Language:

سلطان القلم

میں سلطان القلم ہوں
(1)”اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سلطان القلم رکھا اور میرے قلم کو ذوالفقار علی فرمایا۔”

(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات، صفحہ 58، طبع چہارم، از مرزا قادیانی)


سلطان القلم کا دعویٰ
(2)”میں بار بار یہی کہتا ہوں کہ دو قسم کی برکتیں جن کا نام عیسوی برکتیں اور محمدی برکتیں ہیں، مجھ کو عطا کی گئی ہیں۔ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے علم پا کر اس بات کو جانتا ہوں کہ جو دنیا کی مشکلات کے لیے میری دعائیں قبول ہو سکتی ہیں، دوسروں کی ہرگز نہیں ہو سکتیں اور جو دینی اور قرآنی معارف حقائق اور اسرار مع لوازم بلاغت اور فصاحت کے میں لکھ سکتا ہوں، دوسرا ہرگز نہیں لکھ سکتا۔ اگر ایک دنیا جمع ہو کر میرے اس امتحان کے لیے آوے تو مجھے غالب پائے گی اور اگر تمام لوگ میرے مقابل پر اٹھیں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے میرا ہی پلہ بھاری ہوگا۔”

(ایام الصلح صفحہ 160 مندرجہ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 407 از مرزا قادیانی)


سلطان القلم کی گل افشانیاں
(3) ”اے عبد الحق غزنوی، اے گمراہ عبد الجبار، اورتم نے دیکھ لیا کہ تمہیں طاقت نہیں ہوئی کہ میری کلام جیسی کلام بنا لائو۔ اورعبد الجبار کی جماعت میں سے ایک موذی نے کہا کہ یہ شخص دجال اوراکفرا لکفار ہے اوران میں سے ایک غزنوی شخص ہے جس کو عبد الحق کہتے ہیں اور اسنے گالیاں دیں اورپشہ کی طرح اچھلا اور وہ ایک چوہا ہے شیروں کو اپنے سوراخ میں آواز سے ڈراتا ہے اورایک شیخ لمبی زبان والا بہت ہذیان والا عبد الحق سے مشابہ ہے۔ اس نے گمان کیا ہے کہ وہ زمانہ کے فاضلوں میں سے ہے اوریہ شیخ نجفی ہے اورشیعہ ہے۔ اوراس نے عربی میں میری طرف ایک خط لکھا۔بلکہ اسنے باوجود اس کے شب اورستم کو کمال تک پہنچادیا۔ اورکسی گالی کو نہ چھوڑا جسکو کمینہ رذیلوں کی طرح نہ لکھا۔ اورنہیں جانتا کہ ایمان کیا ہے اورمومنوں کی خصلتیں کیا ہیں۔ اور ہم گالی کی طرح رجوع نہیں کرتے جیسا کہ اس نے عناد سے کیا۔ مگر تو کمینوں اور سفلوں میں سے تھا۔ اورتمام تر تعجب یہ ہے کہ عبد الحق غزنوی پانچ برس سے مجھے گالیاں نکال رہا ہے۔ اور ہم نے فحش گوئی سے پرہیز کیا ہے اور ہر ایک درخت پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ اورامید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے تجاوز سے باز آجائیں گے اوربکواس سے باز نہ آئے۔ پس میں نے جان لیا کہ وہ مردود اور مخذول ہیں۔ اوربد بخت اور محروم ہیں اپنے تئیں تو بہت نیک آدمیوں میں سے خیال کرتا ہے اوربدبختوں کے طریق پر چلتا ہے۔ فاسقوں کی طرح تو زندگی بسر کرتا ہے۔ تیری باطنی پلیدی نے تیری صورت کو متغیر کردیا تو ایک بھیڑیا ہے نہ انسان کی قسم اورشریروں میں سے ہے اورتو بوڑھا ہوگیا اورچمڑا پرانا ہو گیا اورخبث اور فساد کے طریقوں کو تو نہیں چھوڑتا۔ قبل اس کے جو تجھ کو کیڑے کھالیں اورموت آجائے اور تو نے مجھ سے دشمنی کی پس خدا تجھے تباہ کرے اورجلد بازوں کی طرح بکواس مت کر پس خدانے تیرا منہ کالا کیا۔ کلب العناد، پس اے مسخ شدہ اورتیرا سر تیرے ہی جوتوں کے ساتھ نرم کیا جائے گا۔
تجھ پر لعنت، اے غزنی کے بندر،توکتوں کی طرح تھا، بک بک کرنے والا، کم معرفت لکنت لسان کا داغ رکھنے والا
اورکتا ایک صورت ہے اور تو اسکی روح ہے۔ پس تیرے جیساآدمی کتے کی طرح بھونکتا ہے اور فریاد کرتا ہے۔
ہم نے تنبیہہ کے لیے تجھے طمانچہ مارا مگر تو نے طمانچہ کو کچھ نہ سمجھا۔ پس کاش ہماری پاس مضبوط اونٹ کے چمڑے کا جوتا ہوتا۔
اور جو گالی تو دینا چاہے گا وہ ہم سے سنے گا۔ اور اگر تو بات اورحملہ میں نرمی کرے گا تو ہم بھی نرمی کریں گے۔
اورمیں تیرے نفس میں علم اورعقل نہیں دیکھتا۔ اور تو خنزیر کی طرح حملہ کرتا ہے اورگدھوں کی طرح آواز کرتا ہے۔
اورتو نے بدکار عورت کی طرح رقص کیا۔ اورمجھے فاسق ٹھہرایا حالانکہ تو سب سے زیادہ فاسق ہے۔
اے شیخ شقی سوچ۔ اورانسان کی طرح فکر کر اورگدھے کی طرح آواز نہ کر۔
پس میں قسم کھاتا ہوں کہ اگر خدا کا خوف اورحیا نہ ہوتا۔ تو میں قصد کرتا کہ گالیوں سے تجھے فنا کردیتا۔
(حجتہ اللہ ص12تا18مندرجہ روحانی خزائن جلد نمبر12،ص172تا236 از مرزا قادیانی)
پر میشر کی جگہ
(04) ”پر میشر ناف سے دس انگلی نیچے ہے (سمجھنے والے سمجھ لیں)۔”
(چشمہ معرفت صفحہ 106 مندرجہ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 114 از مرزا قادیانی)
پرمیشر ہندوئوں کے خدا کو کہتے ہیں۔ مرزا قادیانی نے ہندوئوں کے خدا کو اپنی ناف سے دس انگل نیچے قرار دے کر انہیں بہت بڑی گالی دی۔ اس کے رد عمل میں ہندوئوں نے نہ صرف اپنے جلوسوں میں اسلام اور حضرت محمد مصطفی ۖ کی توہین کی بلکہ مسلمانوں کی دل آزاری پر مبنی ”ستیارتھ پرکاش” نامی رسوائے زمانہ کتاب بھی لکھی جس کے پہلے ایڈیشن میں صرف 13ابواب تھے جبکہ مرزا قادیانی کی طرف سے ہندوئوں کی مذہبی شخصیات کو گالیاں دینے کے بعد چودھویں باب کا اضافہ کیا گیا جس میں انہوں نے حضور نبی کریم ۖ کو ناقابل بیان گالیاں دیں۔ پھر ایک عرصہ بعد بدنام ترین کتاب ”رنگیلا رسول” بھی لکھی گئی جس سے برعظیم کے مسلمانوں میں کہرام برپا ہوگیا۔ اس کی تمام تر ذمہ داری مرزا قادیانی اور اس کی ذریت پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے ہندوئوں کو اشتعال دلایا۔ حالانکہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جھوٹے خدائوں کو بھی گالی نہ دو مبادا یہ کہ وہ تمہارے سچے خدا کو گالی دیں۔
اس تحریر کو پڑھ کر اندازہ کریں کہ کیا یہ تحریر سلطان القلم کی ہے یا کسی……………….
یورپین رنڈیاں ہندوستان لائی جائیں
(05)یو رپین سپاہیوں کے لئے یورپین عورتیں بہم پہنچائی جائیںتو ان سے مرض آتشک کا خدشہ نہیں رہ سکتا کیونکہ ایک یو رپ میںمرض مذکورہ شاید ہو گا ہی نہیں دوم ان عورتوں کو بر وقت بھرتی ڈاکٹروں کے ذریعہ مثل فوجی سپاہیو ں کے ملاحظہ کرایا جائے گا ۔۔۔۔۔ اس بات سے تو کوئی انکار ہی نہیں کر سکتا کہ ولایت میں مثل ہندوستان کے فاحشہ عورتیں موجود ہیں۔ اس لیے گورنمنٹ کو اس انتظام میں ذرا بھی وقت نہ ہوگی بلکہ ہمیں یقین ہے کہ یورپ کی مہذب کسبیاں (واہ مرزا قادیانی! کسبیاں اور مہذب!۔مرتب) بہادر سپاہیوں کو خوش رکھنے کے لیے نہایت خوشی سے اپنی خدمات سپرد کر دیں گی رہی یہ بات کہ ان عورتوں کے ہندوستان لانے اور واپس لے جانے میں گورنمنٹ کو رقم کثیر خرچ کرنی پڑے گی۔ اس کا ہندوستان کے باشندوں کو ذرا بھی رنج نہ ہوگا جہاں وہ ملٹری ڈیپارٹمنٹ کے اخراجات کے لیے پہلے سے ہی لاتعداد روپیہ خوشی سے دیتے ہیں اس رقم کے اضافہ سے بھی ہرگز انھیں اختلاف نہ ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ ان کے لیے کوئی ایسا قانون بنایا جائے جس سے یہ اخلاق اور مذہب کو بگاڑنے کے علاوہ عوام کی صحت کو ہمیشہ کے لیے خراب کرنے کے قابل نہ رہ سکیں اور وہ قانون صرف قانون دکھائی ہی ہے۔ ہم نہایت شکر گزار ہوں گے اگر دوبارہ ہند میں قانون دکھائی جاری کیا جائے گا مگر یہ شرط ضرور ساتھ ہے کہ گورہ لوگوں کے لیے یورپین رنڈیاں بہم پہنچائی جائیں۔ یقین ہے کہ گورنمنٹ ہند اور معزز ہمعصران اس معاملہ پر ضرور توجہ اور غور فرمائیں گے۔”
(آریہ دھرم صفحہ 72 تا 75 مندرجہ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 72 تا 75 از مرزا قادیانی)
سلطان القلمی کا نادر نمونہ
(06) ”جس طرح کھانگڑ بھینس کا دودھ نکالنا بہت مشکل ہے۔ اسی طرح سے خدا کے نشان بھی سخت تکلیف کی حالت میں اترا کرتے ہیں۔”
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 428 طبع جدید از مرزا قادیانی)
ہوں بشر کی جائے نفرت……
”سلطان القلم ”مرزا قادیانی اپنے ایک شعر میں اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہتا ہے ۔
(07) ”کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار”
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 97 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 127 از مرزا قادیانی)
اس شعر میں مرزا قادیانی اپنے بارے میں کہتا ہے کہ ”نہ میں خاک کا کیڑا ہوں نہ میں انسان کا بچہ ، بلکہ میں انسان کی نفرت والی جگہ اور انسان کی عار(شرم) ہوں ”
سلطان القلم مرزا قادیانی کے قلم سے لکھی ”علمی” تحریریں
حمل کاذب
(08) ”اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک تو حمل حقیقی ہوتا ہے۔ جب مدت مقررہ نو ماہ گزر جاتے ہیں تو لڑکا یا لڑکی پیدا ہوجاتی ہے۔ ایک اس کے مقابلہ میں حمل کاذب ہوتا ہے۔ بعض عورتیں رات دن اولاد کی خواہش کرتی رہتی ہیں جس سے رجاء کی مرض پیدا ہو جاتی ہے اور جھوٹا حمل ہو کر پیٹ پھولنے لگتا ہے اور حمل کی علامات ظاہرہوتی ہیں۔ لیکن نو ماہ کے بعد پانی کی مشک نکل جاتی ہے۔”

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 105، 106 طبع جدید از مرزا قادیانی)


عورتوں کی خاص قسم
(09) ”تحقیق کی رُو سے بعض اس قسم کی بھی عورتیں ہوتی ہیں کہ قوت رجولیت اور انثیت دونوں اُن میں جمع ہوتی ہیں اور کسی تحریک سے جب اُن کی منی جوش مارے تو حمل ہوسکتا ہے۔” (چشمہ معرفت صفحہ 218 مندرجہ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 226 از مرزا قادیانی)