Language:

کادیانی قیادت سے چند سلگتے سوال

قادیانی قیادت سے چند سلگھتے سوالات
قادیانی جماعت کا تیسرا خلیفہ مرزا ناصر 8جون 1982ء کو اسلام آباد میں جہنم واصل ہوا تو نئے خلیفہ کے انتخاب پر قادیانی جماعت میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ 10جون 1982ء کو صبح 9بجے کے قریب نئے خلیفہ کے انتخاب کے موقع پر قادیانی مرکزی عبادت گاہ ربوہ (چناب نگر) کے باہر زبردست ہنگامہ آرائی ہوئی۔ قادیانی عقیدہ ہے کہ خلیفہ کو خدا بناتا ہے۔ یہاں اس عقیدہ سے بحث نہیں، صرف یہ بتانا ہے کہ جب مرزا ناصر کا دور اقتدار تھا تب مرزا ناصر کے بیٹے لقمان کا رشتہ مرزا طاہر کی بیٹی سے طے ہوا تھا۔ یہ دراصل مرزا طاہر کی اپنا آئندہ اقتدار محفوظ کرنے کے لیے کوشش تھی۔ مگر اس وقت اس کوشش کو شدید دھچکا پہنچا جب مرزا لقمان نے مرزا طاہر کی بیٹی کو چھوڑ کر ایک اور لڑکی سے شادی کر لی۔ کچھ عرصہ بعد جب وہ نیک بخت قادیانیت سے تائب ہو کر اسلام کی پناہ میں آ گئی تو مرزا طاہر احمد نے پھر اپنی بیٹی کے رشتہ کی پیش کش کی۔ اس پر مرزا لقمان کی شادی مرزا طاہر کی بیٹی فائزہ سے ہو گئی۔ قادیانی خلیفہ بے شک قادیانیوں کا خدا ہی بناتا ہو گا لیکن مجھے اس لیے اس تفصیل میں جانا پڑا تا کہ یہ بتا سکوں کہ جس دن مرزا طاہر کی بیٹی اور مرزا ناصر کے بیٹے مرزا لقمان کا رشتہ طے ہوا، اسی دن ربوہ سے خفیہ سرکاری ایجنسی کے اہلکار نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس رشتہ کے طے ہونے کے نتیجہ میں اگلے قادیانی خلیفہ کے لیے مرزا طاہر کا نام طے ہو گیا ہے۔ وہ خفیہ رپورٹ اب بھی سرکاری ریکارڈ میں موجود ہے اور مرزا طاہر کی منافقانہ ذہانت کا واضح ثبوت ہے۔
قادیانی رائل فیملی کے تمام چھوٹے بڑوں میں قادیانی خلافت کے حصول کے لیے لالچ اور اندرونی سازشیں اپنی جگہ لیکن ناظر امور عامہ کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے اس فیملی کے کئی بگڑے ہوئے شہزادے بھی اس عہدے کی خواہش رکھتے ہوئے آپس میں گھتم گھتا رہتے ہیں۔ موجودہ روایت کے مطابق جس کے سر پر ناظر اعلیٰ کا تاج ہو گا، وہ مستقبل کا سربراہ ہو گا۔ اس سلسلہ میں رائل فیملی کے ارکان میں سخت کشیدگی پائی جاتی ہے۔ اس عہدہ کو حاصل کرنے کے لیے ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ شعبہ امور عامہ میں ایک خصوصی فنڈ۔ غ۔م (غیر معمولی) کی چمک موجود ہے اور اس فنڈ میں سے لاکھوں کروڑوں روپے کسی خاص مقصد کے لیے کسی کو بھی بطور رشوت دیئے جا سکتے ہیں جس کا اندراج کہیں بھی نہیں ہوتا۔ یہ وہ لاٹری ہے جسے پانے کے لیے کئی شہزادے بے چین رہتے ہیں۔
ذکر ہو رہا تھا نئے خلیفہ کے انتخاب کے موقع پر ہنگامہ آرائی کا۔ مرزا رفیع جب مجلس مشاورت کے اجلاس سے واک آئوٹ کرتا باہر آیا تو مرزا طاہر کے غنڈوں نے اپنی ایک کار AJK 300 میں ڈال کر اُسے زبردستی اغواء کرنے کی کوشش کی مگر مرزا رفیع کے حامیوں نے یہ کوشش ناکام بنا دی۔ پھر مرزا رفیع اپنے حامیوں کو لے کر اقصیٰ چوک میں آ گیا اور وہاں پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مرزا طاہر اور اس کے حامیوں نے خلافت کے اصولوں کی دھجیاں بکھیر دی ہیں اور مجھے انتخاب خلافت سے خارج کر دیا ہے جو سراسرناانصافی ہے۔ مرزا رفیع کی اس تقریر پر پھر ہنگامہ ہو گیا اور اسے زبردستی گھر پر نظر بند کر دیا گیا۔ بعد ازاں اسے کسی نہ معلوم پر منتقل کر دیا گیا۔ اس کے بعد 3بجے کے قریب طاقت اور دھونس کے بل بوتے پر مرزا طاہر کی نام نہاد خلافت کا اعلان کر دیا گیا۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ مرزا طاہر بنیادی طور پر ایک بدمعاش اور آوارہ مزاج شخص تھا۔ 28مئی 1974ء کو ربوہ ریلوے اسٹیشن پر نشتر میڈیکل کالج کے نہتے طلبہ پر بے رحم تشدد اور زدوکوب کرنے والے شرپسندوں کی قیادت مرزا طاہر ہی کر رہا تھا۔ جن لوگوں نے مرزا رفیع سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، انہیں بتایا گیا وہ وہ گھر پر نہیں ہے، ہم تو صرف مکان کی حفاظت کر رہے ہیں۔ بعد ازاں 26جنوری 1982ء کو مرزا رفیع کو دل کی تکلیف ہو گئی جس پر اسے لاہور کے شیخ زید ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا۔ مرزا طاہر نے خلافت کا عہدہ سنبھالتے ہی مرزا رفیع کو ”مدرسہ احمدیہ” کی ذمہ داریوں سے فارغ کر دیا۔ پھر 12اگست 1982ء کو مرزا طاہر نے جماعت پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے مرزا رفیع احمد سمیت متعدد بااثر عہدیداروں کی جماعت سے نکال دیا اور قادیانی تنظیموں انجمن احمدیہ، انصار اللہ، خدام الاحمدیہ اور دوسری اہم تنظیموں کے عہدیداروں میں ردوبدل کر کے اپنے گروپ کے حامیوں کی تقرری کی۔ بیرونی مشنوں کی تجدید بیعت سے انکار کے بعد اپنے ہم خیال نئے مبلغ اور انچارج مقرر کیے۔
مرزا طاہر اور مرزا رفیع کے یہ اختلاف جب شدت اختیار کر گئے تو سابق وزیر خارجہ ظفر اللہ خاں، ایم ایم احمد اور ڈاکٹر عبدالسلام نے رفیع احمد کی منت سماجت کی مگر وہ نہ مانا۔ پھر مرزا قادیانی کی بیٹی امت الحفیظ کی مداخلت سے مرزا رفیع اور مرزا طاہر کی درمیان صلح کرا دی گئی۔ عارضی طور پر یہ اختلاف دب گیا مگر مرزا طاہر نے مرزا رفیع کے حامیوں کو پھر تنگ کرنا شروع کر دیا جس پر اختلافات پھر ابھر کر سامنے آ گئے۔ مرزا رفیع نے مرزا طاہر پر الزام لگایا کہ وہ میرے خاندان کی غیر محسوس انداز میں نسل کشی کر رہا ہے۔ کیونکہ میرے دونوں لڑکوں مرزا طیب اور مرزا صمد کے گھر سے کوئی اولاد پیدا نہیں ہو رہی۔
مرزا رفیع کو جب دیوار سے لگا دیا گیا تو کئی بے گناہ اس شخص کی وجہ سے شہر بدر کر دئیے گئے۔ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ جس شخص سے مرزا رفیع کی تعریف سنی گئی یا جس جگہ پر اس کا ذکر ہو گیا، اس شخص پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑ دیئے گئے۔ رحمت بازار ربوہ میں ایک بیوہ عورت اپنے دوبیٹوں محمد اسلم اور محمد اشرف کے ساتھ رہ رہی تھی، غریب عورت تھی لوگوں کے گھروں میں برتن دھو کر اس نے بیٹوں کو پالا پوسا۔ بیٹے بڑی محنت والے تھے، اسی بازار میں ایک پھٹے پر گرمیوں میں برف اور سردیوں میں کوئلہ بیچنے لگے۔ تھوڑی سی خوشحالی گھر میں آئی، ماں بھی خوش تھی کہ دن پھر گئے، ایک روز کسی نے ان کی برف کی دوکان پر میاں رفیع کی چند باتیں کر دیں، رپورٹ ہوئی اور خلیفہ وقت کا حکم بذریعہ امور عامہ آ گیا کہ صبح کا سورج طلوع ہونے سے قبل شہر چھوڑ دو، ورنہ جماعت کے اہلکار یہ خدمات انجام دیں گے، بیوہ عورت جس نے بڑی مشکل سے اچھے دن دیکھے تھے، اور اپنے خاندان میں اکیلی قادیانی تھی بہت روئی، پیٹی، چلائی، فریادیں کیں، سر پٹکا مگر بادشاہ سلامت کا حکم آخری تھا، چارو ناچار جو کچھ اٹھا سکے، اٹھا کر فیصل آباد چلے گئے اور وہاں سے کراچی۔ بعد ازاں قادیانیت سے تائب ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمتیں ان پر نچھاور کیں۔ بڑا بھائی دوبئی میں سپیئرپارٹس کا بزنس کر رہا ہے اور چھوٹا بھائی ”پی۔ آئی۔ اے” میں ملازمت اور کرکٹ کا شاندار کھلاڑی بھی۔ یہ بات آج تک سمجھ نہیں آئی کہ مرزا رفیع کا کردار ایسا تھا کہ جو کوئی بھی اس کے ساتھ نظر آیا، شہر بدر ہوا تو اتنے خاندانوں کو اجاڑنے کے بجائے اس اکیلے رفیع کو شہر بدر کیوں نہ کر دیا گیا؟ پانی کے سینکڑوں ڈول کنویں سے نکال پھینکے گئے مگر کتا کنویں کے اندر ہی رہا۔
مرزا رفیع اور مرزا طاہر کے اختلاف تاعمر رہے۔ دونوں ایک دوسرے پر فنڈ کی خورد برد، اختیارات سے تجاوز اور جنسی نوعیت کے شرمناک الزامات لگاتے رہے۔ قادیانی خلیفہ مرزا طاہر 19اپریل 2003ء کو مرزا رفیع کی زندگی میں مرا لیکن رفیع، مرزا طاہر کی تدفین میں شرکت کے لیے لندن گیا اور نہ ہی غائبانہ جنازہ ربوہ میں شریک ہوا۔ سب سے بڑھ کر قابل ذکر بات یہ ہے کہ مرزا رفیع نے تاحیات مرزا طاہر کو خلیفہ تسلیم نہیں کیا۔
اب مرزا رفیع احمد 15جنوری 2004ء کو صبح ڈھائی بجے فضل عمر ہسپتال ربوہ میں بعارضہ قلب فوت ہوا۔ مرزا رفیع احمد، مرزا بشیر الدین محمودو سارہ بیگم کا بیٹا اور ڈاکٹر اسحاق کا داماد تھا اور مصدقہ اطلاع کے مطابق مرزا رفیع احمد نے مرزا طاہر کی طرح موجودہ خلیفہ مرزا مسرور احمد سے بھی بیعت نہیں کی تھی۔ وہ واقف زندگی تھا جس کا وقف ختم کر دیا گیا لیکن اس کے باوجود نہ صرف مقامی امیر و ناظر اعلیٰ مرزا خورشید احمد نے اس کا جنازہ پڑھایا بلکہ اسے ”بہشتی مقبرہ” میں دفن کیا گیا۔ اس سلسلہ میں، قادیانی قیادت سے چند سوالات پوچھنا چاہتا ہوں کہ

-1 کیا قادیانی جماعت کوئی مثال دے سکتا ہے کہ کسی کا وقف ختم کر دیا گیا ہو اسے بہشتی مقبرہ میں دفن کیا گیا ہو؟
-2 جس قادیانی نے خلیفہ کی بیعت سے انکار کیا ہو، اور اس کا نماز جنازہ مقامی امیر و ناظر اعلیٰ پڑھائے بلکہ وہ بہشتی مقبرہ میں بھی دفن ہو؟
-3 کیا قادیانی جماعت یہ ثابت کر سکتی ہے کہ مرزا رفیع نے کبھی مرزا طاہر یا مرزا مسرور کی بیعت کی ہو؟
-4 مرزا رفیع احمد نے مرزا طاہر پر جو سنگین الزامات لگائے تھے، کیا اس نے اپنے زندگی میں یہ الزامات واپس لے لیے تھے؟
-5 قادیانی جماعت کا عقیدہ ہے کہ جو شخص بہشتی مقبرہ میں دفن ہوتا ہے وہ ”جنتی” ہے۔ کیا یہ سمجھنا چاہئے کہ مرزا رفیع نے مرزا طاہر کے ساتھ جو اختلاف کیا تھا، بیعت نہیں کی اور سنگین الزامات لگائے تھے، اس کے صلہ میں وہ بہشتی مقبرہ میں دفن ہوا جبکہ مرزا طاہر اس ”نعمت” سے محروم رہا؟
کیا قادیانی قیادت ان سوالات کے جوابات دینا پسند کرے گی؟