Language:

غازی مرید حسین شہید رحمۃ اللہ علیہ

1936ء میں روزنامہ زمیندار میں ایک خبر شائع ہوئی کہ پلول ضلع گوڑ گائوں کے ڈاکٹر رام گوپال نے ایک گدھے کا نام معاذ اللہ ہمارے پیارے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کے نام نامی پر رکھا ہے۔ خبر چھپتے ہی ہر مسلمان کا خون کھول اٹھا اور شدید احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بھلہ ضلع چکوال کے ایک غیرت مند جوان غازی مرید حسین کے جوش و جذبے کا کچھ اور ہی حال تھا۔ اس عاشق رسولصلی اللہ علیہ وسلمکے تن بدن میں شعلے بھڑک اٹھے اور اس نے رام گوپال کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا۔ مجرم کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور قتل کی پوری منصوبہ بندی کی۔ بالآخر 7 اگست 1932ء کو آفتاب نبوتصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ شیدائی اس ملعون کے ٹھکانے پر پہنچا۔ ہسپتال کے قریب ایک محفوظ جگہ کھڑا ہو گیا اور اپنے شکار کی راہ دیکھنے لگا۔ بالآخر ڈاکٹر سامنے آیا اور یہ نحیف و نزار مجاہد ناموس رسالتصلی اللہ علیہ وسلم اس پر ٹوٹ پڑا؛ اور یہ کہتے ہوئے : ’’او موذی! اٹھ اج محمدصلی اللہ علیہ وسلم دا پروانہ آ گیا ای۔‘‘ چھوٹے سے خنجر کے ایک ہی وار سے گستاخ رسول ہندو کو واصل جہنم کر دیا۔ بس یہی وہ لمحہ تھا جس نے مرید حسین کو غازی مرید حسین شہیدؒ بنا کر رہتی دنیا تک امر کر دیا۔

رام گوپال کو جہنم رسید کرنے کے بعد غازی مرید حسین نے خود ہی گرفتاری پیش کر دی اور دوران تفتیش اس سوال پر کہ مقتول کا حلیہ کہاں سے معلوم ہوا، اس شہبازِ محبت نے انکشاف کیا:

’’جس عظیم ذات نے مجھے اس کی شناخت کروائی، ان کے حضور تم تو کیا تمہارے خیال کا بھی گزر نہیں ہو سکتا۔ رام گو پال نے میرے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی اور میرے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے کرم فرمایا کہ اسے کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے مجھے چن لیا۔ میری قسمت جاگ اٹھی اور خواب میں آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس گستاخ کی صورت مجھے دکھائی اور میں نے جاگ کر اس کا حلیہ نوٹ کر لیا۔‘‘ اب میں اسے ختم کر چکا ہوں۔ یہ میرے ہنسنے اور ہندوئوں کے رونے کا وقت ہے۔‘‘

سچ کہا غازی مرید حسین نے۔ واقعی یہ اس کے ہنسنے کا وقت تھا۔ چنانچہ جب پھانسی کا وقت آیا تو محبوبِ خداصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ غلام تختہ دارکی طرف اس شان سے چلا کہ ہونٹوں پر تبسم تھا اور زبان پر نعت رسولصلی اللہ علیہ وسلم کے زمزمے۔ اور اب تاقیامت اس شہید عشق نبی کا مزار مسکراہٹوں میں ڈوبا رہے گا۔   ؎

مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں

انہی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد