Language:

سپریم کورٹ کی نظر میں قادیانیوں کا عقیدہ – حافظ محمد عمران خان ایڈووکیٹ

ہائی کورٹ میں قادیانیوں نے شعائر اسلامی کے استعمال کی اجازت کے لئے آٹھ مختلف  درخواستیں ،اپیلیں اور رٹیں دائر کی تھیںجو1988ء سے 1992ء تک مختلف اوقات میں خارج کر دی گئیں۔قادیانیوں نے ہائی کورٹ کے ان فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیلیں دائر کیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس محمد افضل ظلہ نے ان کیسوں کی سماعت کے لیے پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا جو جسٹس شفیع الرحمن( بنچ کے سربراہ ) ‘ جسٹس عبدالقدیر چوہدری‘ جسٹس محمد افضل لون‘ جسٹس ولی محمد اور جسٹس سلیم اختر پر مشتمل تھا۔ قادیانیوں نے مسٹر فخر الدین جی ابراہیم بوہری، مجیب الرحمن وغیرہ کو وکیل کیا تھا۔پاکستان گورنمنٹ کی طرف سے اٹارنی جنرل مسٹر عزیز اے منشی اور وزارتِ مذہبی امور کی طرف سے ماہر قانون دان جناب سید ریاض الحسن گیلانی پیش ہوتے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے مکرم محترم جناب راجہ حق نواز صاحب وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل اورمحافظ ناموس مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جناب محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ سپریم کورٹ پیش ہوئے۔ اس کیس کا فیصلہ3جولائی 1993 کو مسلمانوں کے حق میںہوااور قادیانیوں کی تمام اپیلیں خارج کردی گئیں۔

سپریم کورٹ کے5رکنی بینچ نے اپنے تفصیلی فیصلہ مندرجہ  (1993   SCMR   1718) میں قادیانیوں کے عقیدہ سے متعلق لکھا کہ

کلمہ ایک اقرار نامہ ہے جسے پڑھ کر غیر مسلم اسلام کے دائرہ میں داخل ہوتا ہے‘ یہ عربی زبان میں ہے اور مسلمانوں کے لیے خاص ہے‘ جو اسے نہ صرف اپنے عقیدہ کے اظہار کے لیے پڑھتے ہیں بلکہ روحانی ترقی کے لیے بھی اکثر اس کا ورد کرتے ہیں۔ کلمۂ طیبہ کے معنی ہیں۔ ’’خدا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد (ﷺ) اس کے رسول ہیں۔‘‘ اس کے برعکس قادیانیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ مرزا قادیانی(نعوذباللہ) حضرت محمدؐ کا بروز ہے۔ مرزا قادیانی نے اپنی کتا ب ’’ایک غلطی کا ازالہ‘‘ (اشاعت سوم‘ ربوہ صفحہ 4) میں لکھا ہے:

’’سورئہ الفتح کی آیت نمبر 29 کے نزول میں محمدؐ کو اللہ کا رسول کہا گیا ہے …اللہ نے اس کا نام محمد رکھا‘‘ ۔ (مندرجہ روحانی خزائن ‘ ص 207‘ جلد 18)

روزنامہ ’’بدر‘‘ (قادیان) کی اشاعت 25 اکتوبر 1906ء میں قاضی ظہور الدین اکمل سابق ایڈ یٹر  Review  of Religions  کی ایک نظم شائع ہوئی تھی‘ جس کے ایک بند کا مفہوم اس طرح ہے ’’محمد پہلے سے زیادہ شان کے ساتھ ہم میں دوبارہ آ گئے ہیں‘ جو کوئی محمد کو ان کی مکمل شان کے ساتھ دیکھنے کا متمنی ہو‘ اسے چاہیے کہ وہ قادیان جائے۔‘‘

یہ نظم مرزا صاحب کو سنائی گئی تو اس نے اس پر مسرت کا اظہار کیا۔ (روزنامہ الفضل قادیان‘ 22 اگست 1944)

علاوہ ازیں ’’اربعین‘‘ (جلد 4‘ صفحہ 17) … (مندرجہ روحانی خزائن ‘ ص 445-446‘ جلد 17)  میں اس نے دعویٰ کیا ہے۔

’’سورج کی کرنوں کی اب برداشت نہیں‘ اب چاند کی ٹھنڈی روشنی کی ضرورت ہے اور وہ احمد کے رنگ میں ہو کر میں ہوں۔‘‘

خطبہ الہامیہ (صفحہ 171) (مندرجہ روحانی خزائن ‘ ص 259‘ جلد 16) میں‘ اس نے اعلان کیا:

’’جو کوئی میرے اور محمدؐ کے مابین تفریق کرتا ہے‘ اس نے نہ تو مجھے دیکھا ہے نہ جانا ہے۔‘‘

مرزا قادیانی نے مزید دعویٰ کیا ہے:

’’میں اسم محمد کی تکمیل ہوں یعنی میں محمد کا ظل ہوں۔‘‘ (دیکھئے حاشیہ حقیقت الوحی‘ ص72)

’’سورئہ الجمعہ (62) کی آیت نمبر 3 کے پیش نظر جس میں کہا گیا ہے۔ (وہی ہے جس نے اُمیوں کے اندر ایک رسول‘ خود انہی میں سے اٹھایا جو انہیں‘ اس کی آیات سناتا ہے‘ ان کی زندگی سنوارتا ہے اور ان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے) میں ہی آخری نبی اور اس کا بروز ہوں اور خدا نے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا اور مجھے محمد کی تجسیم بنایا۔‘‘(دیکھئے ایک غلطی کا ازالہ شائع شدہ از ربوہ‘ ص 10-11) …

                                                                                                                     (مندرجہ روحانی خزائن‘ ص 212‘ جلد 18)

’’میں وہ آئینہ ہوں جس میں سے محمد کی ذات اور نبوت کا عکس جھلکتا ہے۔‘‘             (نزول المسیح ‘ ص 48‘ شائع شدہ قادیان اشاعت‘ 1909)

 اوپر جو کچھ کہا گیا اس کی روشنی میں مسلمانوں میں اس بات پر عمومی اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ جب کوئی احمدی کلمہ پڑھتا ہے یا اس کا اظہار کرتا ہے تو وہ اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ مرزا قادیانی ایسا نبی ہے‘ جس کی اطاعت واجب ہے اور جو ایسا نہیں کرتا‘ وہ بے دین ہے‘ بصورتِ دیگر وہ خود کو مسلمان کے طور پر پیش کرکے لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں۔ آخری بات یہ ہے کہ یا تو وہ مسلمانوں کی تضحیک کرتے ہیں یا اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐ کی تعلیمات ‘ صورتحال کی راہنمائی نہیں کرتیں۔ اس لیے جیسی بھی صورتحال ہو‘ ارتکابِ جرم کو ایک نہ ایک طریقہ سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔

  مرزا قادیانی نے نہ صرف یہ کہ اپنی تحریروں میں رسول اکرمؐ کی عظمت و شان کو گھٹانے کی کوشش کی بلکہ بعض مواقع پر ان کا مذاق بھی اڑایا۔ حاشیہ تحفہ گولڑویہ صفحہ165 (مندرجہ روحانی خزائن‘ ص 263‘ جلد 17) میں مرزا صاحب نے لکھا کہ:’’پیغمبر اسلام اشاعت دین کو مکمل نہیں کر سکے‘ میں نے اس کی تکمیل کی۔‘‘

ایک اور کتاب میں کہتا ہے:

’’رسول اکرمؐ بعض نازل شدہ پیغامات کو نہیں سمجھ سکے اور ان سے بہت سی غلطیاں سرزد ہوئیں۔‘‘ (دیکھئے ازالہ الاوہام‘ لاہوری طبع‘ ص 346) … (مندرجہ روحانی خزائن‘ ص 473-472‘ جلد 3)

اس نے مزید دعویٰ کیا:

’’رسولِ اکرمؐ تین ہزار معجزے رکھتے تھے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ‘ ص 67‘ مندرجہ روحانی خزائن‘ ص153‘ جلد17)

’’جبکہ میرے پاس دس لاکھ نشانیاں ہیں‘‘ (براہین احمدیہ‘ جلد 5‘ ص 56‘ … روحانی خزائن‘ ص 72جلد 21)

(نشان ‘ معجزہ‘ کرامت ایک چیز ہے۔ براہین احمدیہ‘ جلد 5‘ ص 50‘ مندرجہ روحانی خزائن‘ ص 63‘ جلد 21)

مزید یہ کہ

’’رسول اکرمؐ نصاریٰ کا تیار کردہ پنیر کھاتے تھے جس میں وہ سور کی چربی ملاتے تھے۔‘‘ (الفضل ‘ قادیان‘ 22فروری 1924 )

مرزا بشیر احمد نے اپنی تصنیف ’’کلمۃ الفصل‘‘ صفحہ 113 میں لکھا:’’مسیح موعود کو تو تب نبوت ملی جب اس نے نبوت محمدیہؐ کے تمام کمالات کو حاصل کر لیا اور اس قابل ہو گیا کہ ظلی نبی کہلائے‘ پس ظلی نبوت نے مسیح موعود کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹایا بلکہ آگے بڑھایا اور اس قدر آگے بڑھایا کہ نبی کریمؐ کے پہلو بہ پہلو لا کھڑا کیا۔‘‘

اس طرح کی اور بہت سی تحریریں موجود ہیں لیکن ہم (سپریم کورٹ)  اس ریکارڈ کو مزیدگراں بار نہیں کرنا چاہتے۔

 ہر مسلمان کا بنیادی عقیدہ ہے کہ وہ ہر نبی کو مانتا اور اس کا احترام کرتا ہے‘ اس لیے اگر نبی کی شان کے خلاف کچھ کہا جائے تو اس سے مسلمان کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی‘ جس سے وہ قانون شکنی پر آمادہ ہو سکتا ہے۔ اس کا انحصار جذبات پر ہونے والے حملے کی سنگینی پر ہے۔ ہائیکورٹ کے فاضل جج نے مرزائیوں کی کتابوں سے بہت سے حوالے نقل کرکے ثابت کیا ہے کہ مرزا قادیانی نے دوسرے انبیائے کرام خصوصاً حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بھی بڑی توہین کی  اور ان کی شان گھٹائی‘ حضرت عیسیٰ  ؑ کی جگہ وہ خود لینا چاہتا تھا۔ہم اس سارے مواد کو نقل کرنا ضروری نہیں سمجھتے‘ صرف دو مثالوں پر اکتفا کرتے ہیں۔ مرزا قادیانی ایک جگہ رقمطراز ہے:’’جو معجزات دوسرے نبیوں کو انفرادی طور پر دیئے گئے تھے‘ وہ سب رسول اکرمؐ کو عطا کیے گئے‘ پھر وہ سارے معجزے مجھے بخشے گئے کیونکہ میں ان کا بروز ہوں یہی وجہ ہے کہ میرے نام آدم‘ ابراہیم‘ موسیٰ ‘ نوح ‘ دائود‘ یوسف‘ یونس‘ سلیمان اور عیسیٰ مسیح ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم‘ ص 270‘ شائع شدہ ربوہ)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں لکھتا ہے:

’’حضرت مسیح کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہّر ہے۔ تین نانیاں اور دادیاں آپ کی زناکار اور کسبی عورتیں تھیں جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا‘‘۔ (ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ‘ ص 7… مندرجہ روحانی خزائن‘ ص 291‘ جلد 11)

  اس کے برعکس اللہ کی پاک کتاب (قرآن حکیم) حضرت عیسیٰ ‘ان کی والدہ اور خاندان کی بڑائی بیان کرتی ہے۔ دیکھئے سورہ آل عمران (3) کی آیات 33 تا 37‘ 45 تا 47‘ سورئہ مریم (19) کی آیات 16تا 32 کیا کوئی مسلمان قرآن کے خلاف کچھ کہنے کی جسارت کر سکتا ہے اور جو ایسی حماقت کرے‘ کیا وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ ایسی صورت میں مرزا قادیانی اور اس کے پیروکار کیسے مسلمان ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مرزا قادیانی پر اسی کی مذکورہ بالا تحریروں کی بناء پر توہین مذہب ایکٹ مجریہ 1679ء کے تحت عیسائیت کی توہین کے جرم میں کسی انگریزی عدالت میں ملزم قرار دے کر سزا دی جا سکتی تھی‘ مگر ایسا نہیں کیا گیا۔

  جہاں تک رسول اکرمؐ کی ذات گرامی کا تعلق ہے‘ مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے:’’ہر مسلمان کے لیے جس کا ایمان پختہ ہو‘ لازم ہے کہ وہ رسول اکرمؐ کے ساتھ اپنے بچوں‘ خاندان‘ والدین اور دُنیا کی ہر محبوب ترین شے سے بڑھ کر پیار کرے۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب الایمان‘ باب حب الرسول من الایمان)

کیا ایسی صورت میں کوئی کسی مسلمان کو موردِ الزام ٹھہرا سکتا ہے اگر وہ ایسا توہین آمیز مواد جیسا کہ مرزا صاحب نے تخلیق کیا ہے سننے‘ پڑھنے یا دیکھنے کے بعد اپنے آپ پر قابونہ رکھ سکے؟

(1993   SCMR   1718)