Language:

قادیانیوں کی کلمہ طیبہ کی توہین – عدالتی کاروائی

 مسلمانوں نے کسی دور میں کسی بھی جھوٹے مدعی نبوت کو برداشت نہیں کیا۔ چنانچہ اس کے خلاف بھی تحریک کا آغاز ہوا۔ برصغیر میںپوری صدی تک اس فتنے کے خلاف تحریک چلی، جس میں ہزاروں علمائے کرام نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ہزاروں مسلمان شہید ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد قادیانیوں نے بلوچستان کو اپنا صوبہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد دوسرے قادیانی خلیفہ مرزا محمود احمد نے کہا:’’بلوچستان کی کل آبادی پانچ یا چھ لاکھ ہے۔ زیادہ آبادی کو احمدی بنانا مشکل ہے‘ لیکن تھوڑے آدمیوں کو احمدی بنانا کوئی مشکل نہیں۔ پس جماعت اس طرف اگر پوری توجہ دے تو اس صوبے کو بہت جلد احمدی بنایا جا سکتا ہے۔ اگر ہم سارے صوبے کو احمدی بنا لیں تو کم از کم ایک صوبہ تو ایسا ہو جائے گا جس کو ہم اپنا صوبہ کہہ سکیں۔پس جماعت کو اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگوں کے لیے یہ عمدہ موقع ہے‘ اس سے فائدہ اٹھائیں اور اسے ضائع نہ ہونے دیں۔ پس تبلیغ کے ذریعے بلوچستان کو اپنا صوبہ بنائیں‘ تاکہ تاریخ میں آپ کا نام رہے۔‘‘ (مرزا محمود احمد کابیان‘ اخبار الفضل‘ 12 اگست 1948ئ)

فتنہ گر خلیفہ قادیان کے حکم پر قادیانیوں نے بلوچستان میں بڑے پیمانے پر تبلیغی سرگرمیاں شروع کیں‘ لیکن غیرت اسلامی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معمور مسلمانوں نے تبلیغ کرنے پر قادیانیوں کے عزائم خاک میں ملا دئیے۔ الحمدللہ‘ بلوچستان پہلا صوبہ ہے جہاں 1973ء میں قادیانیوں کے خلاف فیصلہ کن تحریک شروع ہوئی‘ جو 1974ء کی تحریک ختم نبوت کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ قادیانیوں کو پاکستان کی منتخب قومی اسمبلی نے 1974ء میں متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔ آئین میں ترمیم کر دی گئی‘ لیکن قانون سازی نہ ہو سکی۔ مسلمانوں نے دوبارہ تحریک شروع کی۔ 1984ء میں امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس جاری کیا گیا تو مرزا طاہر کی ہدایت پر قادیانیوں نے امتناع قادیانیت آرڈیننس کی خلاف ورزی شروع کر دی۔ اپنی دکانوں‘ مکانوں اور عبادت گاہوں پر کلمہ طیبہ تحریر کرنا شروع کر دیا‘ سینوں پر کلمہ طیبہ کے بیج لگانے شروع کر دیئے اور آئین پاکستان کی دھجیاں اڑاتے ہوئے خود کو مسلمان کہنا شروع کر دیا۔ لیکن‘ انہیں کیا خبر کہ مسلمان ہمیشہ اپنے آقا و مولا حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر مرمٹنے اور اس کی خاطر دنیا کی ہر چیز قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں جنہوں نے فرنگی دور میں کالے قانون کی پروا کیے بغیر گستاخان رسولؐ کو کیفر کردار تک پہنچایا اور خود مسکراتے ہوئے تختہ دار پر چڑھ گئے‘ وہ کلمہ طیبہ کی توہین کس طرح برداشت کر سکتے ہیں؟

بلوچستان میںمشرق وسطیٰ کا قبائلی نظام ہے‘ جس کے اعلیٰ اقدار ہیں۔ قبائلی معاشرہ میں دِیندار ماحول ہے۔ اس پر امن صوبے میں قادیانیوں نے مسلمانوں کی دینی حمیت کو للکارا اور کلمہ طیبہ کے بیج لگائے۔ سب سے پہلے ایک قادیانی حیات کو لیاقت بازار میں کلمہ طیبہ کا بیج لگائے ہوئے دیکھ کر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ایک پر عزم کا رکن حاجی محمد رفیق بھٹی مرحوم نے مجلس کے مبلغ اور مجاہد ختم نبوت مولانا نذیر احمد تونسوی کو اطلاع دی۔ انہوں نے حیات قادیانی کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔ سٹی تھانہ کے ایس۔ایچ۔ او چودھری محمد شریف نے مقدمہ درج کرکے ملزم کو گرفتار کیاجس کی سب انسپکٹر نذیر احمد نے تفتیش کی۔ مولانا نذیر احمد تونسوی نے دو اور قادیانیوں ظہیر الدین اور عبدالرحمن کو بھی پکڑ کر پولیس کے حوالہ کیا۔ دینی حمیت سے سرشار پولیس افسران انسپکٹر حاجی راجہ ارشاد احمد‘ انسپکٹر شاہنواز وٹو‘ سب انسپکٹر عبدالعزیز اور سید رفیع اللہ شاہ نے مقدمہ کی احسن طریقے سے پیروی کرکے حق ادا کر دیا۔ ظہیر الدین، رفیع احمد، عبدالمجید، عبدالرحمان اور چودھری حیات نامی قادیانیوں کے خلاف مختلف ایف – آئی-آر درج کی گئیں جن میں ایک ہی طرح کے الزامات ہیں کہ انہوں نے قادیانی ہونے کے باوجود ’’کلمہ طیبہ‘‘ کے بیج لگائے۔ چنانچہ ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر I اور سٹی مجسٹریٹ کوئٹہ جناب رحیم شاہ عبداللہ زئی صاحب کی عدالتوں میں ان کے چالان پیش کیے گئے اور مقدمات کی سماعت ہوئی۔مذکورہ قادیانی سائلان نے واقعی کلمہ طیبہ کے بیج لگائے ہوئے تھے اور سماعت مقدمہ کے دوران اس امر واقعہ سے کسی نے بھی انکار نہیں کیا۔ بعد ازاں ان کا جرم ثابت ہونے پر ضابطہ فوجداری کی ج ۔ 298 کے تحت فرداً فرداً ہر سائل کو ایک سال قید بامشقت کے علاوہ ایک ہزار روپے فی کس جرمانہ کی سزا سنائی گئی‘ جس کی عدم ادائیگی کی صورت میں مزید ایک ماہ قید بامشقت دی جانی تھی۔ان سائلان نے متعلقہ حکم کے خلاف سیشن کورٹ میں اپیل کردی۔ اپیل کنندگان کی سماعت کے بعد فاضل ایڈیشنل سیشن جج I کوئٹہ نے ان اپیلوں کو مورخہ 16 جون 1987ء کو خارج کردیا۔

ان فیصلوں کے خلاف قادیانیوں نے کوئٹہ ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کیںجن کی جسٹس امیرالملک مینگل صاحب کی عدالت میں سماعت ہوئی۔قادیانیوں کے طرف سے مسٹر مجیب الرحمان ایڈوکیٹ پیش ہوئے اورمددگار وکلا میںمبارک احمد‘ سید علی احمد طارق، خالد ملک‘ احسان الحق اور مرزا عبدالرشید شامل تھے۔ مجیب الرحمان ایڈوکیٹ نے بہت سے ایسے قانونی سوالات اٹھائے جو عوامی اہمیت کے حامل تھے‘ جس پر عدالت نے مسٹر محمد مقیم انصاری اور مسٹر بشارت اللہ ایڈووکیٹ صاحبان کو بطور صدیق العدالت مقرر کیا۔علاوہ ازیں مسٹر چودھری محمد اعجاز یوسف ایڈووکیٹ  نے بطور سرکاری وکیل بحث میں حصہ لیا۔مدلل بحث کے بعد جسٹس امیرالملک مینگل صاحب نے  پانچوں درخواستوں کوخارج کردیا۔دیکھے(پی ایل ڈی 1988 ۔کوئٹہ22)۔

فاضل جج صاحب نے اپنے فیصلے مورخہ 22دسمبر 1987 میں لکھا کہ ’’ مندرجہ بالا بحث سے میں نے یہ نتیجہ نکالا اور قرار دیا ہے کہ دفعہ ب 298- تعزیرات پاکستان اور دفعہ ج 298- تعزیرات پاکستان دو آزاد دفعات ہیں جو الگ الگ جرائم کا تعین کرتی ہیں۔ دفعہ ب 298- کا ابتدائً یہ منشا تھا کہ مقدس ہستیوں‘ ناموں ‘ القابوں اور مقامات وغیرہ کو بے جا استعمال ہونے سے محفوظ رکھا جائے۔ لیکن دفعہ ج 298- کسی قادیانی کو اس کے طریقہ کار اور عام طرز عمل کے لیے اس صورت میں سزا دہی کا مستوجب قرار دیتی ہے‘ جب وہ بلاواسطہ یا بالواسطہ اپنے آپ کو مسلم ظاہر کرتا ہے‘ یا اپنے عقیدے کو اسلام کہتا یا اس کا حوالہ دیتا ہے‘ یا اپنے عقیدے کی تبلیغ یا نشر و اشاعت کرتا ہے‘ یا کسی نظر آنے والی قائم مقامی کے ذریعے  یا کسی بھی اور طریقے سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکاتا ہے۔ اس طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دفعہ ج 298- تعزیرات پاکستان کے الفاظ میں مجلس قانون ساز کا منشا دریافت کرنے کے لیے کوئی ابہام موجود نہیںہے۔ ‘‘

جسٹس امیرالملک مینگل صاحب نے کوئٹہ کے پر ہجوم بازاروں میں چلتے پھرتے وقت کلمہ طیبہ کے بیج لگانے کے بارے میں اپنے فیصلے میں لکھا’’ خواہ کچھ بھی ہو‘ موجودہ مقدمے میں تو یہ دیکھا جانا ہے کہ ان قادیانیوں کی نیت کیا تھی جب وہ کلمہ طیبہ کا بیج لگا کر گلیوں کے ہجوم میں گھومتے پھرے؟ اس کی صریح وجہ یہی نظر آتی ہے کہ مذکورہ سائلان لوگوں سے یہ منوانے کا ارادہ رکھتے تھے کہ وہ مسلم ہیں۔ یہی بات ان کی طرف سے مجرمانہ نیت یا مجرم ضمیر (mens rea) کا اظہار کرتی ہے۔ لہذا اس مقدمے کے تسلیم کردہ واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے‘ اس موضوع پر بحث نہیں کی جا سکتی کہ سائلان کا یہ فعل کسی مجرمانہ ارادے یا مجرم ضمیر کے بغیر تھا کیونکہ سائلان اس بات کی کوئی دلیل بیان کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ انہوںنے شہر کے پر ہجوم بازاروں میں چلتے پھرتے وقت کلمہ طیبہ کے بیج کس وجہ سے لگا رکھے تھے‘ سوائے اس کے کہ وہ مسلم ہونے کا بہانہ کرتے تھے یا دوسروں سے خود کو مسلم منوانا چاہتے تھے۔‘‘

مولانا نذیر احمد تونسوی نے مقدمات میں وکلاء کی شاندار معاونت کی۔ دینی غیرت و حمیت کے پیش نظر بڑی تعداد میں وکلاء صاحبان نے مقدموں کی پیروی کی۔ اس کا اصل کریڈٹ وکیل ختم نبوت چودھری اعجاز یوسف‘ زاہد مقیم انصاری‘ وکیلِ سرکار جناب جاوید غزنوی صاحب‘ اسپیکر بلوچستان اسمبلی ملک سکندر خان ایڈووکیٹ‘ مجاہد ختم نبوت حاجی خورشید اقبال‘ محسن جاوید راہی‘ چودھری اصغر علی گجر‘ شوکت حسین سرور‘ جاویدمیر‘ اورنگ زیب‘ جناب مرزا حسن نے بھی پیروی کی۔ عدالت عالیہ کی معاونت سینئر ایڈووکیٹ جناب محمد مقیم انصاری اور جناب بشارت اللہ نے کی۔ اللہ تعالیٰ ان تمام وکلاء اور ان کے معاونین کو جزائے خیر عطا فرمائے۔مجلس کے نائب امیر حاجی سید شاہ محمد آغا نے  خصوصی توجہ اور محنت سے ان مقدمات کی نگرانی کرتے رہے۔ مزید برآں ممتاز علماء کرام‘ امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت مولانا محمد منیر الدین استاذ العلماء مولانا عبدالغفور‘ سینیٹر حافظ حسین احمد‘ جامع مسجد مرکزی کے خطیب مولانا انوار الحق حقانی‘ جامع مسجد قندہاری کے خطیب مولانا عبدالواحد‘ حاجی محمد زمان خان اچکزئی‘ مجاہد ختم نبوت مولانا عبدالحق حقانی مرحوم‘ مجلس کے سیکرٹری حاجی تاج محمد فیروز‘ جمعیت کے رہنماء مولانا نور محمد‘ مولانا حافظ حسین احمد شردوی‘ جامع مسجد انگل روڈ کے خطیب مولانا آغا محمدحافظ محمد انور مدوخیل‘ حاجی سید سیف اللہ‘ آغا حاجی عبدالحنان بڑیچ‘ جامع مسجد کباڑی کے خطیب مولانا عبدالرزاق‘ چودھری محمدطفیل احرار‘ کونسلر سردار صفدر زمان‘ حاجی نعمت اللہ خان‘ جناب محمدنعیم ترین‘ راجہ امجد علی‘ جناب محمد عارف بھٹی‘ مجاہد ختم نبوت مولانا عبدالباقی‘ حاجی عبداللہ خان مینگل‘ راحت ملک ککے زئی‘ حاجی عبدالمتین‘ حاجی ملک مقصود عالم‘ سید انور شاہ ملک‘ سعید حسن‘ قاری عبدالرحمان‘ مولانا عبدالرحیم رحیمی‘ مولانا عبداللہ میز‘ حاجی محمد نسیم‘ حاجی فضل قادر شیرانی‘ مولانا قاضی غلام رسول‘ ماسٹر گل رحمان توحیدی‘ قاری محمد شریف‘ قاری غلام یٰسین‘ صوفی غلام رسول‘ مولانا صوفی محمد عالم‘ محمد اسحاق پرکانی‘ حاجی محمد عظیم بڑیچ‘ حاجی خان محمد اور سینکڑوں مسلمان ہر پیشی پر حاضر ہوتے رہے‘ جن میں سے بہت سے نام یاد نہیں آرہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کا حامی و ناصر ہو‘ آمین۔ مقامی صحافیوں‘ جنگ کے ایڈیٹر مجید اصغر‘ روزنامہ مشرق کے ایڈیٹر مقبول رانا‘ مشرق کے چیف رپورٹر رائو محمد اقبال‘ میزان کے ایڈیٹر جمیل الرحمان‘ ممتاز صحافی ممتاز ترین‘ جسارت کے رپورٹر کاظم مینگل‘ نوائے وقت کے بزرگ صحافی عبدالعزیز بھٹی‘ مقامی صحافی ایوب ترین اور فیاض حسن سجاد سینئر سٹاف رپورٹر روزنامہ ’’جنگ‘‘ کوئٹہ نے پیشہ ورانہ فرائض میں اپنی حمیت کا ثبوت دیا۔ اللہ تعالیٰ ان کا حامی و ناصرہو۔