Language:

جھوٹی پیش گوئیاں نویں پیش گوئی مولانا ثناء اللہ

حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کا شمار برصغیر پاک و ہند کے ان جید علمائے کرام میں ہوتا ہے جنھوں نے زندگی بھر فتنۂ قادیانیت کی سرکوبی کے محاذ پر نمایاں کارنامے سرانجام دیے۔ قادیانیوں سے ان کا ایک تاریخی مناظرہ جو موضع ’’مُد‘‘ ضلع امرتسر میں ہوا، بہت مشہور ہوا۔ اس سے پہلے مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ ’’الہاماتِ مرزا‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کر چکے تھے جس میں انھوں نے مرزا قادیانی کے خود ساختہ الہامات کا زبردست پوسٹ مارٹم کیا تھا۔ قادیانیوں سے مولانا کا یہ مناظرہ بڑے پیمانے اور دھوم دھام سے 29، 30 اکتوبر 1902ء کو منعقد ہوا۔ اس مناظرہ کے لیے آنجہانی مرزا قادیانی خود آتا مگر شکست سے ڈر کے خوف سے اپنے خاص مرید مولوی سرور شاہ اور مولوی عبداللہ کشمیری کو بھیجا ۔قادیانی مبلغین، مولانا امرتسریؒ کے ہاتھوں شکست فاش کھا کر بڑی رسوائی اور ذلت کے ساتھ اپنے رفقا سمیت میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ مرزا قادیانی کے ان فرستادوں نے یکم نومبر 1902ء کو قادیان پہنچ کر مناظرہ کے المناک انجام کی داستان اور اپنی خواری و خجالت کے احوال مرزا قادیانی کے گوش گزار کیے تو و ہ خوب لال پیلا ہوا۔ سخت طیش کی حالت میں پہلے موضع ’’مُد‘‘ کو بددعائیں دیں اور پھر مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کو جوش غضب میں دل کھول کر گالیاں دیں۔ بطور نمونہ مرزا قادیانی کی کتاب اعجاز احمدی صفحہ 39 تا 87 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 150 تا 201ملاحظہ فرمائیں۔

مرزا قادیانی نے اپنی پیشگوئیوں کی تفتیش کے لیے مولانا کو قادیان آنے کا چیلنج دیا اور انعام کا وعدہ کیا اور اپنے اس چیلنج کو بار بار دُہرایا۔ مرزا قادیانی جانتا تھا کہ قادیان آ کر ڈیڑھ سو پیشگوئیوں کی تفتیش کرنا ،ایک مصروف آدمی کے لیے اتنا وقت نکالنا ایک مشکل ترین مسئلہ ہے اور ایک ایک پیشگوئی کی تاویل اور اس کی تردید و تفتیش میں خاصا عرصہ لگ جائے گا، آخرکار مولانا موصوف قادیان چھوڑ جائیں گے اور پھر وہ اپنی فتح کا اعلان کر دے گا۔ اسی یقین کی وجہ سے مرزا قادیانی نے کہا کہ اسے خدا نے بتا دیا ہے:

(1)        ’’واضح رہے کہ مولوی ثناء اللہ کے ذریعہ سے عنقریب تین نشان میرے ظاہر ہوں گے۔ (1) وہ قادیان میں تمام پیشگوئیوں کی پڑتال کے لیے میرے پاس ہرگز نہیں آئیں گے اور سچی پیشگوئیوں کی اپنے قلم سے تصدیق کرنا ان کے لیے موت ہوگی۔ (2) اگر اس چیلنج پر وہ مستعد ہوئے کہ کاذب صادق کے پہلے مر جائے تو ضرور وہ پہلے مریں گے۔ (3) اور سب سے پہلے اس اُردو مضمون اور عربی قصیدہ کے مقابلہ سے عاجز رہ کر جلد تر ان کی رُوسیاہی ثابت ہو جائے گی۔‘‘

(اعجاز احمدی ]ضمیمہ نزول المسیح[ صفحہ 37 روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 148 از مرزا قادیانی)

یاد رہے کہ مرزا قادیانی کی یہ کتاب ’’اعجاز احمدی‘‘ ]ضمیمہ کتاب نزول المسیح[ 15 نومبر 1902ء کو شائع ہوئی تھی مگرمرزا قادیانی کے ڈینگیں ہانکنے کے باوجود مولانا کے قادیان پہنچ جانے اور مقابلہ پر نہ آنے سے اس کا نام نہاد قصر نبوت پیشاب کی جھاگ کی طرح بیٹھ گیااور مقابلہ سے صاف مکرگیا ۔ مرزا قادیانی کی 15 نومبر کی یہ بات کہ وہ ہرگز قادیان نہیں آئیں گے، جنوری 1903ء میں ہی غلط ثابت ہو گئی۔ مرزا قادیانی اوراس  کے پیروکار بے حد پریشان ہوئے اور عاجز آ گئے، چنانچہ وہ اپنا اور مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کا مقدمہ لے کر خود اپریل 1907ء کو خدا کی عدالت میں جا پہنچا اور خدا تعالیٰ نے ان کے استغاثہ کے ٹھیک ساڑھے تیرہ ماہ بعد ایسا فیصلہ کیا جسے اہل اسلام اور قادیانیوں کی جنگ کی تاریخ کا یوم الفرقان کہنا صحیح ہوگا۔ یہ فیصلہ تاقیامت مرزا قادیانی کے صدق و کذب کا دو ٹوک اور حتمی جواب ہے۔ مرزا قادیانی لکھتا ہے:

(2)        ’’میں نے سنا ہے بلکہ مولوی ثناء اللہ امرتسری کی دستخطی تحریر میں نے دیکھی ہے جس میں وہ یہ درخواست کرتا ہے کہ میں اس طور کے فیصلہ کے لیے بدل خواہشمند ہوں کہ فریقین یعنی میں اور وہ یہ دعا کریں کہ جو شخص ہم دونوں میں سے جھوٹا ہے وہ سچے کی زندگی میں ہی مر جائے۔‘‘                                                      (اعجازِ احمدی صفحہ 14 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 121 از مرزا قادیانی)

(3)        مزید کہا:’’یہ تو انھوں نے اچھی تجویز نکالی۔ اب اس پر قائم رہیں تو بات ہے۔‘‘

(اعجازِ احمدی ]ضمیمہ نزول المسیح[ صفحہ 14 روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 122 از مرزا قادیانی)

اس سے پہلے مرزا قادیانی مولانا امرتسریؒ کے ساتھ ہونے والی ایک بحث میں لکھ چکا تھاکہ:

(4)        ’’مگر شرط یہ ہوگی کہ کوئی موت قتل کے رُو سے واقع نہ ہو بلکہ محض بیماری کے ذریعہ سے ہو۔ مثلاً طاعون سے یا ہیضہ سے یا اور کسی بیماری سے تا ایسی کارروائی حکام کے لیے تشویش کا موجب نہ ٹھہرے اور ہم یہ بھی دعا کرتے رہیں گے کہ ایسی موتوں سے فریقین محفوظ رہیں۔ صرف وہ موت کاذب کو آوے جو بیماری کی موت ہوتی ہے اور یہی مسلک فریق ثانی کو اختیار کرنا ہوگا۔‘‘                                                      (اعجازِ احمدی ]ضمیمہ نزول المسیح[ صفحہ 15 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 122 از مرزا قادیانی)

مرزا قادیانی کا مندرجہ بالا اشتہار کسی حاشیہ یا شرح کا محتاج نہیں۔ اس اشتہار کے شائع ہونے کے 4 دن بعد یعنی 19 اپریل 1907ء کو اسے دوبارہ شائع کر کے تقسیم کیا گیا۔(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 580)اس کے 6 دن بعد 25 اپریل 1907ء کو قادیانی اخبار بدر قادیان میں مرزا قادیانی کا ایک اور بیان شائع ہوا جس میں مرزا قادیانی نے کہا:(قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ مرزا قادیانی کے اس اشتہار کو توجہ سے ملاحظہ فرمائیں۔ شکریہ)!

(5)        ’’مولوی ثناء اللہ صاحب (امرتسری) کے ساتھ آخری فیصلہ

بخدمت مولوی ثناء اللہ صاحب السلام علیٰ من اتبع الہدیٰ۔۔۔۔۔۔ اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جائوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام ہلاک ہو جاتا ہے اور اس کا ہلاک ہونا ہی بہتر ہوتا ہے تاخدا کے بندوں کو تباہ نہ کرے۔ اور اگر میں کذاب اور مفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیحِ موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ سنت اللہ کے موافق آپ مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے۔ پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے جیسے طاعون ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں ہی وارد نہ ہوئی تو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں۔ یہ کسی الہام یا وحی کی بنا پر پیشگوئی نہیں، محض دعا کے طور پر میں نے خدا سے فیصلہ چاہا ہے۔ اور میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اے میرے مالک بصیر و قدیر جو علیم و خبیر ہے جو میرے دل کے حالات سے واقف ہے اگر یہ دعویٰ مسیحِ موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افترا ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افترا کرنا میرا کام ہے تو اے میرے پیارے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے۔ آمین! مگر اے میرے کامل اور صادق خدا اگر مولوی ثناء اللہ ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی ان کو نابود کر۔ مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون و ہیضہ وغیرہ امراضِ مہلکہ سے بجز اس صورت کے کہ وہ کھلے کھلے طور پر میرے رو برو اور میری جماعت کے سامنے ان تمام گالیوں اور بدزبانیوں سے توبہ کرے جن کو وہ فرض منصبی سمجھ کر ہمیشہ مجھے دکھ دیتا ہے۔ آمین! یارب العالمین! ۔۔۔۔۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ انھیں تہمتوں کے ذریعہ سے میرے سلسلہ کو نابود کرنا چاہتا ہے اور اس عمارت کو منہدم کرنا چاہتا ہے جو تُو نے اے میرے آقاؐ اور میرے بھیجنے والے اپنے ہاتھ سے بنائی ہے۔ اس لیے اب میں تیرے ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اللہ میں سچا فیصلہ فرما اور وہ جو تیری نگاہ میں درحقیقت مفسد اور کذاب ہے اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنیا سے اٹھا لے یا کسی اور نہایت سخت آفت میں جو موت کے برابر ہو مبتلا کر۔ اے میرے پیارے مالک تو ایسا ہی کر۔ آمین ثم آمین!! ربنا افتح بیننا و بین قومنا بالحق وانت خیرالفاتحین۔ آمین۔

بالآخر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ وہ میرے اس تمام مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں۔ اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔

الراقم

عبداللہ الصمد میرزا غلام احمد مسیح موعود عافاہ اللہ و ایّد

                                                            مرقوم 15 اپریل 1907ء‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 705، 706 طبع جدید از مرزا قادیانی)

مرزا قادیانی کے مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کے متعلق اشتہار سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں:۔-1مرزا غلام احمد قادیانی اور مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ میں سے جو جھوٹا ہے، وہ سچے کی زندگی میں فوت ہو جائے گا۔-2ان دونوں میں جسے بھی موت آئے، وہ قتل کی رُو سے نہیں، بلکہ وہ کسی مہلک بیماری جیسے طاعون، ہیضہ وغیرہ میں ہلاک ہوگا۔اب صرف یہ دیکھنا باقی ہے کہ:۔qخدا نے کیا فیصلہ کیا؟qکسے پہلے موت آئی؟اور کس بیماری سے وہ ہلاک ہوا؟

مرزا قادیانی کی تاریخ وفات 26 مئی 1908ء ہے۔ یعنی مرزا قادیانی اپنی دعا کے تقریباً 13 ماہ اور بارہ دن بعد ہیضہ کی بیماری سے آنجہانی ہو گیا جبکہ مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ اس دعا کے تقریباً چالیس سال بعد (پاکستان بننے کے بعد) 15 مارچ 1948ء میں اللہ کو پیارے ہوئے۔کسی نے کیا خوب کہا تھا:        ؎کذب میں سچا تھا پہلے مر گیا

مرزا قادیانی نے جھوٹے کے لیے خود ہیضہ کی بیماری تجویز کی تھی۔ اس طرح اسے منہ مانگی موت مل گئی۔ اس سلسلہ میں اگر ہم کچھ عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔ بہتر ہے کہ گھر کی شہادت پیش کی جائے تاکہ اعتراض و انکار کی کوئی گنجائش نہ رہے۔مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد اپنی والدہ نصرت جہاں کے حوالہ سے لکھتا ہے:

(6)        ’’ اتنے میں آپ کو ایک اور دست آیا۔ مگر اب اس قدر ضعف تھا کہ آپ پاخانہ نہ جا سکتے تھے۔ اس لیے میں نے چارپائی کے پاس ہی انتظام کر دیا اور آپ وہیں بیٹھ کر فارغ ہوئے اور پھر اٹھ کر لیٹ گئے اور میں پائوں دباتی رہی۔ مگر ضعف بہت ہو گیا تھا اس کے بعد ایک اور دست آیا اور پھر آپ کو ایک قے آئی۔ جب آپ قے سے فارغ ہو کر لیٹنے لگے تو اتنا ضعف تھا کہ آپ لیٹتے لیٹتے پشت کے بل چارپائی پر گر گئے اور آپ کا سر چارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا اور حالت دگرگوں ہو گئی۔ اس پرمیں نے گھبرا کر کہا ’’اللہ یہ کیا ہونے لگا ہے‘‘! تو آپ نے فرمایا: ’’یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 11، 12 از مرزا بشیر احمد ایم اے)

(7)        مرزا قادیانی کے خسر میر ناصر نواب کا کہنا ہے:’’ جب میں حضرت صاحب کے پاس پہنچا اور آپ کا حال دیکھا تو آپ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا: میر صاحب! مجھے وبائی ہیضہ ہو گیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے کوئی ایسی صاف بات میرے خیال میں نہیں فرمائی۔ یہاں تک کہ دوسرے روز دس بجے کے بعد آپ علیہ السلام کا انتقال ہو گیا۔‘‘

                                                                                                     (حیات ناصر صفحہ 14 از شیخ یعقوب علی عرفانی قادیانی)

مرزا قادیانی مولانا ثناء اللہ صاحب مرحوم کے ساتھ ہونے والی بحث میں لکھتا ہے:

(8)        ’’میں اقرار کرتا ہوں کہ اگر میں اس مقابلہ میں مغلوب رہا تو میری جماعت کو چاہیے جو ایک لاکھ سے بھی اب زیادہ ہے کہ سب مجھ سے بیزار ہو کر الگ ہو جائیں کیونکہ جب خدا نے مجھے جھوٹا قرار دے کر ہلاک کیا تو میں جھوٹے ہونے کی حالت میں کسی پیشوائی اور امامت کو نہیں چاہتا بلکہ اس حالت میں ایک یہودی سے بھی بدتر ہوں گا اور ہر ایک کے لیے جائے عار و ننگ۔‘‘

                                             (اعجاز احمدی ]ضمیمہ نزول المسیح[ صفحہ 16 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 124 از مرزا قادیانی)

ہم قادیانیوں سے درخواست کریں گے کہ وہ خود غور کریں اور دیکھیں کہ مرزا قادیانی کا مغلوب ہونا اور وبائی ہیضہ سے ہلاک ہونا کوئی اختلافی مسئلہ نہیں ہے، اس کے باوجود سرور دوعالم خاتم الانبیاء والمرسلین حضرت محمد رسول اللہﷺ کی غلامی میں نہ آنا بہت بڑی بدنصیبی اور شقاوت ہے۔مرزا قادیانی خود لکھتا ہے:

(9)        ’’اب بتلائو کہ کیا مقبولانِ الٰہی کا یہی نشان ہے کہ جو دعا وہ نہایت تضرع و ابتہال سے کریں، اس کا الٹا اثر ہو اور اثر بھی یہ کہ خود ہی ہلاک ہو کر اپنے کاذب ہونے پر مہر لگا جاویں۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 200 طبع جدید از مرزا قادیانی)