Language:

ملکہ وکٹوریہ کا روحانی و سیاسی عاشق – سید یونس الحسینی

1857 ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی دیوانہ وار قربانیوں سے تاجِ برطانیہ بھونچکا رہ گیا۔ فرنگی دنگ تھے کہ وہ کونسا جذبہ ہے جو فرزندانِ اسلام کو خاک و خون میں بے دریغ تڑپنے پر اکساتا ہے۔ اس بنیادی نقطے کی نقب کشائی کیلئے لارڈ مئیو نے1869ء میں سرولیم ہنٹر کو اس معاملے میں ایک تحقیقاتی رپورٹ مرتب کرنے کا حکم د یا۔ اس رپورٹ کا لب لباب یہ تھا کہ ’’جہادہی وہ نظر یہ ہے جو ان مسلمانوں کے شدید جوش ، تعصب، تشدد اور قربانی کی خواہش کی بنیاد ہے۔ اس قسم کا عقیدہ انہیں ہمیشہ حکومت کے خلاف متحد کرسکتا ہے اس لئے جس قدر ممکن ہوسکے ایسا محاذ قائم کیا جائے جو ان کی ضرررسانی کو ختم کردے یا کم از کم ان عقائد (جہاد) کے پس پردہ پائی جانے والی جذباتی اپیل کو سردکردے۔‘‘ 1869ء ہی میں برطانوی شہہ دماغوں، اعلیٰ سیاستدانوں ، اراکین پارلیمنٹ اور نامور مسیحی مذہبی رہنمائوں پر مشتمل ایک وفد1857ء کی جنگِ آزادی کے محرکات کا جائزہ لے کر سفارشات پیش کرنے کیلئے بھیجا گیا جن پر عمل پیرا ہو کر مسلمانوں کے اندر ایسی تحریک پید ا کی جائے جو ان کی وحدت کو چکنا چور کردے اور وہ کسی اجتماعی تحریک میں حصہ لینے کے قابل نہ رہیں۔ اس طرح برطانوی حاکمیت کیلئے پیداشدہ خطرات کم سے کم ہوسکیں گے۔ چنانچہ برطانوی کمیشن اور مشنری فادرز کی تیار کردہ الگ الگ رپورٹیں یکجا کر کے ’’ہندوستان میں برطانوی سلطنت کا وردد‘‘(The Arrival of British Empire in India) کے زیرِ عنوان کتابی صورت میں شائع کردی گئیں جو انڈیاآفس لائبریری میں آج تک موجود ہے۔ اس کا ایک الگ اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔’’ملک( ہندوستان) کی آبادی کی اکثریت اپنے پیروں یعنی روحانی پیشوائوں کی اندھا دھند پیروی کرتی ہے۔ اگراس مرحلے پر ہم ایک ایسا آدمی تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائیں جو اس بات کیلئے تیار ہو کہ اپنے لئے ’’ظلی نبی‘‘(Apostolic Prophet) ہونے کا اعلان کردے تو لوگوں کی بڑی تعداد اس کے گرد جمع ہوجائیں گی لیکن اس مقصد کو سرکاری سرپرستوں میں پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ ہم نے پہلے بھی غداروں ہی کی مدد سے ہندوستانی حکومتوں کو محکوم بنایا۔ ہمیں ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے ملک میں داخلی بے چینی پیدا ہوسکے۔‘‘

یہ ان دنوں کی بات ہے جب قادیان کا چھٹکھیلا مرزا غلام احمد سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر مسٹر پارکسن کے دفتر میںبطور اہلمد ملازمت کررہا تھا۔ افسر موصوف عالمی صیہونی تحریک کے معتمد مگر خفیہ معاون اراکین (Sleeing Parterns) میں شامل تھے انہوں نے ہونہاد بردا کے چکنے چکنے پات دیکھ بھال کراخذکرلیا تھا کہ کام کا بندہ یہی ہے۔ انہوں نے برطانیہ کے ایک سیکرٹ ایجنٹ سیالکوٹ مشن کے انچارج پادری ریورنڈبٹلر ایم اے سے مرزا کا مکمل تعارف کروایا۔ کئی ایک خفی وجلی ملاقاتوں کے بعد ڈی سی صاحب کی ’’معاونت وشفقت خسروانہ‘‘ سے تمام معاملات طے پاگئے۔ منصوبے کی تکمیل پر بٹلر کی خوشی بیکراں تھی یہ دل خوش کن خبر لے کر برطانیہ جانے سے پہلے وہ ڈی سی آفس میں مرزا کو ملنے گئے۔ افسر اعلیٰ نے بظاہر بے اعتناعی سے پوچھا کیسے آناہوا کوئی کام ہو تو فرمائیے۔ مگر کام تو ہوچکا تھا۔ چنانچہ بٹلر نے کہا صرف آپ کے منشی سے ملنے آیا تھا۔ ملاقات ہوئی، رازونیاز ہوئے اور پادری صاحب برطانیہ چلے گئے۔ ان کے جاتے ہی 1868ء میں بغیر کوئی معقول وجہ بتائے مرزا نے ملازمت چھوڑ کر قادیان میں آرہن بسیرا کیا اور تصنیف و تالیف کے کام میں لگ گیا۔ عیسائی پادریوں اور آریا سماجیوں نے مناظرانہ چشمک تو صرف دکھاوے کی تھی کہ مسلمانوں کو ہمدردیاں جیتی جائیںتاکہ اصل ہدف تک پہنچنا سہل ہوسکے۔ یہ سب تعارفی کاروائیاں تھیں جن میں برطانوی محکمہ جاسوسی کے مقرر کردہ پادریوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور بالآخر وہ مرزا کے دعوائے ظلی نبوت پر منتج ہوئیں۔ یہ قادیانیت، احمدیت یا مرزائیت کا نقطہ آغاز تھا جس نے چومتے ہی اسلام کا گال کاٹ لیا۔ اس شجر خبیثہ کے منحوس برگ وبار شروع سے اُمت مسلمہ کو یرغمال بنانے کی نامشکور سعی میں مصروف ہیں۔ یہ استحصالی گروہ کس طرح مسلمانوں کو شکار کرتا ہے۔ بڑی عجیب داستان ہے۔

مرحوم قدرت اللہ شہاب کے اشہب قلم کی تیز رفتار زقندیں اس بہیمت اور بلیگ میلنگ کا کچھ کچھ افشردہ اشارہ کرتی ہیں، لکھتے ہیں:’’آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر بھی وہی (مرزا بشیرالدین محمود) بن بیٹھے۔ یہ قادیانیوں کی ایک سوچی سمجھی چال ثابت ہوئی اس کمیٹی کے قائم ہوتے ہی مرزا بشیرالدین محمود نے ہر خاص و عام کو یہ تاثر دینا شروع کردیا کہ ان کی صدارت میں کمیٹی قائم کرکے ہندوستان بھر کے سرکردہ مسلمان اکابرین نے ان کے والد مرزاغلام احمد قادیانی کے مسلک پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ اس شرانگیز پراپیگنڈہ کے جلو میں قادیانیوں نے انتہائی عجلت کے ساتھ اپنے مبلغین کو جموں و کشمیر کے طول و عرض میں پھیلانا شروع کردیا تاکہ وہ ریاست کے سادہ لوح عوام کو ورغلا کر انہیں اپنے خود ساختہ نبی کا حلقہ بگوش بنانا شروع کردیں۔ یہ مہم کافی کامیاب رہی۔ کئی دوسرے مقامات کے علاوہ خاص طور پر شوپیاں میں مسلمانوں کی ایک خاصی تعداد قادیانی بن گئی۔ پونچھ شہر میں بھی مسلمانوں کی اکثریت نے قادیانی مذہب اختیار کرلیا۔ یہ خبر سنتے ہی رئیس الاحرار مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ پونچھ شہرپہنچے اور اپنی خطیبانہ آتش بیانی سے قادیانی ڈھول کا ایسا پول کھولا کہ شہر کی جو آبادی مرزائی بن چکی تھی وہ تقریباً ساری کی ساری تائب ہو کر از سر نو مشرف بہ اسلام ہوگئی۔‘‘

احمدیت کا یہ رُخِ جفا آپ نے ملاحظہ فرمایا۔ ظلم و جور کا یہ بھی ایک اندازِ بے پناہ ہے۔ معصوم مسلمانوں کی بلیک میلنگ کا یہ مکروہ بیوپار تاایں دم جاری ہے۔ عزیزانِ چمن کو سات سمندر پار دیارِ مغرب بھیجنے کیلئے ان کا جال ہر وقت تیار ملتا ہے۔ ادھرمرزائیت کا سرٹیفکیٹ ملا اُدھر یورپ جانے کے انتظامات مکمل ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک زبردست حقیقت ہے کہ مادیت پرستی کے رجحان نے ہماری معاشرتی چولیں ہلاکر رکھ دی ہیں۔ مسلم سرمایہ داروں کا اس معاملے میں مسلسل اغماض بھی اس دھندے کی بڑھوتی کا بڑا سبب بنا۔ مرزائی تحریک کے خمیر میں یہ بات شامل تھی کہ لوگوں میں تاجِ برطانیہ کے ساتھ وفاداری کے جذبات پیدا کرکے انہیں استعمار کا تابع مہمل بنادیا جائے۔ صرف یہی طریقہ ہے جس سے مرزاکی خانہ ساز نبوت کو پھلنے پھولنے کا موقع مل سکتا تھا چنانچہ اس نے ملکہ وکٹوریہ کے نام خط میں بالوضاحت بیان کیا کہ ’’’احمدیت آپ کا خودکاشتہ پودا ہے جس کی آبیاری آپ کا فرض ہے‘‘ اس کے ساتھ ساتھ اپنے مخالفین کو ایسی گالیاں بکی ہیں کہ شرافت منہ چھپائے پھرتی ہے مثلاً

(1)        میری سب کتابوں کو مسلمان محبت کی آنکھ سے دیکھتے ہیں ان کے معارف سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور میرے دعووں کی تصدیق کرتے ہیں مگر بدکار عورتوں کی اولاد نہیں مانتے۔                                                                                              (آئینہ کمالات اسلام صفحہ547-548)

(2)        جو ہماری فتح کا قائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے۔             (انوارالاسلام صفحہ نمبر3 ، روحانی خزائن جلد 9 ، صفحہ31)

(3)        بلاشک ہمارے دشمن جنگلوں کے سور ہیں اور ان کی عورتیں کتیوں سے بدتر ہیں۔                      (نجم الہدیٰ صفحہ53، روحانی خزائن جلد14)

(4)        تذکرہ مجموعہ الہامات میں لکھا:’’خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ہر وہ شخص جس کو میری دعوت پہنچی اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں۔

(5)        نزول المسیح میں وارد ہے ’’جو شخص میرا مخالف ہے وہ عیسائی ، یہودی ، مشرک اور جہنمی ہے۔‘‘

(6)        کلمۃ الفصل صفحہ20 از مرزا بشیر احمد میں ہے۔’’ہر ایک شخص جو موسیٰ علیہ السلام کو مانتا ہے مگر عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتا یا عیسیٰ علیہ السلام کو مانتا ہے مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتا یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تو مانتا ہے مگر مسیح موعود (مرزا غلام قادیانی) کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ہمسری، تضحیک، حضور ختمی مرتبت سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید توہین اور آپ کے منصب ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کی جرات ایسے جرائم ہیں جن کی دنیا وآخرت میں قطعاً معافی نہیں۔ ہر صاحب ایمان شخص کیلئے برطانوی استعمار کے اس فرزندناہموار کی سارقانہ جسارت انتہائی ناقابل برداشت ہے۔ ذرا دیکھئے تو نبوت و رسالت کے شخص اعظم جناب محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیات مبارکہ کس نہج پر تھیں۔ تاریخ و سیرت کی تمام کتب شاہد عادل ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مطلع نور دین و ایماں، مخزنِ فضلِ یزداں، معدنِ لطف وجود واحساں ہیں۔ وہ بے شک رحمتِ کبریا ، سرورانبیائ، رہبرِ اصفیا ہیں۔ وہ ہادی انس و جاں، مونسِ بیکساں اور سب کے آرامِ جاں ہیں۔ وہ وجہ لطف و عطائے رب العلا ہیں، وہ جانِ لطف و عطا ہیں، وہ حسنِ ارض و سما ہیں، وہ شاہ ہر دوسراہیں، وہ عطائے ربِ جلیل دعائے نطقِ خلیل اور غمزدوں کے وکیل ہیں۔ ان کی نگاہِ لطف میں وسعتیں ہیں، ان کے دامانِ التفات میں رحمتیں ہیں، ان کے تذکارِ مقدس میں اللہ کی عطاکردہ رفعتیں ہیں، ان کی تشریف آوری سے صرصر کفری درماندگی اور ظلمت وجورپر مردنی چھاگئی، شرفِ انسانیت کی صباحت ملی، رُوحِ انسانیت کو قرار ملا، انسانیت پر نکھار آیا، زر چہروں پر رونقیں آگئیں، اسرار عرفاں نمایاں ہوئے، خلق نکہت و نور سے مدہوش ہو کر رحمت کبریا کی سزا وار ٹھہری، انہی کے دم سے زمان و مکاںکی رونقیں ہیں ،وہ ختم عالی مقام ہیں ،وہ ختم المرسلین ہیں ، وہ سید الاوالین و الاخرین ہیں ، حسن کلام ان پر ختم ہے ، لاریب اخلاق و کردار کا اسوہ حسنہ انہی کا وجود گرامی ہے ،کوئی اورہر گز ہرگز نہیں – بقول شورش کاشمیری ؒ

اک شخص سراپا رحمت ہے اک شخص ہے یکسر نور خدا

ہم عرش و فرش کو چھان چکے لیکن اس جیسا نہ ملا

اس ذات پر رحمت ختم ہوئی اس ذات پر حجت ختم ہوئی

یعنی کہ نبوت ختم ہوئی پھر کوئی نہ اس کے بعد آیا

اونٹو ں  کے چرانے والوں نے اس شخص کی صحبت میں رہ کر

قیصر کے تبختر کو روندا کسریٰ کا گریباں چاک کیا

مگر صد حیف مقابلے پہ آیا بھی تو کون؟ و ہ مرزا قادیانی جس کی کوئی کل سیدھی نہیں ،جو ہیضہ وطاعون کی بیماری لیکر آیا اور خود بھی اسی کی نذر ہو گیا ۔وہ رو سیاہ جس کی تعلیمات میں کفار کی زنجیر غلامی ہے ، وہ بد نہاد جس کے منہ سے تعفن پھوٹتا ہے ، وہ کج رو جو دختِ رز کا شغالِ بد ہے ، وہ اسفل جو اپنے مخالفین کو گندی گالیاں بکتا ہے ، وہ دنی سیرت جو لوگوں کی بہو بیٹیوں کی عزت پامال کرتا ہے ، وہ غلط پیماں جو یہود و نصاری ٰکے ایماپر تاج ختم نبوت پر حملہ آور ہوا ۔ وہ ارذل الناس جو اسلام کی کشتی میں سوار ہو کر اُسی میں چھید ڈالتا رہا ، وہ ملعون دجال صفت جو پٹوار کے امتحان میں فیل ہو کر عصمت نبوت پر غصہ نکالتا رہا، وہ دسیسہ کار نبی و رسول ہونے کا مدعی ہے ، جس بوزنے کی لذاتِ ادرک سے آشنائی ہی نہیں ۔ وہ دھوپ چھائوں کی اولاد جو ملکہ وکٹوریہ کا روحانی و سیاسی عاشق تھا مگر اپنے کفر و ارتداد کی سزا کے طور پر بیت الخلاء میں گر کر مردار ہوا ،وہ کم سواد دامان رسول کی ہمسری کا علم بردار ہے العیاذ و باللہ ، وہ تو اس ضرب المثل کا صحیح مترادف ہے کہ ’’چمار کی چھوکری چندن نام ‘‘(گھٹیا منہ سے گھٹیا ،بے جوڑاور نہ موزوں بات ہی نکلتی ہے )           خد امحفوظ رکھے اس بلا سے ۔