Language:

کادیانیت ارباب اختیار کی نظر میں

فتنہ قادیانیت کے بارے میںارباب اقتدار کے ایمان افروز مشاہدات و تاثرات اور انکشافات درج کئے جاتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم :
”میرا ایمان اسلام پر ہے، میں مسلمان ہوں، مجھے اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے۔ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبیۖ ہیں۔ انکے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں آسکتا۔ فیصلہ ہو چکا ہے اور فیصلہ یہ ہے کہ مسلمان وہ ہے جو ختم نبوت کا قائل ہے اور جو ختم نبوت کا قائل نہیں وہ مسلمان نہیں”۔
”قادیانی اتنے خطرناک ہیں۔ اس کا مجھے احساس ان دودنوں میں ہوا۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ قادیانی مذہب کے لوگ اس قدر خوفناک ارادے رکھتے ہیں”۔
جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم:
”قادیانیت کا وجود عالم اسلام کے لئے سرطان کی حیثیت رکھتا ہے اور حکومت پاکستان مختلف اقدامات کے ذریعے اس بات کو یقینی بنا رہی ہے کہ اس سرطان کا خاتمہ کیا جائے۔ جنوبی ایشاء کے مسلمانوں کے لئے یہ بات قابل فخر ہے کہ انہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت کا پردہ چاک کیا اور دنیا کو اس کے فریب سے آگاہ کیا۔ ختم نبوت کا عقیدہ نہ صرف ملت اسلامیہ کے ایمان کا بنیادی نکتہ ہے بلکہ پوری انسانیت کے لئے اللہ تعالیٰ کے دین اور رحمت کی تکمیل کا عالمی پیغام ہے”۔
قادیانیوں کے بارے میں آرڈیننس کے نفاذ کا ذکر کرتے ہوئے جنرل محمد ضیاء الحق نے کہا کہ ”اس آرڈیننس کے انتہائی اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں اور اس سے اسلامی معاشرے کے قیام میں بڑی مدد ملے گی۔ قادیانیوں اور احمدیوں کے بارے میں آرڈیننس نافذ کر کے حکومت نے نہ صرف اسلام کی عظمت کی بحالی کے لئے اپنے عزم کا اظہار کردیاہے بلکہ اس نے معاشرے کی خرابیوں کو دور کرنے کا تہیہ کررکھا ہے۔ ہمیں اصل خطرہ انہی منافقوں(قادیانیوں) سے ہے جو مسلمانوں کالبادہ اوڑ ھ کر ہماری صفوں میں گھسے ہوئے ہیں”۔
بے نظیر بھٹو صاحبہ (سابقہ وزیر اعظم)
بے نظیر بھٹو نے ایک سوال کے جواب میں کہا ”قادیانیوں کو اقلیت قراردینے سے قبل قومی اسمبلی میں بلاکر یہ موقع دیا گیا تھا کہ وہ ثابت کرسکیں کہ وہ ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں لیکن قادیانی سربراہ نے قومی اسمبلی میں آکر جو موقف بیان کیا وہ ختم نبوت سے مکمل انکار تھا۔ لہٰذا ملک کی منتخب اسمبلی میں اتفاق رائے سے قادیانیوں کو آئینی ترمیم کے ذریعے غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ اس لئے وہ ترمیم درست ہے اور اسے ختم نہیں کیا جائے گا”۔
محمد خان جونیجو (سابق وزیراعظم):
”ختم نبوت کے منکرین (قادیانیوں) کے خلاف پوری قوت سے کاروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ توہین ختم نبوت برداشت نہیں کی جائیگی”۔
میاں نواز شریف (سابق وزیرِ اعظم پاکستان):
”حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کسی گستاخی پر کوئی بڑی سے بڑی سزا بھی کم ہے”۔
راجہ محمد ظفر الحق (سابق وفاقی وزیر):
”ختم نبوت کے بغیر اسلام کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ملک کے دانشور طبقہ اورپڑھے لکھے لوگوں کو بھی اس مسئلہ کی سنگینی کا علم نہیں ، وہ قادیانیوں کومسلمانوں کاایک فرقہ سمجھتے ہیں ار اس بات پر ناراض ہیں کہ حالیہ صدارتی آرڈیننس کیوں جاری کیا گیا۔ اگرمرتدین کے بارے میں رواداری کی گنجائش ہوتی تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جب لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں قتل نہ کراتے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نبوت کا دعویٰ کرنے والوں اور ان کے ساتھیوں کو قتل کروانے کے لئے ساڑھے بارہ سو جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوشہید نہ کراتے۔
چوہدری پرویز الٰہی (سابق صوبائی وزیر)
”کسی قادیانی کو مسلم لیگ میں شامل نہیں ہونے دیا جائے گا”۔
محمد حنیف طیب (سابق وفاقی وزیر مملکت)
”قادیانیت باقاعدہ ایک الگ مذہب ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ جس کامقصد ہی مسلمانوں کوآپس میں لڑا کر ان کی قوت کو ختم کرناہے۔ ایک عام مسلمان اس گھنائونی تحریک کے متعلق کچھ نہیں جانتا۔ حالانکہ اس وقت یہ تحریک ملک کے سارے اعصابی نظام پر چھائی ہوئی ہے۔ میں نے یہ تہیہ کرلیا ہے کہ اس تحریک کوکچلنے کے لئے مقدور بھرجدو جہدکرتا رہوں گا۔ انجمن طلباء اسلام کا ایک کارکن مرزائیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہے۔ راہنمایان قوم اگر نظریہ پاکستان کے حق میں مخلص ہیں تو مجھے ان سے توقع ہے کہ وہ اپنے معمولی قسم کے اختلافات بھلادیں گے اور کرسیوں کی خاطر لڑنے کی بجائے قادیانیوں کے خلاف منظم تحریک چلائیں گے تاکہ اسلام کو برسر اقتدار لایا جاسکے۔ اگر انہوں نے اس وقت اپنی ذمہ داریوں کو محسوس نہ کیا تو دنیا و آخرت میں ان کا حشر برا ہوگا۔ میں علمائے کرام اور مشائخ عظام سے دست بستہ عرض کروں گا کہ یہ وقت صرف خانقاہوں اور مدرسوں میں بیٹھنے کا نہیں ہے بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ میدان میں آکر عوام کو قادیانیت کے زہر سے بچایا جائے، میں توقع رکھتا ہوں کہ علمائے کرام و مشائخ عظام اپنے معمولی قسم کے اختلافات کو مٹا کر گلی کوچوں میں قادیانیت کے خلاف تحریک چلا کرنیابت رسولۖ کا حق ادا کریں گے۔

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری


اگر علمائے کرام و مشائخ عظام متحد نہ ہوئے اور محض اپنی ذاتی انا کی خاطر ناموس رسالت ۖ کو قربان کردیا تو تمام مسلمانوں کے گمراہ ہونے کی ذمہ داری ان پر عائد ہوگی”۔
صاحبزادہ فاروق علی خان سابق سپیکر قومی اسمبلی:
”ناموس رسالتۖ کا مسئلہ نازک اور احساس ہے، مسلمان جان بھی قربان کردینا ایک انتہائی معمولی بات سمجھتا ہے۔ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ امت کو جو والہانہ عشق ہے اس کی زبان و قلم سے بیان کرنا ناممکن ہے۔ ربوہ کی قادیانی جماعت کے عقائد فی الواقع خطرناک ہیں۔ اس فرقے کا ہر گروہ عقائد کا خطرناک گورکھ دھندا لئے پھرتا ہے اگر قادیانی جماعت مذہبی طورپر خطرناک ہے تو لاہوری جماعت اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ دونوں فرقوں میں عقائد کا فرق مذہبی کی بجائے سیاسی ہے۔ مذہبی طور پر دونوں ایک ہیں۔ پاکستان کی تاریخ پہلی بار1973ء کا آئین متفقہ طور پر بنا۔ پھرقادیانیوں کے بارے میں یہ فیصلہ بالاتفاق ہوا۔ اسکے سوا متفقہ فیصلے کی کوئی مثال میرے علم میں نہیں۔ ولی خاں کی نیپ نے اس بارے میں مفتی محمود کواپنا قائد تسلیم کیا تھا کہ ان کی رائے ہماری رائے ہے جس روز فیصلہ ہوا۔ ولی خاں سوات میں تھے۔ میں نے ان کو سوات سے بلایا۔ وہ آئے اور انہوںنے بھی فیصلے پر دستخط کردئیے”۔
مولانا عبدالستار نیازی (سابق وفاقی وزیر):
” مرزائی جہاں کہیں بھی موجود ہے کفر کاایجنٹ ہے۔ اسلام کے خلاف جاسوس ہے۔ قادیانیوں نے بغداد کے سقوط پر گھی کے چراغ جلائے تھے”۔
سردار محمد عبدالقیوم خان (صدر آزاد کشمیر)
”اب قادیانیت کے سکڑنے بلکہ ختم ہونے کاوقت آگیا ہے۔یہ ہندوئوں اوریہودیوں کی طرح خوبصورت لڑکیاں، نوکریاں اور رقم دے کر مسلمانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ ہم آزاد کشمیر میں کوشش کررہے ہیں کہ اس سرزمین کوقادیانیت کے فتنہ سے محفوظ رکھیں وہاں انہوں نے بہت سازشیں کی ہیں”۔
سردار سکندر حیات (وزیرِ اعظم آزاد کشمیر):
”وزارت خارجہ میں موجود قادیانی مسئلہ کشمیر کو پھر سرد خانے میں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں”۔
ایمـپی بھنڈارا سابق وفاقی وزیر اقلیتی امور:
”پاکستان میں قادیانیوں کو عبادت کرنے سے کوئی نہیں روکتا۔ ہندوئوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں قادیانیوں میں بہت کم فراخ دلی پائی جاتی ہیں۔ انہیں ایسے اقدام نہیں کرنے چاہئیں جس سے دوسروں کی دل آزاری ہو، اس کے علاوہ قادیانی فوراً مرنے مارنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔یہ اپنے اداروں میں غیر قادیانیوں کو جگہ نہیں دیتے”۔