Language:

مرزائی قوم جھوٹ اور ڈھٹائی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی جی آ راوان روزنامہ جنگ۔لاہور

یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ مرزا غلام احمد علیہ ماعلیہ اللہ تعالیٰ کا نبی نہیں تھا۔ لیکن یہ چیز شاید کم لوگوں کو معلوم ہے کہ مرزا غلام احمد کی نبوت سازی میں ولیم ہنٹر کا بہت ہاتھ ہے جس کی ۱۸۷۰ء میں تیار کی گئی رپورٹ کی بنا پر انگریز نے مسلمانان ہند کیلئے ایک نئی پالیسی اختیار کی، جس کے تحت ۱۸۸۸ء میں مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت وجود میں آئی۔

قادیان کے پیغمبر نے اپنی معبود ملکہ برطانیہ کی خوشنودی کی خاطر ’’اولوالا مر منکم‘‘کی یہ تشریح کر کے کہ ’’حاکم وقت کی اطاعت کی جائے چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم‘‘ اپنی انگریز خالق کا حق بندگی ادا کر دیا۔

ولیم ہنٹر کی رپورٹ اور مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کا واحد مقصد یہ تھا کہ مسلمان عقیدتاً برطانوی حکومت کا سایہ قبول کر لیں اور ان کے دماغ سے جہاد اور غیر ملکی سامراج کے خلاف بغاوت کا جذبہ نکال دیا جائے لیکن انگریز آقا اور غلام پیغمبر کا یہ خواب شرمندہ تعمیر نہ ہو سکا۔ کالی کملی ؐ والے کے غلام جہاد سے جتنی محبت تب کرتے تھے، اتنی اب بھی کرتے ہیں اور آج دو صدیوں بعد بھی ہر مسلمان مرزائیت اور انگریزوں کے خلاف یکساں طور پر برسرپیکار ہے۔

ساٹھ کی دہائی میں جب میں کفر نگر میں پڑھا کرتا تھا جو پہلے ربوہ مگر اب چناب نگر بن چکا ہے، تو میرے اکثر مرزائی ہم جماعت مجھے باور کرانے کی کوشش کیا کرتے تھے کہ ’’اگر قادیانیت جھوٹا مذہب ہوتا تو چودھری ظفر اللہ خان جیسے اکابر اسے کیا قبول کرتے‘‘۔

میرے دل نے تو ان خرافات نما دلیلوں کو کبھی مانا ہی نہیں تاہم میں انہیں یہ جواب دے دیا کرتا تھا کہ ’’یہ سر ظفر اللہ نہیں آشفتہ سر ‘‘ ہے جس نے مرزائیت کو مذہب اور مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مانا‘‘۔

چودھری سر ظفر اللہ خان مرزائیوں کی نظر میں بلا شبہ اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے والا مطمئن اور آسودہ خاطر شخص تھا مگر درحقیقت اس شخص نے جتنی کھوکھلی نآسودہ اور عبرتناک زندگی گزاری، اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسے اپنی تین بیویاں تو راس نہ آسکیں مگر وہ مرزا محمود کی ساتویں بیوی ۱۹ سالہ بشریٰ المعروف مہر آپا کی عمر بھر دلداریاں کرتا رہا لیکن موت چودھری سر ظفر اللہ خان کو اپنی اسی بیوی کے در پر آئی جس کی بیٹی کو اس نے عمر بھر اپنی شفقت سے محروم رکھا۔

بھٹو صاحب نے ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو شجر مرزائیت کو جڑ سے کاٹ کر اپنی زندگی دائو پر لگا دی۔ مرزائیوں نے بھٹو صاحب کی مخالفت میں چودھری ظفر اللہ خان کے بھتیجے سابق ایئر مارشل ظفر چودھری اور اس کے ہم زلف مرزائی میجر جنرل نذیر کے ذریعے بھٹو حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کی بھی سازش کی۔ جب کچھ نہ بن پڑا تو مسعود محمود قادیانی نے وعدہ معاف گواہ بن کر بھٹو صاحب کی زندگی کا سفینہ ڈبو ڈالا۔ بھٹو صاحب کی پھانسی پر مرزائیوں نے جشن منائے اور مٹھائیاں تقسیم کیں اور مرزا غلام احمد کی کتابوں سے اس کا ایک نام نہاد الہام تلاش کیا جس میں کہا گیا تھا ’’کلب یموت علی کلب‘‘ یعنی وہ کتا ہے اور کتے کے عدد پر مرے گا۔ اس من گھڑت الہام کو سچ ثابت کرنے کیلئے مرزائیوں نے کتے کے عدد نکالے جو باون بنتے تھے کیونکہ بھٹو صاحب کو باون سال کی عمر میں پھانسی ہوئی۔ لہذا کہا گیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا یہ الہام بھٹو صاحب کے لئے تھا حالانکہ علمائے کرام کے مطابق یہ الزام ٹھیک نہیں تھا بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی نے ایک بار شرارت کرنے پر اپنے بیٹے مرزا محمود احمد کو بدعا دی تھی’’تو کتا ہے اور کتے کی موت مرے گا‘‘۔

اور پھر مرزا محمود جس ہولناک اور عبرت ناک موت کا شکار ہوا، اس کے بارے میں مرزائی پوری طرح آگاہ ہیں۔ قیام ربوہ کے دوران میں نے خود دیکھا مرزائیوں میں یہ ’’کوسنا‘‘ عام تھا بلکہ ہمارے سکول میں اساتذہ طلبہ کو سرزنش کے طور پر اکثر کہا کرتے تھے’’تو کتا واں ، تو کتے دی موت مریں گا‘‘۔

مرزائی قوم جھوٹ اور ڈھٹائی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ ایک بار مجھے علامہ انور طاہر صاحب کے ہمراہ مرزا قادیانی کے ’’خلیفہ اول‘‘ حکیم نور الدین کے پوتے منور عمر قادیانی کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں مرزا قادیانی کے ایک قول پر مناظرہ کرنا تھا۔ منور عمر منصف کے اپنے خلاف فیصلے اور اپنے دعویٰ میں جھوٹا ثابت ہونے کے باجود پروں پر پانی نہیں پڑنے دے رہا تھا۔ ایسے میں علامہ انور طاہر صاحب کی میں نے حضرت صوفی فضل کریمؒ کے اس قول زریں سے تشفی کرائی کہ مرزائی نبی، اس کی ذریت اور امت اخلاق اخلاص اور دعوت کی زبان کو کبھی خاطر میں نہیں لاتی جبکہ ضرب پاپوش سے ان کی ہر کل سیدھی ہو جاتی ہے۔