Language:

غازی حاجی محمد مانک رحمۃ اللہ علیہ

            عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے معروف مبلغ حضرت مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی لکھتے ہیں کہ سندھ کی ایک بستی کرونڈی میں ایک بدفطرت قادیانی مبلغ عبدالحق رہتا تھا جس کا دعویٰ تھا کہ وہ مرزا قادیانی کا جانشین نبی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کی انگوٹھی پر ’’عبدالحق نبی اللہ‘‘ نقش تھا۔ ایک دفعہ اس نے مولانا لال حسین اختر  ؒ کے ساتھ ایک مناظرے میں حضور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں نہایت بدترین توہین کی۔ لوگوں کا کلیجا چھلنی ہو گیا۔ لوگوں نے اس پر حملہ کیا تو وہ بھاگ گیا اور لوگ کف افسوس ملتے رہے۔ وہاں کے ایک رہائشی اور مرد مجاہد حاجی محمد مانک ان دنوں علاقے سے باہر تھے۔ واپس آئے تو ان کی والدہ نے روتے ہوئے کہا: ’’بیٹا میں تمھیں دودھ معاف نہ کروں گی کہ تمھارے ہوتے ہوئے ایسے لوگ موجود ہیں جو ہمارے ملجا و ماویٰ حضور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گالیاں بکتے ہیں۔‘‘ ان کے استفسار پر بوڑھی ماں نے پورا واقعہ کہہ سنایا۔ آپ حج کی تیاری میں مصروف تھے۔ یہ درد ناک حادثہ سن کر حج کا ارادہ منسوخ کر دیا۔ چنانچہ 54 سالہ شیر نے اس گستاخِ رسولصلی اللہ علیہ وسلم کا تعاقب کیا اور روزہ کی حالت میں بڑی جدوجہد کے بعد اسے پکڑا اور قتل کیا۔ پھر اس کے منہ سے اس کی ناپاک زبان نکال کر ٹکڑے ٹکڑے کی اور کہا کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرنے والوں کا حاجی مانک ہمیشہ یہی انجام کرتا رہے گا۔

؎   یہی ہے رِسم وفا اور من چلوں کا شعار

الغرض پولیس انسپکٹر نے آپ کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا۔ مصدقہ روایت ہے کہ متعلقہ پولیس افسر کی بیوی بڑی پاکباز، نیک سرشت اور عبادت گزار تھی۔ وہ نبی پاکصلی اللہ علیہ وسلم کے شہر کی ٹھنڈی ہوا کے لیے ہمیشہ تڑپا کرتی۔ ان کا تعلق پنجاب کے ایک معزز خاندان سے تھا اور یہ کہ اس خوش بخت خاتون کے والد ایک باعمل اور متقی عالم دین تھے۔ قصہ مختصر نصف شب کے قریب موصوفہ سو رہی تھیں کہ یکایک مقدر بیدار ہو گیا، خواب میں رسولِ پاک نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپ نے فرمایا کہ حوالات میں ہمارا ایک مہمان آیا ہوا ہے، اس کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھنا۔ یہ نیک سیرت خاتون اسی لمحے اٹھ بیٹھیں۔ حد نظر تک اجالا ہی اجالا تھا۔ فضائوں میں الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللہ کی وجد آفرین صدائیں گونج رہی تھیں۔ اب کہاں کی نیند اور کیسا اضطرار! انسپکٹر مذکور بغرض سحری گھر آئے تو ماحول بھینی بھینی خوشبوئوں میں رچا ہوا تھا۔ عجیب قسم کی راحت محسوس ہوئی۔ وہ کچھ نہ سمجھ سکے، جھٹ اپنی رفیقۂ حیات سے پوچھا کہ یہ ہوا، یہ رات، یہ چاندنی، کس کی ادا پر نثار ہیں۔ مہکی مہکی ہوا، بدلے ہوئے موسم کا پتا دے رہی ہے۔ ہمارے گھر میں بہار کی یہ رونقیں کیسے اور کب سے آ بسیں؟ شرم و حیا کی اس تصویر نے سجدۂ شکر سے سر اٹھایا اور اشکِ مسرت اپنے رخساروں سے پونچھتے ہوئے بولی:

’’آج ہمارے پاک نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے کرم فرمایا ہے۔ ان آنکھوں نے جب سے وہ جلوہ دیکھا، کسی اور نظارے کی حسرت نہیں رہی۔ شاہِ مدینہصلی اللہ علیہ وسلم کے یاقوتی ہونٹوں سے ایسے ترنم ریز الفاظ سنے ہیں کہ میں اپنے مقدر پر مر مٹی ہوں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت و ناموس کا کوئی محافظ آج تھانے میں پابند ہے، ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہر طرح سے ان کی مدارات کا خیال رکھیں۔‘‘

اس ایمان پرور واقعہ کے بعد پولیس کے رویہ میں نمایاں تبدیلی رونما ہو گئی۔ جب تفتیش کا مرحلہ ختم ہو چکا تو افسرانِ بالا کی ہدایت پر حاجی محمد مانکؒ کو ڈسٹرکٹ جیل خیرپور میں بھیج دیا گیا۔ یہاں ابر رحمت ایک بار پھر امڈ آیا۔ بتایا جاتا ہے کہ جیل سے ملحقہ ایک سید گھرانے کی رہائش تھی۔ غازی صاحب کے ادھر آتے ہی ایک سیدانی کو سرورِ دو عالمصلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ آپ نے فرمایا ’’بیٹی! جیل میں آج شام سے ہماری عصمت و ناموس کا ایک نگہبان محبوس ہے، لوگ اسے حاجی مانک کے نام سے جانتے ہیں، اسے کھانے وغیرہ کی تکلیف نہ ہونے دینا۔‘‘ علی الصبح گلشن زہراؓ کی اس پاکیزہ کلی نے تمام روداد اپنے بھائی سید امام علی شاہ صاحب کے گوش گزار کی۔ انھوں نے حاجی صاحب کے متعلق معلوم کروایا۔ پتہ چلا کہ وہ ایک قاتل ہے۔ اس پر پریشانی لاحق ہوئی۔ دوسرے روز پھر جمالِ اقدس کا دیدار نصیب ہوا اور تاکید فرمائی گئی کہ یہی تو ہماری عظمتوں کا پاسبان ہے۔

دورانِ اسیری ان کی طرف سے باقاعدہ کھانا پہنچتا رہا۔ نان و نفقہ کا یہ ایسا اہتمام تھا جو من و سلویٰ تناول کرنے والے کے لیے باعث رشک ہے ،اس لیے کہ خود محسن انسانیتصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مخلص غلام کی خاطر اس کا حکم فرمایا۔

پولیس کے قانونی تقاضے پورے ہو چکے تھے۔ اب حسب ضابطہ مقدمے کی سماعت شروع ہوئی۔ آپ بالآخر مقدمے سے بری ہوئے۔ رہائی کے بعد جب حضرت قبلہ غازی صاحب کی ضیافتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو سپرنٹنڈنٹ جیل اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحبان نے بالخصوص دعوت منظور کی۔ سپرنٹنڈنٹ جیل جناب منظور حسین خان پنور صاحب، جو آج کل آئی جی جیل خانہ جات سندھ ہیں، نے ہر دوراہے پر جناب غازیِ ممدوح سے نیک برتائو کیا۔ آپ کا ابتدائی تعلق حسین آباد ضلع خیرپور سے ہے۔ ایسے صاحب کردار افسر بہت کم دیکھنے میں آئے ہیں۔ جب تک الحاج موصوف بقید حیات رہے، آپ سے وقتاً فوقتاً ملتے رہنا ان کا معمول تھا۔ بعض اوقات تو سپیشل ملاقات کے لیے تشریف آوری ہوتی۔ محترم سپرنٹنڈنٹ جناب پنور صاحب بتاتے ہیں کہ ایک رات میں گشت پر تھا۔ غازی محمد مانک صاحب کی کوٹھڑی کے قریب سے میرا گزر ہوا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ماحول خوشبوئوں میں رچا ہوا ہے اور عجب قسم کی روشنی بھی دیکھی۔ قریب پہنچا تو دکھائی دیا کہ غازی صاحب قبلہ رو سر بسجدہ ہیں۔ وہ پہلا دن تھا جب میرے دل میں عقیدت پیدا ہوئی اور پھر روز بروز بڑھتی ہی چلی گئی۔اب آپ سے ملتا تو دل مطمئن ہو جایا کرتا تھا۔ ہم لوگ ہمیشہ دعائوں کی درخواست کیا کرتے۔

2 اکتوبر 1983ء بروز ہفتہ چار بجے شام کے قریب آپ کا وصال ہوا۔ غازی محمد مانک مرحومؒ نے تمام زندگی مرزائیوں کے خلاف جہاد کیا۔ ایک موقع پر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔

’’خدا کی قسم اگر تمام دنیا بھی ہماری دشمن ہو جائے تو ہم تحفظِ ناموسِ رسالتصلی اللہ علیہ وسلم کا کام کرتے رہیں گے اور اس عظیم مقصد کے لیے ہر مصیبت بخوشی جھیلیں گے۔‘‘

q          غازی محمد مانک صاحب اکثر فرمایا کرتے ’’اوائل عمری ہی سے میری سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ نبی پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت نصیب ہو۔ میں مدتوں اوراد و وظائف میں جُتا رہا۔ سات حج کیے، باقاعدگی کے ساتھ نمازیں پڑھیں مگر ہمیشہ اس عظیم شرف سے محروم رہا۔ آخر میری قسمت اس وقت جاگی، جب میں نے اپنے نوکِ قلم سے نشانِ باطل (عبدالحق قادیانی) کو کھرچ ڈالا۔ اب کوئی رات ایسی نہیں گزرتی جس میں شاہِ مدینہصلی اللہ علیہ وسلم نے ملاقات نہ فرمائی ہو۔ ہر وقت ہر روز قربت کے مزے لوٹتا ہوں۔ بس میری زندگی کے روز و شب انصلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہِ کرم سے گزر رہے ہیں۔‘‘

میرے ہزار دل ہوں تصدق حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر

میری ہزار جان ہو، قربان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم