Language:

غازی عبدالقیوم شہید رحمۃ اللہ علیہ

آریہ سماج حیدر آباد سندھ کے سیکرٹری نتھو رام نے ’’تاریخ اسلام‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس میں سرکار دو عالمصلی اللہ علیہ وسلمکی شان اقدس میں سخت دریدہ دہنی کا مظاہرہ کیا۔ مسلمانوں میں سخت اضطراب پیدا ہوا۔ جلسے جلوس اور شدید احتجاج کے علاوہ نتھو رام کے خلاف عدالت میں استغاثہ دائر کیا گیا۔ نتھو رام پر مقدمہ چلا۔ کتاب ضبط ہوئی اور معمولی جرمانہ کے ساتھ ایک سال کی سزا سنائی گئی۔ اس نے جوڈیشل کمشنر کی عدالت میں اپیل کی اور اس کی ضمانت منظور ہو گئی۔ مسلمانوں کو بہت صدمہ ہوا۔ ہزارہ کے ایک غریب خاندان کے فرزند عبدالقیوم نے نتھو رام کی خرافات کا ذکر سنا تو اس کی غیرت ایمانی بھڑک اٹھی۔ خدا نے ازل سے عبد القیوم کے نصیب میں غازی اور شہید کا اعزاز لکھا ہوا تھا۔

مقدمہ کی تفصیل جاننے کے لیے غازی عبدالقیوم نے پوچھا: سندھ میں اتنے مسلمان ہیں مگر اس بد زبان سے کسی نے نہیں پوچھا کہ سرور کائناتصلی اللہ علیہ وسلمکی شان اقدس میں گستاخی کرنے کی تجھے کس طرح جرأت ہوئی؟ کیا ہم اس قدر بے غیرت ہو چکے ہیں؟ پھر کیا تھا، اس شہبازِ محبت نے اپنے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پہ قربان ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ ایک تیز دھار چاقو خریدا اور اپنی رفیقۂ حیات سے کہا:

’’دعا کرو اللہ مجھے اس مردود سے عدالت ہی میں ملوائے۔ میں اسے بتا دوں گا کہ میرے رسولصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و تقدیس میں یاوہ گوئی کا فیصلہ انگریز کی عدالت سے نہیں، کسی غیرت مند مسلمان کے خنجر کی نوک ہی سے ممکن ہے۔‘‘

یہ مارچ 1934ء کی بات ہے۔ نتھو رام کی اپیل کی سماعت شروع ہوئی۔ ہندو اور مسلمان بھاری تعداد میں کارروائی سننے آئے۔ غازی عبدالقیوم شہید عدالت میں داخل ہوا تو نتھو رام پاس بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد شمع رسالتصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پروانہ اٹھا اور نتھو رام کے پیٹ میں اپنا خنجر گھونپ دیا۔ گستاخ رسولصلی اللہ علیہ وسلم کی آنتیں باہر نکل آئیں اور وہ تڑپنے لگا۔ غازی عبدالقیوم نے بڑے اطمینان سے جج کو مخاطب کر کے کہا! ’’اس خنزیر کے بچے نے میرے آقا و مولاصلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تھی اور اس کو سزا مل گئی‘‘۔ یہ کہا اور بڑے اطمینان سے اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔ پولیس نے آ کر گرفتار کیا۔

مقدمہ چلا اور مسلمان وکیلوں نے مقدمے کی مفت پیروی کی پیشکش کی تو غازی عبدالقیوم شہید نے ایک جرأت مندانہ فقرہ کہا: ’’آپ جو چاہیں کریں مگر مجھ سے انکار قتل نہ کرائیں۔ اس سے میرے جذبۂ جہاد کو ٹھیس پہنچے گی‘‘۔ یوں غازی عبدالقیوم شہید پھانسی چڑھ کر ہمیشہ کی زندگی پا گیا اور قیامت تک آنے والی نسلوں کو عشق رسولصلی اللہ علیہ وسلم کی حرارت اور تحفظ ناموس رسالتصلی اللہ علیہ وسلم کے لازوال جذبوں کی تابانیاں دے گیا۔ آج بھی فضائے عالم میں اس غازی شہید کے یہ الفاظ گونج رہے ہیں اور تاابد گونجتے رہیں گے:

’’میری زندگی کا سب سے خوشگوار دن وہ تھا جب میں نے رسولصلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ کو موت کے گھاٹ اتارا اور میں اسی جذبۂ ایمانی سے سرشار ہو کر اپنی زندگی، شہنشاہ مدینہصلی اللہ علیہ وسلمکے قدموں پر نچھاور کر رہا ہوں۔‘‘

غازی عبدالقیوم شہید جیسے غیور نوجوان امت مسلمہ کی آبرو اور تاریخ اسلام کے ماتھے کا جھومر ہیں۔   ؎

نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور

موت کیا شے ہے؟ فقط عالم معنی کا سفر

ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ

قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر

آہ اے مرد مسلماں! تجھے کیا یاد نہیں؟

حرف لا تدع مع اللّٰہ الٰھاً آخر