• Home
  • >
  • Articles
  • >
  • قادیانیت قومی رہنمائوں کی نظر میں
Language:

قادیانیت قومی رہنمائوں کی نظر میں

فتنہ قادیانیت کے بارے میں قائدین قوم کے ایمان افروز مشاہدات و تاثرات اور انکشافات درج کئے جاتے ہیں۔

قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ:

’’جب کشمیر سے واپسی پر قائدِ اعظمؒ سے سوال کیا گیا کہ آپ کی قادیانیوں کے بارے میں کیا رائے ہے؟  تو آپ نے فرمایا کہ ’’میری رائے وہی ہے جو علماء کرام اور پوری امت کی ہے‘‘۔ یعنی آپ پوری امت کی طرح قادیانیوں کوکافر سمجھتے تھے۔

علامہ اقبال رحمۃاللہ علیہ:

’’ختم نبوت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص بعد اسلام اگر یہ دعویٰ کرے …… کہ مجھے الہام وغیرہ ہوتا ہے اور میری جماعت میں داخل نہ ہونے والا کافر ہے تو وہ شخص کاذب ہے اور واجب القتل۔ مسیلمہ کذاب کو اس بناء پر قتل کیا گیا، حالانکہ طبری لکھتا ہے کہ وہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا مصدق تھا اور اس کی اذان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق تھی‘‘۔

’’قادیانی یہ استدلال کرتے ہیں کہ ہم تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء مانتے ہیں ۔ ہم منکر اور دائرہ اسلام سے خارج کیسے ہوئے؟ مگر واقعہ یہ ہے کہ جب کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء مان کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور نئے نبی کی نبوت کو تسلیم کر لیا اور اس کا خاتم الانبیاء کا اقرار باطل ہوگیا۔ گویا دائرہ اسلام سے نکلنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ضروری نہیں۔ کسی نئے نبی کا اقرار بھی آدمی کو اسلام کے دائرے سے باہر نکال دیتا ہے۔

شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ کی قادیانیت سے متعلق رائے کا خلاصہ ذیل میں درج کیاجاتا ہے جس کی وہ تبلیغ کرتے رہے۔

1)قادیانیت یہودیت کا چربہ ہے۔2)ظل، بروز، حلول، مسیح موعود کی اصطلاحات غیر اسلامی ہیں۔3)قادیانی گروہ  وحدت اسلامی کا دشمن ہے۔4)قادیانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ ہیں۔5)مرزا قادیانی کے نزدیک ملت اسلامیہ سڑا  ہوادودھ ہے۔6)شریعت میں ختم نبوت کے بعد مدعی نبوت کاذب اور واجب القتل ہے۔7)قادیانی امت ختم نبوت کی منکر ہے۔8)قادیانی اسلام اور ملک دونوں کے غدار ہیں (پنڈت جواہر لعل نہرو کے نام خط)

مولانا ابوالکلام آزادرحمۃ اللہ علیہ:

باقی رہے مرزا قادیانی کے دعاوی میں تو نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص جس نے اسلام کے اصول و مبادیات کو سمجھا ہے اور عقل سلیم سے بے بہرہ نہیں ۔ یہ دعاوی ایک لمحہ کے لئے بھی تسلیم کرسکتا ہے‘‘۔

’’ اس بارے میں دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں،تیسری کوئی نہیں یا نجات کے لئے وہ عقائد کافی ہیں جوقرآن نے صاف صاف بتلا دئیے ہیں یا پھر کافی نہیں۔ اگر کافی ہیں تو قرآن نے کہیں یہ حکم نہیں دیا کہ کسی نئے ظہور پر ایمان لائو۔ اگر کافی نہیں ہیں اور نئے شرائط میں نجات کی گنجائش باقی ہے تو پھر قرآن ناقص نکلا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ وہ اپنے اعلان الیوم اکملت لکم دینکم صادق نہیں…… ہر مسلمان کے سامنے دونوں راہیں کھلی ہیں جوچاہے اختیار کرے۔ اگر قرآن پر ایمان ہے تو نئی شرط نجات کی گنجائش نہیں۔ اگر نئی شرط نجات مانی جاتی ہے تو قرآن اپنی جگہ باقی نہیں رہا‘‘۔

مولانا ظفر علی خاں رحمۃ اللہ علیہ:

’’جہاں تک مرزا قادیانی کا تعلق ہے ہم اس کو ایک بار نہیں ہزار بار دجال کہیں گے۔ اس نے حضور ؐ  کی ختم المرسلینی پر اپنی نبوت کا ناپاک پیونڈ جوڑ کر ناموس رسالت پرکھلم کھلا حملہ کیا ہے۔ اپنے اس عقیدہ سے میں ایک منٹ کے کروڑویں حصے کے لئے بھی دست کش ہونے کو تیار نہیں اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی دجال تھا، دجال تھا ، دجال تھا۔  میں اس سلسلہ میں قانون محمدیؐ  کا پابند ہوں‘‘۔

فتنہ قادیانیت کے بارے میں قائدین قوم کے ایمان افروز مشاہدات و تاثرات اور انکشافات درج کئے جاتے ہیں۔

 

خان لیاقت علی خا ن رحمۃ اللہ علیہ:

گذشتہ دنوں قومی اخبارات اور کراچی سے شائع ہونے والے ایک جریدہ  ہفت روزہ’’تکبیر‘‘ مارچ1986ء میں پاکستان کے مشہور سراغاں جیمز سالومن ونسٹنٹ کی یادوں کے حوالہ سے ایک چونکا دینے والا انکشاف شائع ہو چکا ہے۔ اس انکشاف سے ملک بھر کے سیاسی حلقے حیرت زدہ رہ گئے۔ بتایا گیا کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کوسید اکبر نے نہیں بلکہ ایک جرمن قادیانی جیمز کنزے نے قتل کیا تھا۔ یہ شخص ظفر اللہ خاں قادیانی سابق وزیر خارجہ کالے پالک تھا اور اس سازش کا پورا ڈرامہ آنجہانی ظفر اللہ خان قادیانی سابق وزیر خارجہ کے تخریبی ذہن کی پیداوار تھا۔لیاقت علی خان کے قتل سے متعلق یہ رپورٹ آج بھی سنٹرل انٹیلی جنس کراچی کے دفتر میں موجود ہے اب اس قتل کی وجہ بھی سنئے۔حضرت امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے خطیب پاکستان قاضی احسان احمد شجاع آبادی ؒ کو حکم دیا کہ وزیر اعظم پاکستان خان لیاقت علی خان سے ملاقات کرکے انہیں قادیانیوں کی خرمستیوں اور سیاسی قلابازیوں سے آگاہ کرولہٰذا ملاقات کے لئے صرف 5منٹ کا وقت دیا گیا لیکن جب قاضی صاحب نے ’’قادیانیت کے سربستہ رازوں کی گرہیں کھولیں‘‘ تو لیاقت علی خان ششدر رہ گئے اور یہ 5منٹ کی ملاقات ڈھائی گھنٹے میں بدل گئی۔ لیاقت علی خان نے بھرائی ہوائی آواز میں کہا’’اب یہ بوجھ آپ کے کندھوں سے میرے کندھوں پر آن پڑا ہے‘‘۔

لیاقت علی خانؒ نے قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ سے ملاقات میں قادیانیوں کو کافر قرار دینے کا فیصلہ کرلیا تھا لہٰذا سر ظفر اللہ خان نے لیاقت علی خانؒ  کو شہید کروادیا۔

ڈاکٹرعبدالقدیرخان:

’’ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف قادیانیوں کی مبینہ سازش کے بارے میں جن حقائق کو منظر عام پر لایا گیا ہے مجھے اس سے پورا اتفاق ہے ۔ اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ عرصہ دراز سے قادیانی ملک کے اندر اور باہر یہودی لابی سے مل کر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف بین الاقوامی سطح پر بے بنیاد پروپیگنڈہ کر کے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش میں سرگرم عمل ہیں اور اپنااثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے مغربی ممالک کی طرف سے طرح طرح کی رکاوٹیں اور بے جا پابندیاں پیدا کر کے ہماری فنی ترقی کو مفلوج بنانے میں مشغول ہیں۔

سوال:     ڈاکٹر عبدالقدیر قادیانی کو جو نوبل انعام ملا اس کے بارے میں آپ کی رائے؟

جواب:    وہ بھی نظریات کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام 1957ء سے اس کوشش میں تھے کہ انہیں نوبل انعام ملے اور آخرکار آئن سٹائن کی صد سالہ وفات پر ان کا مطلوبہ انعام دے دیا گیا۔ دراصل قادیانیوں کا اسرائیل میں باقاعدہ مشن ہے جو ایک عرصہ سے کام کررہا ہے۔ یہودی چاہتے ہیں کہ آئن سٹائن کی برسی پر اپنے ہم خیال لوگوں کو خوش کردیا جائے۔ سوڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کو اس انعام سے نوازا گیا۔ نوٹ:یہ نوبل انعام تین آدمیوں کو دیا گیا جن میں ایک ڈاکٹر عبدالسلام تھا۔

ایم -ایم عالم ریٹائرڈ ائیر کموڈور:

’’مجھے قادیانیوں کی سازش کے نتیجے میں سروس سے ریٹائر کیا گیا۔ اس سازش کے نتیجے میں 1968ء کے بعد مجھے جہاز کے قریب بھی نہیں جانے دیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ میںنے آج تک پنشن بھی وصول نہیں کی۔ بھٹو دور میں مجھے قادیانیوں نے فوج سے نکالنے کی کوشش کی لیکن بھٹو صاحب نے ایسا کرنے سے انکار کردیا‘‘۔

’’قادیانیوں نے ہمیشہ غداری کی ہے۔یہ لوگ ملک اور قوم دونوں کے دشمن ہیں۔میرے متعلق ان لوگوںنے افواہ اڑائی ہے کہ نعوذ بااللہ میں قادیانی ہوں۔ میںان پر لعنت بھیجتا ہوں۔ اگر میں قادیانی ہوتا تو آج ائیرفورس کا کمانڈہوتا۔ مجھ پر ذاتی طور پر بہت ظلم ہوا‘‘۔

ابوالاثر حفیظ جالندھری رحمۃ اللہ علیہ(خالق قومی ترانہ):

’’پاکستان کو ختم کرنے میں یہ لوگ روز اول سے مصروف ہیں کیونکہ دنیا میں پاکستان ہی وہ توانا اسلامی مملکت تھی اور ہے جو بحال رہے تو ساری دنیائے اسلام کو نئی زندگی عطا کرسکتی ہے۔ یہودوہنود کی مدد کرنے والے ایجنٹ اب آخری ضربیں لگا رہے ہیں۔ ان کا مقابلہ جو بھی اور جس طرح بھی کرے، وہ اسلامی مجاہد ہے‘‘۔