Language:

قادیانیوں سے بائیکاٹ نہ کرنے کا نتیجہ – حصہ دوم

تعلیمی اداروں میں ایمان کے لٹیرے:
یونیورسٹیوں ، کالجوں، سکولوں اور ٹیوشن سنٹروں میں قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی تبلیغی سرگرمیاں مسلمان لڑکے لڑکیوں کے لئے انتہائی مضر ہیں۔ بہت سے واقعات ایسے سامنے آئے ہیں کہ ان اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے والے طالب علم قادیانی کلاس فیلوز سے دوستی کے نتیجے میں ربوہ کی سیر کو چل پڑے اور پھر انہی کے ہاتھوں شکار ہو گئے اور اپنا ایمان لٹا بیٹھے۔
Y مون مارکیٹ اقبال ٹاؤن میں ایک ادارے میں پڑھنے والا شہزاد نامی نوجوان اپنے 2قادیانی کلاس فیلوز کی دعوت و تبلیغ سے متأثر ہو کر قادیانی ہو گیا۔ مگر بفضل تعالیٰ ختم نبوت کا لٹریچر اور ویب سائٹ وزٹ کرنے کے بعد قادیانیت پر لعنت بھیج کر مسلمان ہو گیا۔
پنجاب میڈیکل کالج Pmc فیصل آباد میں قادیانی لڑکے لڑکیوں کی گذشتہ سال تبلیغی سرگرمیاں انتہائی عروج پر پہنچ گئی تھیں۔ قادیانی لڑکیاں اپنے ہاسٹلوں میں باقاعدہ نوٹس بورڈ لگا کر احمدی درس قرآن کے نام سے پروگرام کرتی تھیں۔ قادیانیوں نے Pmc کے سامنے رہائشی سکیم میں ایک دس مرلے کا مکان لے رکھا ہے جہاں مسلمان لڑکے لڑکیوں کو کھلانے پلانے کے بہانے لے جایا جاتا ہے پھر ان کو وہاں عیاشی کروائی جاتی ہے اور ساتھ 20ہزار روپے ماہوار وظیفہ کی پیشکش کی جاتی ہے اور اس کے عوض مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ بے شک آپ اندر سے مسلمان رہیں مگر ہمارا بیعت فارم پُر کرکے وظیفہ حاصل کر سکتے ہیں ۔ یہاں کے بہت سے مسلمان لڑکے لڑکیوں کی ایمان لٹنے کی داستانیں انتہائی افسوسناک اور ہولناک ہیں ۔اور اس سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ انہیں روکنے والا کوئی نہیں۔
لاہور کا عثمان قادیانیوں سے تعلقات کی بناء پر ان کے اس دجل و فریب میں آ گیا کہ مرزا قادیانی کے بارے میں استخارہ کر لیا جائے پھر وہ استخارہ کر کے ہمیشہ کے لئے مرتد ہو گیا اور اپنے دوستوں عزیزوں کو مرزائی بنانے کے لئے دن رات کوشاں رہتا ہے۔
اچھرہ کے معروف ٹھیکیدار کا بیٹا اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن گیا۔ وہاں سے ایک قادیانی خاندان نے اس سے رشتے کے لئے رابطہ کیا۔ جب ٹھیکیدار صاحب نے قادیانیت کی بنیاد پر انکار کیا تو انہوں نے بتایا کہ تمہارا بیٹا یہاں آ کر ہمارے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا اور اب وہ ہمارے عقیدے پر ہے اور ہماری مرضی سے چلے گا۔ اب ہم اس کی شادی کر رہے ہیں ہم تو صرف تمہیں دعوت دے رہے ہیں کہ تم شادی میں شریک ہونا چاہتے ہو تو ہو جاؤ۔
جوانی کے ہتھیار سے مسلمان لڑکیوں اور لڑکوں کے ایمان کی لوٹ مار :
ایک شخص فون پر رو رہا تھا۔ اور روتے ہوئے بتا رہا تھا کہ میری بیٹی پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتی ہے وہ قادیانی ہو گئی ہے اور لاکھ سمجھانے کے باوجود اس نے مرزائی لڑکے سے شادی کر لی ہے ۔ (معلوم ہوا ہمیں اولاد کے اعمال کے ساتھ عقائد کی نگرانی بھی کرنی چاہیے۔ ادارہ )
بوڑھی اماں ابھی ہم سو رہے ہیں:
چوہدری کالونی سمن آباد کا جلیل پیسے اور نوکری کی لالچ میں سمن آباد کی قادیانی جماعت کے ہاتھوں مرتد ہوا اور اپنی بیوی کو بھی قادیانی بنا لیا۔ اس کی ماں تمام مسلمانوں سے اپیل کرتی ہے کہ کوئی ہے جو میرے اس بیٹے کا ایمان بچا لے میں انتظار میں ہوں۔ (لیکن بھوڑی اماں ! ابھی ہم سو رہے ہیں جلیل کے ساتھ نظر آنے والے 5،7 نوجوان وہ ہیں جو قادیانی ہو چکے ہیں اور انہوں نے ابھی تک اپنے گھروں میں بتایا بھی نہیں ہے۔
ربوہ سے خوبصورت لباس اور میک اپ کر کے نکلنے والی خوبصورت لڑکیاں ٹرینوں اور بسوں میں سوار سرگودھا سے فیصل آباد کے روٹ اور ارد گرد کے دیہاتوں میں پھیل جاتی ہیں اور جوانی کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر دعوت ارتداد دیتی ہیں اور سینکڑوں لوگوں کو شکار کر چکی ہیں۔ افسوس ان سینکڑوں لوگوں کا شکار روکنے والا کوئی نہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں قادیانی لڑکیوں کی تبلیغی جماعتیں اسی طرح نکلتی ہیں۔
ٹریول ایجنٹ یا کفار کے ایجنٹ؟
کچھ بد قسمت ٹریول ایجنٹ مسلمانوں کو قادیانیت کی بنیاد پر باہر بھیجنے کی ترغیب دے کر بیعت فارم پُر کرواتے ہیں، پھر قادیانی ظاہر کر کے بیرون ممالک کا ویزہ لگواتے ہیں اور چند روپوں کی خاطر ان کا ایمان ضائع کر دیتے ہیں۔یہ بہت سے لوگوں کو مرتد کر کے باہر بھجوا چکے ہیں۔
قادیانیوں کے دنیا بھر میں اجتماعات منعقد ہوتے ہیں اور جمعہ کے دن بھی ان کا ہر علاقے میں اجتماع ہوتا ہے۔ ان اجتماعات میں وہ مسلمانوں کو لازمی لے کر آتے ہیں۔ ان اجتماعات میں شرکت کرنے والے مسلمان کچھ عرصہ بعد قادیانیت کا حصہ نظر آتے ہیں۔

رفاہی کاموں کی آڑ میں مرزائیو ں کی تبلیغی سر گرمیاں:
قادیانی سماجی بہبود اور این جی اوز کے ذریعے اپنے خاص مقاصد کے حصول کے لیے ہر اس جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں کوئی قدرتی آفت، مصیبت یا حادثہ پیش آتا ہے۔ حادثات میں لوگوں کا مال، گھر بار، جانوں کا نقصان تو پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے۔ اوپر سے ان مظلوموں کی اس مصیبت اور پریشانی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایمان کے ڈاکو اپنے ارتدادی ہتھیاروں کے ساتھ وہاں حاضر ہو جاتے ہیں ۔اور جو جو لوگ ایمان بیچنا چاہیں ان کو اچھی خاصی مراعات دی جاتی ہیں۔ بے سہارا لوگوں کی کفالت کر کے ان کو اپنے دائرے میں شامل کرتے ہیں۔
اوجڑی کیمپ (1988ئ) میں قادیانیوں نے بھر پور کام کیا۔ 2005ء بالا کوٹ میں آنے والے زلزلے میں جہاں تمام مسلمان ان کی امداد کے لئے سر گرم تھے وہاں قادیانی بھی ارتدادی سرگرمیوں کو پھیلانے کے لئے بھرپور کام کر رہے تھے اور ایمان لٹانے والوں کو مراعات کی پیشکش کر کے ورغلایا جاتا رہا اور متعدد مسلمانوں کو قادیانی بنایا گیا ۔آج ربوہ میں پٹھان مربّی بننے کی تربیت لیتے نظر آتے ہیں اور پٹھانوں کے علاقوں میں قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد تشویش ناک ہے۔ اس وقت سوات اور گردو نواح کے مصیبت زدگان مسلمان بھائیوں میں تبلیغ اور بیعت فارم بھروانے کے لئے قادیانی بھرپور سر گرم عمل ہیں اور ان کی بہت سی ’’این جی اوز‘‘ وہاں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کام کررہی ہیں۔
اسی طرح عیسائیوں کی طرح مرزائی بھی ایسے علاقوں کا انتخاب کرتے ہیں جہاں کے مسلمان غریب ، جاہل اور بے دین ہوتے ہیں جیسا کہ سندھ کے پسماندہ علاقے ہیں۔ وہاں مسلمانوں کے سوا ہر مذہب بڑی تیزی سے اپنی طبع آزمائی کر رہا ہے۔
بیواؤں اور یتیموں کی امداد کے ذریعے بھی قادیانی مسلمانوں کا ایمان لوٹتے ہیں۔ ایک گھرانے کا کفیل مسلمان فوت ہو گیا۔ اس کی بیوہ اپنے تین بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت نہ کر سکی اور سکول سے انہیں اٹھا لیا۔ ان بچوں میں سے ایک بچے کا کلاس فیلو بچہ قادیانی تھا۔ اس قادیانی بچے کے باپ نے موقع کو غنیمت جانا اور بیوہ کی مالی امداد شروع کر دی۔ بچوں کی تعلیم جاری کروانے کے علاوہ خرچہ کی ذمہ داری بھی اٹھائی اور بیوہ کو مزید مستقل مالی امداد بہم پہنچانی شروع کر دی۔ آج وہ بیوہ مع خاندان اس شخص کی تبلیغ سے قادیانی ہو چکی ہے۔اور ظاہر ہے اس کے بچے بھی قادیانی ہی بنیں گے۔ (اللہ محفوظ رکھے۔ آمین)
نوٹ: اس طرح کے واقعات بہت زیادہ ہیں ۔جہاں بھی کو ئی گروپ ، جماعت فتنہ قادیانیت کے خلاف کام کر رہی ہے ان سے رابطہ کرنے پر بہت سے واقعات مل سکتے ہیں۔ ہر یونیورسٹی ، کالج اور ہسپتال میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
اس موضوع پر محترم محمد متین خالد حفظ اﷲ کی کتاب ’’قادیانیت ایک ’’دہشت گرد تنظیم ‘‘کا مطالعہ بھی فائدہ مند رہے گا۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دینی اور رفاہی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ اور اس کام کو اتنا پھیلائیں کہ مسلمانوں کو ان مرتدوں کے جال میں پھنسنے کا موقع ہی نہ ملے۔