Language:

قادیانیوں سے سلگتی ہوئی باتیں – مولانا مشتاق احمد چنیوٹی

ماضی میں بھی کئی مدعیان نبوت کا اقتدار تین سو سال تک قائم رہا، مرزائیت کے معاملہ کو طول دینے میں اللہ تعالیٰ کی اپنی کوئی حکمت تھی، اس لئے اپنے بیرونی آقائوں کے سہارے مرزائیت نے سو سال نکال لیے ہیں اور وہ اس پر بہت شاداں وفرحاں ہیں وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کی رسی بہت لمبی ہے لیکن وہ پکڑنے پر آتے ہیں تو دیر نہیں لگاتے۔

            قادیانیوں کو سوچنا چاہیے کہ زَن، زَر، زَمین اور استعماری طاقتوں کے سہارے وہ سو سال گزارنے میں کامیاب ہوگئے لیکن تابکے؟ استعماری طاقتیں اور ان کے ایجنٹ انہیں کب تک تحفظ فراہم کریں گے؟ انہیں غور کرنا چاہیے کہ گذشتہ ادوار کے تاریخی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حسن بن صباح کا فتنہ کتنا بڑا تھا؟ مسلیمہ کذاب کی فوج مسلمانوں کے مقابلہ میں کئی گنا تھا لیکن آج ان کا نام و نشان بھی نہیں ملتا۔۔۔۔

قادیانیوں کو اپنے طرز فکروعمل پر غور کرتے ہوئے د یکھنا ہوگا کہ

٭          قادیانی سربراہوں اور ان کے خاندانوں کا عام قادیانیوں کے ساتھ طرزِ زندگی معیشت و معاشرت میں اتنا فرق کیوں ہے؟

٭          اللہ تعالیٰ کی طرف سے سو سال کی مہلت قادیانیوں کو حق و باطل کا فیصلہ کرنے اور توبہ تائب ہونے کے لئے دی گئی ہے لیکن وہ الٹا اس مہلت کو اپنی صداقت کا نشان ٹھہرا رہے ہیں کیا وہ ختم اللہ علی قلوبھ م کا مصداق تو نہیں بن گئے؟

٭          قادیانیوں کو چاہیے کہ وہ درج ذیل قرآنی آیات پر غور کریں۔

(1)        والذین کذبوابایتنا سنستدرجھم من حیث لا یعلمون واملی لھم ان کیدی متین۔                                           (الاعراف182،183)

ترجمہ:   اور وہ لوگ جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں ہم ان کو عنقریب پکڑیں گے جہاں سے انہیں علم نہ ہوگا۔

(2)        اولم  یرو انا ناتی الارض ننقصھا من اطرافھا واللہ یحکم لا معقب لحکمہ وھو سریع الحسابo وقد مکرالذین من قبلھم فللہ المکر جمیعا یعلم ما تکسب کل نفس وسیعلم الکفر لمن عقبی الدارo (الرعد:41،42)

            کیا وہ نہیں دیکھتے کہ زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے جاتے ہیں اور اللہ حکم کرتا ہے اور کوئی اس کے حکم کو پیچھے نہیں کرسکتا اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔ اور ان سے پہلے لوگ بھی فریب کرچکے ہیں سو اللہ ہی کے لئے سب تدبیر ہے ہر شخص جو کماتا ہے وہ جانتا ہے اور اب منکر معلوم کریں گے کہ آخری گھر کس کے لئے ہے۔

(3)        بل متعنا ھولاء واباء ھم حتی طال علیھم العمرہ افلا یرون انا ناتی الارض ننقصھا من اطرافھا افھم الغالبونo (الانبیائ44)

ترجمہ:   بلکہ ہم نے اُن کو اور ان کے بڑوں کو مہلت دی حتیٰ کہ ان کی عمریں لمبی ہوگئیں۔ کیا وہ نہیں دیکھتے ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹا رہے ہیں پس کیا وہ جیتنے والے ہیں۔

(4)        افمن زین لہ سوء عملہ فراہ حسنا۔ (فاطر8)

ترجمہ:   بھلا ایک شخص جس کے لئے اس کے برے عمل خوبصورت بنا دیے گئے ہیں پس وہ انہیں اچھا سمجھتا ہے۔

(5)        ولا تحسبن اللہ غافلا عما یعمل الظالمون انما یوخرھم لیوم تشخص فیہ الابصار مھطعین مقنعی رؤوھم لا یرتد الیھم طرفیھم وافئدتھم ھوائ۔ (سورۃ ابراہیم42،43)

ترجمہ:   اور مت خیال کرو کہ اللہ ظالموں کے کاموں سے بے خبر ہے البتہ تحقیق وہ ان کو مہلت دیتا ہے اس دن کیلئے جس میں نظریں اوپر لگ جائیں گی۔ ڈرتے ہوں گے سر اٹھائے ہوئے ان کی آنکھیں نہیں پھریں گی اور اُن کے دل اُڑ رہے ہوں گے۔

            ضد اور ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں۔ قادیانیوں ،ذرا غور کرو کیا تم آیات مذکورہ کا مصداق تو نہیں اس لئے کہ درج ذیل حقائق تمہارے علم میں ہیں۔ روحانی خزائن اور دوسرے قادیانی لٹریچر میں صاف الفاظ میں لکھے ہوئے ہیں تم وہ کتابیں چھاپتے ہو پڑھتے اور سمجھتے نہیں۔ ولھم اذان یسمعون بھا ولھم اعین لا یبصرون بھا کا مصداق بن رہے ہو۔ اگر تم اندھی عقیدت اور معاشی مفادات کی پٹی آنکھوں سے اتار کر غیرجانبدار ہو کر دیکھتے تو تم راہ ہدایت پاجاتے اس لئے کہ مرزاقادیانی کا سودی رقم اور طوائف کی کمائی قبول کرنا ،غیرمحرم عورتوں سے اختلاط کرنا، ٹانک وائن پینا وغیرہ امور کوئی تہمت نہیں علماء کرام دنیا بھر کے فورم اورسٹیج پر یہ امور ثابت کرچکے ہیں۔

٭          تبلیغ کی آڑ میں برطانوی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے غیر ملکی مشن جو مرزا محمود نے شروع کئے تھے ان میں کام کروانے والے تمہارے ہی باپ دادا تھے۔

٭          تم پر زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تنگ ہوتی جا رہی ہے۔

٭          پاکستان، بنگلہ دیش، سعودی عرب، شام ، ترکی، مصر، متحدہ عرب امارات، جنوبی افریقہ ، گیمبیا وغیرہ کی عدالتیں اور دیگراعلیٰ فورمیں تمہیں غیر مسلم قرار دے چکی ہیں۔

٭          آپ کا یہ عجیب مذہب اور دین ہے جو غیر مسلم عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں پروان چڑھ سکتا ہے، اس کے بغیر نہیں حتیٰ کہ وہ طاقتیں پاکستان کو اسلحہ کی فراہمی کیلئے شرط لگاتی ہیں کہ قادیانیوں کے متعلق قوانین ختم کئے جائیں تاریخ عالم میں کسی سچے مذہب کے متعلق یہ پڑھنے کو نہیں ملتاکہ کافر اس کے سرپرست رہے ہوں۔ ایسا ممکن ہی نہیں۔ ایمان اور کفر کا یہ اتحاد آپ کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

قادیانی جماعت احمدیہ کی طرف سے عائد کردہ چندوں کی چکی میں کس طرح پس رہے ہیں اس سلسلہ میں ان چندوں کو بھگتنے والے ایک سابق قادیانی مرزا منور احمدملک کا تجزیہ پیش خدمت ہے ۔ وہ لکھتے ہیں۔’’جماعت احمدیہ میں چندوں کی بھرمار ہے ایک احمدی پراس کی ماہوار آمدن کا چھ فیصد چندہ عام لاگو ہے ا س کی ادائیگی لازمی ہے ، عدم ادائیگی پر وہ چندہ اس آدمی کے کھاتے میں بطور بقایا نام ہوجاتا ہے۔ اگر ایک احمدی چندہ دینے سے انکار کردے تو وہ احمدی نہیں رہ سکتاحالانکہ چندہ ایک اختیار ی مد ہے جس کی شرح مخصوص نہیں ہوتی۔ آدمی حسب توفیق اداکرسکتا ہے۔جبکہ ٹیکس کی شرح مخصوص ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی لازم ہوتی ہے۔ عدم ادائیگی پر بقایا نام رہ جائے ختم نہیں ہوگا۔ چندہ عام کے ساتھ چندہ جلسہ سالانہ، چندہ تحریک جدید، چندہ وقف جدید، چندہ صد سالہ جوبلی، چندہ خدام الاحمدیہ (چندہ مجلس) یہ نوجوانوں پر لاگو ہے۔ چندہ تعمیر ہال (یہ ہال1973ء کے قریب تعمیر ہوا تھا ، مگر چندے کی وصولی اب تک جاری ہے)، چندہ بوسنیا، افریقہ، چندہ ڈش انٹینا (احمدی ٹی وی نیٹ ورک کا) چندہ لجنہ اماء اللہ(یہ خواتین پر لاگو ہے) ، چندہ اطفال( یہ بچوں پر لاگو ہے)، چندہ انصار (یہ40سال سے زائد عمر کے افراد کے لوگوں پر لاگو ہے) وغیرہ۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایک احمدی کو اپنی آمدنی کا کم از کم 10 فیصد ماہوار پر چندہ دینا پڑتا ہے۔ چندوں کی وصولی کا رضاکارانہ نظام موجود ہے جس میں وصولی کرنے والے کا کوئی کمیشن نہیں۔ جماعت احمدیہ کا یہ مالی نظام شاید ہی کہیں اور ہو۔ سال میں دو تین بار مختلف چندوں کے مختلف انسپکٹرزمرکز سے آکر حساب وغیرہ چیک کرتے ہیں اور کل وصول شدہ رقم مرکز (چناب نگر) میں پہنچانا یقینی بناتے ہیں۔ اس مالی نظام کی بناء پر جماعت احمدیہ پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ بڑی منظم جماعت ہے۔ حالانکہ اس کاکام نظام نہیں۔ قواعد وضوابط اصول وغیرہ نہیں ہیں۔ صرف چندہ اکٹھا کرنے کا نظام ہے۔ اگر اس منظم طریقہ سے چندہ وصول نہ ہوتا تو آج مرزا قادیانی کے خاندان کے ہر لڑکے کے نام کئی کئی مربع اراضی نہ ہوتی اور نہ ہی عیش وعشرت کی زندگی گذار رہے ہوتے یہ سب اسی مالی نظام کی ’’نحوستیں‘‘ ہیں۔

چندہ تحریک جدید میں ہر مرد اور عورت ، جوان، بوڑھا اور بچہ شامل کیا جاتا ہے۔ جماعت اس بات پر پورا زور لگاتی ہے کہ ہر ذی روح تحریک جدید میں شامل ہو بلکہ کچھ بے روح بھی اس میں شامل ہیں۔ یعنی فوت شدہ افراد کے نام کا چندہ ان کے لواحقین سے لیا جاتا ہے۔ اب اگر اس بستی سے تحریک جدید میں شامل200 افراد ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہاں کی آبادی زیادہ سے زیادہ 200 افراد پر مشتمل ہے حالانکہ اس میں فوت شدہ افراد بھی شامل ہیں۔ (مرزا طاہر احمد کی لاکھوں، کروڑوں بیعتیں صفحہ3، 4) از مرزا منور احمد ملک

ایسا مضبوط معاشی بندوبست ، چندوں کی بھرماریہ ہر دور میں باطل کی خصوصیت رہی ہے۔ کیا کبھی قادیانیوں نے غور کیا ہے کہ دین اسلام میں تو اتنا جبر نہیں ہے۔ قادیانیوں کے ہاں اتنا جابرانہ نظام کیوں ہے؟ انہوں نے اس سو سال کے عرصہ میں کیا کھویا؟ کیا پایا؟ ولا اکرہ فی الدینکی غلط تفسیر بیان مسلمانوں کو تو گمراہ کرتے ہیں لیکن یہ نعرہ کیوں نہیںلگاتے ہیںلااکراہ فی القادیانیۃ۔

مثل مشہور ہے درخت اپنے پھل سے پہنچانا جاتا ہے، مرزاقادیانی کے صدق وکذب کو پرکھنے کے لئے اس کی آل اور اولادکو پرکھ لینا کافی ہے۔ مرزا محمود کے زخم خوردہ قادیانیوں کی ا یک کثیر تعداد آج بھی موجود ہے یقین نہ آئے تو راحت ملک اور شفیق مرزا سے پوچھ لیجئے۔ حقیقت پسند پارٹی کیوں بنی؟ مرزا ناصر نے بڑھاپے میں دوسری شادی کیوں رچائی؟ حکیم نورالدین کے بیٹوں سے کیا سلوک کیا گیا؟ رفیق باجوہ، شفیق مرزا، زیڈ اے سلہری ، حافظ بشیر احمد جیسے لوگوں نے قادیانیت کیوں چھوری؟ مرزا رفیع احمد کو کیوں اغواء کیا گیا؟ شہر سدوم اور ربوہ کا مذہبی آمر جیسی کتابیں کیوں لکھی گئیں؟ امریکہ وبرطانیہ قادیانیوں کی کیوں سرپرستی کرتے ہیں؟

یہ سلگتے ہوئے سوالات قادیانیت کی حقانیت کی قلعی کھولنے کے لئے کافی ہیں۔ صرف خدا خوفی اور انصاف شرط ہے۔