Language:

حضرت مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ

حضرت مولانا لال حسین اختر فرماتے ہیں: ’’ایک دفعہ مجھے لاہوری مرزائیوں کے چند مبلغ ملے۔ انھوں نے میرے سامنے اپنی جماعت کے تبلیغی کارناموں کو نہایت ہی مبالغہ آمیزی سے بیان کیا اور آنجہانی مرزا قادیانی کی اسلامی خدمات کے بڑھ چڑھ کر افسانے سنائے اور کہا: ’’ہماری جماعت کے وہی عقائد ہیں جو اہل سنت والجماعت کے ہیں۔ مرزا قادیانی مدعی نبوت نہیں تھے۔ جن لوگوں نے مرزا قادیانی کی طرف دعویٰ نبوت منسوب کیا ہے، انھوں نے مرزا قادیانی کے متعلق جھوٹ بولا ہے اور بہتان طرازی و افترا پردازی سے کام لیا ہے۔ اپنے اس بیان کو درست ثابت کرنے کے لیے مرزا قادیانی کی ابتدائی کتابوں سے چند حوالے بھی پڑھ کر سنائے جن میں مرزا قادیانی نے مدعی نبوت کو کافر، دجال اور دائرہ اسلام سے خارج لکھا ہے۔ چونکہ مرزائی مذہب کے متعلق میرا مطالعہ صفر کے برابر تھا، اس لیے میں تبلیغ اسلام کے نام پر ان کے دام تزویر میں پھنس گیا اور بدقسمتی سے مرزا قادیانی کی مجددیت و مہدویت کا پھندا اپنے گلے میں ڈال لیا۔ بیعت کرنے کے بعد انجمن کے تبلیغی کالج میں داخل ہوا۔ سنسکرت پڑھی اور ویدوں وغیرہ کا مطالعہ کیا۔ مدت معینہ میں کورس ختم کرنے کے بعد بحیثیت ایک کامیاب مبلغ کے مجھے تبلیغ و اشاعت کے کام پر لگا دیا گیا۔ اس دوران میں، میں نہ صرف مبلغ اور مناظر ہی کے فرائض انجام دیتا رہا بلکہ سیکرٹری احمدیہ ایسوسی ایشن، ایڈیٹر اخبار ’’پیغام صلح‘‘ اور ’’محصل‘‘ وغیرہ کے ذمہ دارانہ عہدوں پر بھی فائز رہا اور آٹھ سال تک پوری جانفشانی و سرگرمی کے ساتھ مرزائی عقائد کی تبلیغ و اشاعت کرتا رہا۔

1931ء کے وسط میں، میں نے یکے بعد دیگرے متعدد خواب دیکھے جن میں مرزا قادیانی کی نہایت گھنائونی شکل دکھائی دی اور اسے بری حالت میں دیکھا۔ میں یہ خواب مرزائیوں سے بیان نہ کر سکتا تھا کیونکہ اگر انھیں یہ خواب سنائے جاتے تو وہ مجھے کہتے کہ یہ شیطانی خواب ہیں۔ نہ کسی مسلمان ہی کو یہ خواب بتا سکتا تھا کیونکہ اگر انھیں یہ خواب سنائے جاتے تو وہ کہتے کہ مرزا قادیانی اپنے تمام دعاوی میں جھوٹا ہے۔ مرزائیت سے توبہ کر لیجیے؟ میری حالت یہ تھی۔

دو گونہ رنج و عذاب است جان مجنوں را

بلائے فرقت لیلیٰ و صحبت لیلیٰ ۱؎

            ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ ایک چٹیل میدان میں ہزاروں لوگ حیران و پریشان کھڑے ہیں۔ میں بھی ان میں موجود ہوں۔ ان کے چاروں طرف لوہے کے بلند و بالا ستون ہیں اور ان پر زمین سے لے کر قد آدم تک خاردار تار لپٹا ہوا ہے۔ تار کے اس حلقے سے باہر نکلنے کا کوئی دروازہ یا راستہ نہیں۔ ہزاروں اشخاص کو اس میں قید کر دیا گیا ہے۔ ان میں چند میری شناسا صورتیں بھی ہیں۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ ہمیں اس مصیبت میں گرفتار کیوں کیا گیا ہے؟ انھوں نے مجھے جواباً کہا کہ ہمیں احمدیت کی وجہ سے مخالفین نے یہاں بند کر دیا ہے۔ یہاں سے کچھ فاصلہ پر ’’حضرت مسیح موعود‘‘ پلنگ پر سوئے ہوئے ہیں۔ انھیں ہماری خبر نہیں کہ وہ ہماری رہائی کے لیے کوشش کر سکیں۔ ہم میں سے کسی کے پاس کوئی اوزار نہیں کہ جس سے خاردار تار کو کاٹ کر باہر نکلنے کا راستہ بنایا جا سکے۔ میں نے خاردار تار کے چاروں طرف گھومنا شروع کیا۔ میں نے دیکھا کہ ایک جگہ سے زمین کی سطح کے قریب تار ڈھیلا ہے۔ میں زمین پر بیٹھ گیا اور اس تار کو اپنے دائیں پائوں سے نیچے دبایا تو وہ تار زمین کے ساتھ جا لگا۔ سر کے قریبی تار کو ذرا سا اوپر کو دھکا دیا تو دونوں تاروں میں اس قدر فاصلہ ہو گیا کہ میں تار سے باہر نکل آیا۔

مجھے کافی فاصلہ پر پلنگ نظر آیا جس پر مرزا غلام احمد قادیانی چادر اوڑھے لیٹا ہوا تھا۔ میں نہایت ادب و احترام سے پلنگ کے قریب پہنچ گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اس نے اپنے چہرہ سے چادر سرکائی تو اس کا منہ قریباً دو فٹ لمبا اور شکل خنزیر کی ہے۔ ایک آنکھ بالکل بے نور اور بند تھی۔ دوسری آنکھ ماش کے دانے کے برابر تھی۔ اس نے کہا میری بہت بری حالت ہے۔ اس کی آواز کے ساتھ شدید قسم کی بدبو پیدا ہوئی۔ اس کی شکل اور بدبو سے میں کانپ گیا اس پر میری آنکھ کھل گئی اور میری نیند جاتی رہی۔

چند دنوں بعد دوسری دفعہ پھر خواب دیکھا کہ ایک شخص مجھ سے قریباً دو سو گز آگے جا رہا ہے۔ میں اس کے پیچھے پیچھے چل رہا ہوں۔ تانت (جس سے رونی دھنی جاتی ہے) کا ایک سرا اس کی کمر میں بندھا ہوا ہے اور دوسرا سرا میری گردن میں۔ ہمارا سفر مغرب سے مشرق کی طرف ہے۔ دوران سفر راستہ پر دائیں طرف ایک نہایت وجیہ شخص نظر آئے۔ سفید رنگ، درمیانہ قد، روشن آنکھیں، سفید پگڑی، سفید لمبا کرتہ، سفید شلوار، مسکراتے ہوئے مجھے فرمایا کہ کہاں جا رہے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ جہاں میرے آگے جانے والے مجھے لے جا رہے ہیں۔ کہنے لگے جانتے ہو یہ کون ہے اور تمھیں کہاں لے جا رہا ہے؟ میں نے کہا، مجھے معلوم نہیں کہ یہ کون ہے اور مجھے کہاں لے جا رہا ہے؟ فرمانے لگے یہ آنجہانی مرزا قادیانی ہے۔ خود جہنم کو جا رہا ہے اور تمھیں بھی وہیں لیے جا رہا ہے۔ میں نے کہا کہ دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں جو جان بوجھ کر جہنم میں جائے اور دوسروں کو بھی

  ۱؎  غرض مجنوں کی جان کو تو دونوں طرح کا رنج ہے۔ لیلیٰ کی جدائی کی مصیبت اور لیلیٰ کی ملاقات بھی۔

 جہنم میں لے جائے۔ انھوں نے کہا کہ مسیلمہ کذاب کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا اس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر کے عمداً جہنم کا راستہ اختیار نہ کیا تھا؟ میں ان کی اس دلیل کا جواب نہ دے سکا تو فرمانے لگے، غور سے سامنے دیکھو! میں نے سامنے نگاہ کی تو مجھے دور حد نگاہ پر زمین سے آسمان تک سرخی دکھائی دی۔ انھوں نے پوچھا جانتے ہو، یہ سرخ رنگ کیا ہے؟ میں نے کہا میں نہیں جانتا۔ کہنے لگے یہی تو جہنم کے شعلے ہیں۔ میں حسب سابق چل رہا تھا۔ وہ بھی میرے ساتھ ساتھ قدم اٹھائے جا رہے تھے۔ اچانک وہ غائب ہو گئے۔ میں بدستور اس شخص (مرزا قادیانی) کے پیچھے پیچھے جا رہا تھا۔ ہم سرخی (جہنم کے شعلوں) کے قریب پہنچ رہے تھے۔ اب تو مجھے حرارت بھی محسوس ہونے لگی۔ وہ وجیہ شخصیت پھر نمودار ہوئی، انھوں نے تانت پر زور سے ضرب لگائی۔ تانت ٹوٹ گئی اور میں نے دیکھا کہ مرزا قادیانی جہنم میں گر گیا ہے۔ اور میں بچ گیا۔ اس پر میری آنکھ کھل گئی۔

اگرچہ پہلے بھی مرزا غلام احمد کے بعض ’’الہامات‘‘ اور اس کی چند ’’پیشگوئیاں‘‘ میرے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھیں، لیکن حسن عقیدت اور غلو محبت کی طاقتیں ان خیالات کو فوراً دبا دیتی تھیں اوردل کو تسلی دے دیتا تھا کہ مرزا نبی تو نہیں کہ جس کے تمام ارشادات صحیح ہوں۔ ان خوابوں کی کثرت سے متاثر ہو کر میں نے غور و فکر کیا کہ گو ہمارے خوابوں پر دین کا مدار نہیں اور نہ ہی یہ حجت شرعی ہیں لیکن ان سے صداقت کی طرف راہنمائی تو ہو سکتی ہے۔ آخر میں نے فیصلہ کیا کہ مرزا قادیانی کی محبت اور عداوت دونوں کو بالائے طاق رکھ کر اور ان سے صرف نظر کرتے ہوئے مرزائیت کے صدق و کذب کو تحقیقات کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیے۔

خدائے واحد و قدوس کو حاظر و ناظر سمجھتے ہوئے یہ اعلان کر دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ میں نے مرزا قادیانی کی محبت اور عداوت کو چھوڑ کر اور خالی الذہن ہو کر اس کی اپنی مشہور تصنیفات اور قادیانی و لاہوری ہر دو فریق کی چیدہ چیدہ کتابوں کو جو مرزا کے دعاوی کی تائید میں لکھی گئی تھیں، چھ ماہ میں نظر غائر سے بطور ایک محقق پڑھا اور علمائے اسلام کی تردید مرزائیت کے سلسلہ میں چند کتابیں مطالعہ کیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جتنا زیادہ میں نے مطالعہ کیا، اتنا ہی مرزائیت کا کذب مجھ پر واضح ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ مجھے یقین کامل ہو گیا کہ مرزا قادیانی اپنے دعویٰ الہام، مجددیت، مسیحیت، نبوت وغیرہ میں جھوٹا اور کذاب تھا۔ میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ حضور رسالت مآبصلی اللہ علیہ وسلم  آخری نبی ہیں۔ حضرت مسیح علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں۔ وہ قیامت سے پہلے ہماری دنیا میں بحیثیت امتی واپس تشریف لائیں گے۔‘‘