۔ حالانکہ سرسیّد صاحب اس بات سے بکلی محروم رہے کہ کبھی میرے کسی چھوٹے سے رسالہ کو بھی اوّل سے آخر تک دیکھیں۔ وہ غصے کے وقت میں دنیوی رعونت سے ایسے مدہوش تھے کہ ہر ایک کو اپنے پیروں کے نیچے کچلتے تھے اور یہ دکھلاتے تھے کہ گویا ان کو دنیوی حیثیت کے رُو سے ایسا عروج ہے کہ ان کا کوئی بھی ثانی نہیں۔ ہنسی اور ٹھٹھا کرنا اکثر ان کا شیوہ تھا۔ جب میں ایک دفعہ علی گڑھ میں گیا تو مجھ سے بھی اسی رعونت کی وجہ سے جس کا محکم پودہ ان کے دل میں مستحکم ہو چکا تھا ہنسی ٹھٹھا کیا اور یہ کہا کہ آئو، میں مرید بنتا ہوں اور آپ مرشد بنیں اور حیدر آباد میں چلیں اور کچھ جھوٹی کرامات دکھائیں اور میں تعریف کرتا پھروں گا۔ تب ریاست اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے ایک لاکھ روپیہ دے دے گی۔ اس میں دو حصے میرے اور ایک حصہ آپ کا ہوا۔ گویا اس تقریر میں وہ ٹھگ جو سادھو کہلاتے ہیں مجھے قرار دیا۔ ایسا ہی اور کئی باتیں تھیں جن کا اب ان کی وفات کے بعد لکھنا بے فائدہ ہے۔‘‘                (تریاق القلوب صفحہ 339، 340 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 467، 468 از مرزا قادیانی)

دوسرا موقف:(14)سرسیّد… قدر مرداں بعد از مُردن:’’سرسید احمد خان بالقابہ کیسا بہادر اور زیرک اور ان کاموں میں فراست رکھنے والا آدمی تھا۔ انھوں نے آخری وقت میں بھی اس کتاب کا رد لکھنا بہت ضروری سمجھا اور میموریل بھیجنے کی طرف ہرگز التفات نہ کیا۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو آج وہ میری رائے کی ایسی ہی تائید کرتے جیسا کہ انھوں نے سلطان روم کے بارے میں صرف میری ہی رائے کی تائید کی تھی اور مخالفانہ رائوں کو بہت ناپسند اور قابل اعتراض قرار دیا تھا۔ اب ہم اس بزرگ پولٹیکل مصالح شناس کو کہاں سے پیدا کریں تا وہ بھی ہم سے مل کر اس انجمن کی شتاب کاری پر روئیں۔ سچ ہے ’’قدر مرداں بعد از مُردن۔‘‘                      (البلاغ صفحہ 54 روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 425 از مرزا قادیانی)

طاعون :

پہلا موقف:(15)طاعون کی خواہش:’’جب فسق کا طوفان برپا ہوا تو میں نے خدا سے چاہا کہ طاعون آئے۔‘‘

(نزول المسیح صفحہ 157 روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 533 از مرزا )

دوسرا موقف:(16)طاعون سے پناہ:’’قرآن میں بھی یہی لکھا ہے کہ وہ لوگ خود عذاب طلب کرتے تھے۔ کمبخت یہ نہیں کہتے کہ دعا کرو کہ ہمیں ہدایت ہو جائے طاعون ہی مانگتے ہیں۔ دراصل یہ لوگ دہریہ ہیں۔‘‘

             (ملفوظات جلد دوم طبع جدید صفحہ 549 از مرزا قادیانی)

 گالی کا جواب:

پہلا موقف:(17)کبھی گالی کا جواب نہیں دیا:’’وقد سبّونی بکل سبّ فمارددت علیہم جوابہم۔ ترجمہ: مجھ کو گالی دی گئی، مگر میں نے جواب نہیں دیا۔‘‘               (مواہب الرحمن صفحہ 18 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 236 از مرزا قادیانی)

دوسرا موقف:(18)گالی جوابی طور پر ہے:       ’’یہ بات بھی میں تسلیم کرتا ہوں کہ مخالفوں کے مقابل پر تحریری مباحثات میں کسی قدر میرے الفاظ میں سختی استعمال میں آئی تھی۔ لیکن وہ ابتدائی طور پر سختی نہیں ہے بلکہ وہ تمام تحریریں نہایت سخت حملوں کے جواب میں لکھی گئی ہیں۔ ‘‘                                                                    (کتاب البریہ ]دیباچہ[ صفحہ 11 روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 11 از مرزا قادیانی)

مرزا قادیانی کی  دادیاں:

پہلا موقف:(19)میری دادیاں سادات میں سے تھیں:’’میں اگرچہ علوی تو نہیں ہوں مگر بنی فاطمہ میں سے ہوں۔ میری بعض دادیاں مشہور اور صحیح النسب سادات میں سے تھیں۔‘‘                                      (نزول المسیح صفحہ 48 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 426 از مرزا قادیانی)

دوسرا موقف:(20)میری دادیاں مغلیہ خاندان سے تھیں:’’ہمارا خاندان جو اپنی شہرت کے لحاظ سے مغلیہ خاندان کہلاتا ہے اس پیشگوئی کا مصداق ہے کیونکہ اگرچہ سچ وہی ہے کہ جو خدا نے فرمایا کہ یہ خاندان فارسی الاصل ہے مگر یہ تو یقینی اور مشہود و محسوس ہے کہ اکثر مائیں اور دادیاں ہماری مغلیہ خاندان سے ہیں اور وہ صینی الاصل ہیں یعنی چین کے رہنے والی۔‘‘                                                                                                                                            (حقیقتہ الوحی صفحہ 209 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 209 از مرزا قادیانی)

حاجتیں بیان کرو:

پہلا موقف:(21)اللہ کے سامنے:

’’حاجتیں پوری کریں گے کیا تری عاجز بشر    کر بیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے‘‘

(درثمین صفحہ 157 از مرزا قادیانی) ٔ

دوسرا موقف:(22)انگریز کے سامنے : ’’التماس ہے کہ سرکار دولتمدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جان نثار خاندان ثابت کر چکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیر خواہ اور خدمت گزار ہیں۔ اس خود کاشتہ پودہ کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔ ہمارے خاندان نے سرکار انگریزی کی راہ میں اپنے خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا اور نہ اب فرق ہے۔ لہٰذا ہمارا حق ہے کہ ہم خدمات گذشتہ کے لحاظ سے سرکار دولتمدار کی پوری عنایات اور خصوصیت توجہ کی درخواست کریں، تاہر ایک شخص بے وجہ ہماری آبرو ریزی کے لیے دلیری نہ کر سکے۔‘‘                                                                                                 (کتاب البریہ صفحہ 13 مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 350 از مرزا قادیانی)