Language:

مسلمانوں کی جاسوسی

1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد مسلمانوں میں یہ بحث چھڑ گئی چونکہ مسلمانوں کی اسلامی حکومت ختم ہو گئی ہے اور ہندوستان پر انگریز قابض ہو گیا ہے، اب شرعی لحاظ سے ہندوستان کی حیثیت کیا ہے؟ دارالحرب یا دارالسلام؟ اگر دارالحرب ہے تو اب مسلمانوں پر (شرائطِ نماز جمعہ پوری نہ ہونے کی وجہ سے) نماز جمعہ فرض نہ رہا اور اگر دارالسلام ہے تو نماز جمعہ کی فرضیت بدستور قائم ہے۔ یہ بحث کچھ عرصہ چلتی رہی۔ جن لوگوں کی یہ رائے تھی کہ ہندوستان کے دارالحرب ہونے کی وجہ سے نماز جمعہ اب فرض نہیں رہی اور صرف نماز ظہر ہی پڑھنی چاہیے، انگریز کے نزدیک ایسے تمام مسلمان حکومت کے باغی تھے۔انگریز کے محکمہ جاسوسی کے لیے ایسے ’’باغی‘‘ لوگوں کی نشاندہی کے لیے یہ بہت سنہری موقع تھا کہ جنھوں نے دل سے انگریز کی غلامی کوتسلیم نہیں کیا ۔ مگر انگریز مسلمانوں میں رہ کر یہ کام انجام نہیں دے سکتے تھے۔ انگریز کو اس مشکل کا حل بھی مرزا قادیانی اور اس کی جماعت کی شکل میں مل گیا۔ ایسے’’باغیوں‘‘ کی نشاندہی کے لیے مرزا قادیانی نے یہ ڈیوٹی اپنے ذمہ لی۔ اس مقصد کے لئے مرزا قادیانی نے درج ذیل تجویز انگریزی حکومت کودی

سچا مخبر

(1)        ’’درخواست بحضور نواب گورنر جنرل و وائسرائے کشور ہند بالقابہ بمراد منظوری تعطیل جمعہ: یہ عرضداشت مسلمانان برٹش انڈیا کی طرف سے جن کے نام ذیل میں درج ہیں، بحضور جناب گورنر جنرل ہند دام اقبالہ اس غرض سے بھیجی گئی ہے کہ تاگورنمنٹ عالیہ معروضات ذیل پر توجہ فرما کر تمام برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لیے جمعہ کی تعطیل منظور فرما دے۔ وجوہات عرضداشت یہ ہیں…

یہ کہ تمام نیک دل اور پاک طبع مسلمان جو گورنمنٹ عالیہ کے سچے خیر خواہ ہیں، التزام جمعہ کی رسم کو اس محسن گورنمنٹ کی سچی خیر خواہی اور دلی وفاداری کے لیے ایک علامت ٹھہراتے ہیں۔ مگر بعض دوسرے نالائق نام کے مسلمان جن کی تعداد قلیل ہے، اس ملک برٹش انڈیا کو دارالحرب قرار دے کر اپنے خود تراشیدہ خیالات کے رُو سے جمعہ کی فرضیت سے منکر

ہیں۔ کیونکہ ان کا گمان ہے جو برٹش انڈیا دارالحرب ہے اور دارالحرب میں جمعہ فرض نہیں رہتا۔ پس کچھ شک نہیں کہ جمعہ کی تعطیل سے ایسے بد باطن کمال صفائی سے شناخت کیے جائیں گے۔ کیونکہ اگر باوجود تعطیل کے پھر بھی وہ جمعہ کی نمازوں میں حاضر نہ ہوئے تو یہ بات کھُل جائے گی کہ درحقیقت وہ نالائق اس گورنمنٹ کے ملک کو دارالحرب ہی قرار دیتے ہیں۔ تبھی تو جمعہ کی پابندی سے عمداً گریز کرتے ہیں۔ سو اس صورت میں یہ مبارک دن نہ صرف مسلمانوں کی عباداتِ خاصہ کا ایک دن ہو گا بلکہ گورنمنٹ کے لیے بھی ایک سچے مخبر کا کام دے گا اور ایک معیار کی طرح کھرے اور کھوٹے میں فرق کر کے دکھلاتا رہے گا۔ چنانچہ اس درخواست پر بھی صرف انہیں سچے خیر خواہوں کے دستخط درج ہیں جو اس ملک کو دارالحرب قرار نہیں دیتے۔ اور دلی سچائی سے گورنمنٹ کی حکومت کو قبول کر لیا ہے اور اپنے لیے سراسر برکت اور رحمت سمجھا ہے اور کچھ شک نہیں کہ جمعہ کی تعطیل سے ایسے لوگ جو غلطیوں میں پڑے ہوئے ہیں، اثر پذیر بھی ہوں گے اور گورنمنٹ کے دلی خیر خواہ بہت ترقی پذیر ہوں گے اور بد باطن تارک الجمعہ بڑی آسانی سے شناخت کیے جائیں گے۔ ۔۔۔۔۔ سو جو شخص گورنمنٹ برطانیہ کی رعیت ہو کر جمعہ کی فرضیت کا قائل ہے اور اس کا ترک کرنا معصیت سمجھتا ہے، وہ ہرگز اس ملک کو دارالحرب قرار نہیں دے گا اور سچے دل سے گورنمنٹ کا خیر خواہ ہوگا لیکن جو شخص برٹش انڈیا میں جمعہ کی فرضیت کا منکر ہے، وہ در پردہ اس ملک کو دارالحرب قرار دیتا ہے اور سچا خیر خواہ نہیں۔ سو جمعہ ان دونوں فریقوں کے پرکھنے کے لیے ایک معیار ہے۔‘‘                              

                               (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 552, 551 طبع جدید از مرزا قادیانی)

پھر سرکاری باغی اور ’’دہشت گردوں‘‘کی نشاندہی کا ’’نیک‘‘ کام سر انجام دینے کے لیے مرزا قادیانی نے باقاعدہ ایک گوشوارہ تیار کر کے ہندوستان بھر میں اپنے تمام مریدوں میں تقسیم کیا اور حکم دیا کہ وہ اس گوشوارہ میں ایسے تمام مسلمانوں کے کوائف درج کر کے قادیان بھجوائیں جو اپنے اپنے علاقوں میں نماز جمعہ کے لیے مسجد نہیں آتے تاکہ باغیوںکے یہ نام انگریز بہادر کی خدمت میں پیش کر کے وہ اس کی بارگاہ میں سرخرو ہو سکے۔ اب آپ اس اشتہار کی عبارت ملاحظہ فرمائیں جو مسلمانوں کی جاسوسی کی غرض سے مرزا قادیانی نے شائع کر کے اپنے مریدوں میں تقسیم کیا:

 

(2)        ’’قابل توجہ گورنمنٹ از طرف مہتمم کاروبار تجویز تعطیل جمعہ

میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب

چونکہ قرینِ مصلحت ہے کہ سرکار انگریزی کی خیر خواہی کے لیے ایسے نافہم مسلمانوں کے نام بھی نقشہ جات میں درج کیے جائیں جو درپردہ اپنے دلوں میں برٹش انڈیا کو دارالحرب قرار دیتے ہیں اور ایک چھپی ہوئی بغاوت کو اپنے دلوں میں رکھ کر اسی اندرونی بیماری کی وجہ سے فرضیتِ جمعہ سے منکر ہو کر اس کی تعطیل سے گریز کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ نقشہ اسی غرض کے لیے تجویز کیا گیا کہ تا اس میں اُن ناحق شناس لوگوں کے نام محفوظ رہیں کہ جو ایسے باغیانہ سرشت کے آدمی ہیں۔ اگرچہ گورنمنٹ کی خوش قسمتی سے برٹش انڈیا میں مسلمانوں میں ایسے آدمی بہت ہی تھوڑے ہیں جو ایسے مفسدانہ عقیدہ کو اپنے دل میں پوشیدہ رکھتے ہوں۔ لیکن چونکہ اس امتحان کے وقت بڑی آسانی سے ایسے لوگ معلوم ہو سکتے ہیں، جن کے نہایت مخفی ارادے گورنمنٹ کے برخلاف ہیں۔ اس لیے ہم نے اپنی محسن گورنمنٹ کی پولیٹیکل خیر خواہی کی نیت سے اس مبارک تقریب پر یہ چاہا کہ جہاں تک ممکن ہو ان شریر لوگوں کے نام ضبط کیے جائیں جو اپنے عقیدہ سے اپنی مفسدانہ حالت کو ثابت کرتے ہیں کیونکہ جمعہ کی تعطیل کی تقریر پر ان لوگوں کا شناخت کرنا ایسا آسان ہے کہ اس کی مانند ہمارے ہاتھ میں کوئی بھی ذریعہ نہیں۔ وجہ یہ کہ جو ایک ایسا شخص ہو جو اپنی نادانی اور جہالت سے برٹش انڈیا کو دارالحرب قرار دیتا ہے، وہ جمعہ کی فرضیت سے ضرور منکر ہوگا اور اسی علامت سے شناخت کیا جائے گا کہ وہ درحقیقت اس عقیدہ کا آدمی ہے۔ لیکن ہم گورنمنٹ میں باادب اطلاع کرتے ہیں کہ ایسے نقشے ایک پولیٹیکل راز کی طرح اُس وقت تک ہمارے پاس محفوظ رہیں گے جب تک گورنمنٹ ہم سے طلب کرے۔ اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہماری گورنمنٹ حکیم مزاج بھی ان نقشوں کو ایک ملکی راز کی طرح اپنے کسی دفتر میں محفوظ رکھے گی اور بالفعل یہ نقشے جن میں ایسے لوگوں کے نام مندرج ہیں گورنمنٹ میں نہیں بھیجے جائیں گے۔ صرف اطلاع دہی کے طور پر ان میں سے ایک سادہ نقشہ چھپا ہوا جس پر کوئی نام درج نہیں فقط یہی مضمون درج ہے، ہمراہِ درخواست بھیجا جاتا ہے اور ایسے لوگوں کے نام معہ پتہ و نشان یہ ہیں:‘‘

نمبر شمار                        نام معہ لقب و عہدہ             سکونت               ضلع                  کیفیت

                                                                                                              

                                        (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 555 تا 557 طبع جدید از مرزا قادیانی)

 مرزا قادیانی مسلمانوں کے خلاف انگریز کے لیے جاسوسی کا کام ’’مفت‘‘ نہیں کرتا تھا بلکہ وہ ان خدمات کے لیے بھاری معاوضہ حاصل کرتا تھا۔ اس سلسلہ میں ایک مثال مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد ایم اے اپنی کتاب ’’سیرۃ المہدی‘‘ میں لکھتا ہے:

(3)        ’’مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگروال ضلع گورداسپور نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود نے مجھے صبح کے قریب جگایا اور فرمایا کہ مجھے ایک خواب آیا ہے۔ میں نے پوچھا کیا خواب ہے؟ فرمایا: میں نے دیکھا ہے کہ میرے تخت پوش کے چاروں طرف نمک چُنا ہوا ہے۔ میں نے تعبیر پوچھی تو کتاب دیکھ کر فرمایا کہ کہیں سے بہت سا روپیہ آئے گا۔ اس کے بعد میں چار دن یہاں رہا۔ میرے سامنے ایک منی آرڈر آیا، جس میں ہزار سے زائد روپیہ تھا۔ مجھے اصل رقم یاد نہیں۔ جب مجھے خواب سنائی تو ملاوا مل اور شرن پت کو بھی بلا کر سنائی۔ جب منی آرڈر آیا تو ملاوا مل و شرن پت کو بلایا اور فرمایا کہ لو بھئی یہ منی آرڈر آیا ہے، جا کر ڈاکخانہ سے لے آئو۔ ہم نے دیکھا تو منی آرڈر بھیجنے والا کا پتہ اس پر درج نہیں تھا۔ حضرت صاحب کو بھی پتہ نہیں لگا کہ کس نے بھیجا ہے۔‘‘                      

(سیرت المہدی جلد سوم صفحہ 102,101 از مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی)

 مرزا بشیر احمد ایم اے کے مطابق اس زمانے میں ایک روپیہ کا سولہ کلو گوشت آتا تھا۔ (سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 182 ) آج کل گوشت 400 روپے فی کلو ہے۔  سولہ کلو گوشت 6 ہزار 4 سو روپے مالیت کا بنتا ہے اور 6 ہزار 4 سو کو ایک ہزار سے ضرب دی جائے تو 64 لاکھ بنتا ہے۔ اس دور میں انگریز کے علاوہ ایسا کون سخی تھا جو مرزا قادیانی کو اس کی ’’خصوصی خدمات‘‘ کے عوض 64 لاکھ روپے دے اور نام بھی پوشیدہ رکھے؟پھر مرزا قادیانی نے اپنی کتابو ں میں انگریز کورنمنٹ کے احسانات کا اقرار کثرت سے ملے گا ۔ مثلاً

 

 

انگریز کی نمک پروردہ جماعت

(4)        ’’غرض یہ ایک ایسی جماعت ہے جو سرکار انگریزی کی نمک پروردہ اور نیک نامی حاصل کردہ اور مورد مراحم گورنمنٹ ہیں۔‘‘                                                     (مجموعہ اشتہارات جلد سوم، صفحہ 20، از مرزا قادیانی)

گورنمنٹ عالیہ کے احسان

(5)        ’’میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ میں تمام مسلمانوں میں سے اوّل درجہ کا خیرخواہ گورنمنٹ انگریزی کا ہوں کیونکہ مجھے تین باتوں نے خیر خواہی میں اوّل درجہ کا بنا دیا ہے۔ (1) اول والد مرحوم کے اثر نے (2) دوم اس گورنمنٹ عالیہ کے احسانوں نے (3) تیسرے خدا تعالیٰ کے الہام نے۔‘‘

(تریاق القلوب صفحہ 363 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 491 از مرزا قادیانی)

مسلمانو جس گروہ کا بانی امت مسلمہ کی جاسوسی اور مخبریوں کاکام کرتا رہا ہو کیا اس کی امت اس مشن کو چھوڑ بیٹھی ہو گی ؟ یقینا ایسا نہیں ہے اب بھی مسلمانوں کے جن ممالک میں اس قادیانی گروہ کا وجود ہے ان مسلم ممالک کو اس گروہ کے بارے میں مناسب پالیسیاں تشکیل دینی چاہئیں ۔