Language:

مرزا کادیانی مہدی نہیں ہے

مرزا قادیانی نے پہلے مہدی اور پھرنبی ہونے کے کئی جھوٹے دعوے کیے ہیں۔ مگر اللہ رب العزت نے اس کے اپنے قلم سے اور اس کے بیٹوں کے ذریعہ سے ان دعوں میں اسے جھوٹا ثابت کروا دیا ۔آئیے دیکھتے ہیں

مہدی کسی کا شاگرد نہیں ہوتا:

(1)        ’’مہدی کے مفہوم میں یہ معنی ماخوذ ہیں کہ وہ کسی انسان کا علم دین میں شاگرد یا مرید نہ ہو۔ اور خدا کی ایک خاص تجلی تعلیم لدنی کے نیچے دائمی طور پر نشوونما پاتا ہو جو روح القدس کے ہر ایک تمثل سے بڑھ کر ہے اور ایسی تعلیم پانا صفت محمدیؐ ہے۔‘‘                                                                   (اربعین نمبر 2 صفحہ 19 مندرجہ روحانی خزائن جلد 17صفحہ  360،361 از مرزا قادیانی)

مہدی کے لیے ضروری ہے……

(2)        ’’مہدی کے لیے ضروری ہے کہ آدمِ وقت ہو اور اس کے وقت میں دنیا بکلی بگڑ گئی ہو اور نوع انسان میں سے اس کا دین کے علوم میں کوئی استاد اور مرشد نہ ہو بلکہ اس لیاقت کا آدمی کوئی موجود ہی نہ ہو اور محض خدا نے اسرار اور علوم آدم کی طرح اس کو سکھائے ہوں۔‘‘

(اربعین نمبر 2 صفحہ 18 مندرجہ روحانی خزائن، جلد 17 صفحہ 360 از مرزا قادیانی)

نبی کا کوئی استاد نہیں ہوتا:

(3)        ’’لاکھ لاکھ حمد اور تعریف اس قادرِ مطلق کی ذات کے لائق ہے کہ جس نے ساری ارواح اور اجسام بغیر کسی مادہ اور ہیولیٰ کے اپنے ہی حکم اور امر سے پیدا کر کے اپنی قدرتِ عظیمہ کا نمونہ دکھلایا اور تمام نفوسِ قدسیہ انبیا کو بغیر کسی استاد اور اتالیق کے آپ ہی تعلیم اور تادیب فرما کر اپنے فیوضِ قدیمہ کا نشان ظاہر فرمایا۔‘‘

(دیباچہ براہین احمدیہ جلد اوّل صفحہ 7 مندرجہ روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 16 از مرزا قادیانی)

حلفاً کہتا ہوں میرا کوئی استاد نہیں:

(4)        ’’سو آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا، سو اس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا۔ اور قرآن اور حدیث میں کسی استاد کا شاگرد نہیں ہوگا۔ سو میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی حال ہے۔کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یاتفسیرکا ایک سبق بھی پڑھا ہے۔  ‘‘              (ایام الصلح صفحہ 168 مندرجہ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 394 از مرزا قادیانی)

مرزا قادیانی نے مذکورہ عبارت میں حلفاً یعنی قسم اٹھا کر کہا ہے کہ میرا کوئی استاد نہیںکہ جس سے قرآن یا حدیث یا تفسیر پڑھی ہو ۔ یاد رہے کہ یہاں تین باتوں کا الگ الگ اقرار ہے نمبر ایک قرآن، نمبر دو حدیث شریف ، نمبر تین تفسیر یعنی قرآن پاک کے معنی و مفہوم۔قسم کے بارے میں مرزا قادیانی کا کہنا ہے۔

اور مرزا قادیانی کے بقول

قسم کی اہمیت:

(5)        ’’والقسم یدل علی ان الخبر محمول علی الظاھر لا تأویل فیہ ولا استثناء والا فأی فائدۃ کانت فی ذکر القسم۔‘‘

ترجمہ: ’’قسم اس امر کی دلیل ہے کہ خبر اپنے ظاہر پر محمول ہے۔ اس میں نہ تاویل ہے نہ استسنا۔ ورنہ قسم سے بیان کرنے کا کیا فائدہ۔‘‘                                                       (حاشیہ حمامتہ البشریٰ صفحہ 26 مندرجہ روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 192 از مرزا قادیانی)

اس عبارت کی رو سے کوئی قادیانی اپنے گرو گھنٹال مرزا قادیانی کے اساتذہ کے حوالے سے کوئی تاویل نہیں کر سکتا۔ کیونکہ مرزا قادیانی نے قسم اٹھا کر کہا ہے کہ میر علم دین میں  کوئی استاد نہیں اور بقول مرزا قادیانی جب کوئی بات قسم اٹھا کر کہی جائے تو اس میں کوئی تادیل نہیں کرنی چاہیے۔

مرزا قادیانی نے ایک نوکر سے قرآن پڑھا ہے :

(6)        ’’جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لیے نوکر رکھا گیا، جنھوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الٰہی تھا اور جب میری عمر تقریباً دس برس کے ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لیے مقرر کیے گئے جن کا نام فضل احمد تھا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدا تعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی، اس لیے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا۔ مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے، وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو ان سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کا نام گل علی شاہ تھا۔ ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لیے مقرر کیا تھا۔ اور ان آخرالذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے اور ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا۔‘‘          (کتاب البریہ صفحہ 162 مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 180، 181 [حاشیہ] از مرزا قادیانی)

بیٹے کی تصدیق:

(7)        ’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ جہاں تک میں نے تحقیق کی ہے حضرت مسیح موعود کی زندگی کے مندرجہ ذیل واقعات ذیل کے سنین میں وقوع پذیر ہوئے ہیں:۔ واللہ اعلم!

1836ء یا 1837۔ ولادت حضرت مسیح موعود۔

1842ء یا 1843ء۔ ابتدائی تعلیم از منشی فضل الٰہی صاحب۔

1846ء یا 1847ء۔ صرف و نحو کی تعلیم از مولوی فضل احمد صاحب۔

1852ء یا 1853ء۔ حضرت مسیح موعود کی پہلی شادی (غالباً)۔

1853ء یا 1854ء۔ نحو و منطق و حکمت و دیگر علوم مروجہ کی تعلیم از مولوی گل علی شاہ صاحب اور اسی زمانہ کے قریب بعض کتب طب اپنے والد ماجد سے۔‘‘          (سیرت المہدی جلد دوم صفحہ 150 از مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی)

قارئین کرام! آپ مرزا قادیانی کی تحریروں سے خود اندازہ لگا لیں کہ ایک طرف وہ قسم اٹھا کر کہتا ہے کہ میرا کوئی استاد نہیں جس سے میں نے قرآن یا حدیث یا تفسیر پڑھی ہو کیونکہ نبی یا مہدی کا کوئی استاد نہیں ہوتا، اس  لیے کہ وہ براہ راست اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کرتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس مرزا قادیانی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس نے کئی اساتذہ سے علم حاصل کیااور ایک نوکر سے قرآن مجید بھی پڑھا ۔ اور اس کے بیٹے اس کی تصدیق بھی کرتے جارہے ہیں۔

تذکرہ مرز اقا دیانی کے استادوں کاہے یہاں مرزے کے ایک اور استاد کا بھی بتاتے چلیںیقینا ا س کی صحبت نے اسے برباد کر دیا ہو گا

افیمی استاد:

q          ’’آج سے تیس سال قبل بہت سے لوگ ایسے تھے جو حضرت مسیحِ موعود (مرزا قادیانی) کے متعلق کہتے تھے انھیں اردو بھی نہیں آتی اور عربی دوسروں سے لکھا کر اپنے نام سے شائع کرتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے مولوی نور الدین آپ کو کتابیں لکھ کر دیتے ہیں۔ خود حضرت مسیحِ موعود کو بھی یہ دعویٰ نہ تھا کہ آپ نے ظاہری علوم کہیں پڑھے۔ آپ فرمایا کرتے میرا ایک استاد تھا جو افیم کھایا کرتا تھا اور حقہ لے کر بیٹھ رہتا تھا۔ کئی دفعہ پینک میں اس سے اس کے حقہ کی چلم ٹوٹ جاتی۔ ایسے استاد نے پڑھانا کیا تھا۔ غرض آپ کو لوگ جاہل اور بے علم سمجھتے تھے۔‘‘

                (تقریر مرزا بشیر الدین محمود، خلیفہ قادیان، مندرجہ اخبار ’’الفضل‘‘ قادیان، جلد 16، نمبر 62، صفحہ 8، مورخہ 5 فروری 1929ء)

بقول مرزا قادیانی مہدی کے لیے ضروری ہے……

(8)        ’’مہدی کے لیے ضروری ہے کہ آدمِ وقت ہو اور اس کے وقت میں دنیا بکلی بگڑ گئی ہو اور نوع انسان میں سے اس کا دین کے علوم میں کوئی استاد اور مرشد نہ ہو بلکہ اس لیاقت کا آدمی کوئی موجود ہی نہ ہو اور محض خدا نے اسرار اور علوم آدم کی طرح اس کو سکھائے ہوں۔‘‘

(اربعین نمبر 2 صفحہ 18 مندرجہ روحانی خزائن، جلد 17 صفحہ 360 از مرزا قادیانی)

مذکورہ تحریر میں مرزا قادیانی کا کہنا ہے کہ ’’مہدی کے لئے ضروری ہے کہ وہ آدم وقت ہو۔‘‘ اس تحریر کی روشنی میں مرزا قادیانی مہدی نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ آدم زاد نہیں ہے۔ مرزا قادیانی کہتا ہے:

(9)        ’’کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں                   ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 97 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 127 از مرزا قادیانی)

دیکھیے کس طرح تصدیق پر تصدیق ہورہی ہے کہ مرزا قادیانی مہدی یا نبی نہیں ہے ۔ مگر قادیان تنخواہ دار مربی بضد ہیں اسے مہدی یا نبی بنانے پر۔ اللہ نے مرزا قادیانی کے ہی منہ سے اس کے جھوٹ کو ثابت کر دیا اور قادیانیوں کو ایک موقع اور مل گیا کہ وہ اللہ کی طرف سے ملی ہوئی مہلت کو غنیمت سمجھیں ، اس بات کو سوچیں اوراسلام کی طرف پلٹ آئیں ۔ ہم یہ دعو ت بالخصوص قادیانی جماعت کی عوام کو دیتے ہیں ۔ دعوت تو ان کے مربیوں کو بھی ہے لیکن کیونکہ ان کا کام ہی حق بات کو چھپا کر قادیانی عوام کو اندھیرے میں رکھنا ہے اور ان کو تنخواہ اور مراعات ہی اسی کام کی ملتی ہے اس لیے ان کو اس بات کی کیا سمجھ آئے گی جسے وہ پہلے ہی جانتے ہیں ۔

قادیانی جماعت کی عوا م خدارا اپنے حال پر رحم کرے ان حقائق کو سمجھے ۔ او ر کچھ نہیں تو ان مختصر مضامین میں دیے گئے حوالہ جات کو اپنی قادیانی کتب میں تلاش کریں۔سچے دل سے اللہ سے ہدایت مانگے ۔ان لوگوں سے ملیں جو اس جال کو توڑنے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔آپ کو ہدایت ضرور ملے گی ۔