Language:

مرزا کادیانی کی چند شرمناک تحریریں

قادیانی جماعت کا بانی آنجہانی مرزا قادیانی جس طرح ظاہری طور پر بد صورت تھا، اسی طرح باطنی طور پر بھی بد سیرت تھا۔ قادیانی امت اسے ”سلطان القلم” کہتی نہیں تھکتی۔ اس پنجابی نبی کی تحریرات کو ملاحظہ کیا جائے تو جا بجا بد کلامی و بد گوئی کی نجاست و غلاظت بکھری ہوئی نظر آئے گی۔ ذیل میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر سے نمونہ کے طور پر ”سلطان القلم” کی تحریروں کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں، و گرنہ مرزا قادیانی کی ساری کتابیں ایسی ہی تحریروں سے بھری ہوئی ہیں۔ ان فحش، مخرب اخلاق ، حیا سوز، گندی اور بازاری تحریروں سے بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کیا یہ کسی شریف انسان کی تحریریں ہو سکتی ہیں اور ہے کوئی قادیانی جو اپنے ”نبی ” کی ان تحریروں کو اپنی جوان اولاد کے سامنے بآواز بلند پڑھ سکے۔
نیوگ، روز کی مشق
(1) ”واضح ہو کہ آریہ سماج کے اصولوں میں سے نہایت قبیح اور قابلِ شرم نیوگ کا مسئلہ ہے، جس کو پنڈت دیانند صاحب نے بڑی جرأت کے ساتھ اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں درج کیا ہے اور وید کی قابل فخر تعلیم اس کو ٹھہرایا ہے۔ اور اگر وہ اس مسئلہ کو صرف بیوہ عورتوں تک محدود رکھتے، تب بھی ہمیں کچھ غرض نہیں تھی کہ ہم اس میں کلام کرتے مگر انھوں نے تو اس اصول، انسانی فطرت کے دشمن کو، انتہا تک پہنچا دیا، اور حیا اور شرم کے جامہ سے بالکل علیحدہ ہو کر یہ بھی لکھ دیا کہ ایک عورت جو خاوند زندہ رکھتی ہے اور وہ کسی بدنی عارضہ کی وجہ سے اولاد نرینہ پیدا نہیں کر سکتا۔ مثلاً لڑکیاں ہی پیدا ہوتی ہیں، یا بباعث رقتِ منی کے اولاد ہی نہیں ہوتی، یا وہ شخص گو جماع پر قادر ہے، مگر بانجھ عورتوں کی طرح ہے، یا کسی اور سبب سے اولاد نرینہ ہونے میں توقف ہو گئی ہے، تو ان تمام صورتوں میں اس کو چاہیے کہ اپنی عورت کو کسی دوسرے سے ہم بستر کراوے۔ اور اس طرح پر وہ غیر کے نطفہ سے گیارہ بچے حاصل کر سکتا ہے گویا قریباً بیس برس تک اس کی عورت دوسرے سے ہم بستر ہوتی رہے گی۔ جیسا کہ ہم نے مفصل کتاب کے حوالہ سے یہ تمام ذکر اپنے رسالہ آریہ دھرم میں کر دیا ہے اور حیا مانع ہے کہ ہم اس جگہ وہ تمام تفصیلیں لکھیں۔ غرض اسی عمل کا نام نیوگ ہے۔
اب ظاہر ہے کہ یہ اصول انسانی پاکیزگی کی بیخ کنی کرتا ہے اور اولاد پر ناجائز ولادت کا داغ لگاتا ہے۔ اور انسانی فطرت اس بے حیائی کو کسی طرح قبول نہیں کر سکتی کہ ایک انسان کی ایک عورت منکوحہ ہو، جس کے بیاہنے کے لیے وہ گیا تھا اور والدین نے صدہا یا ہزارہا روپیہ خرچ کر کے اس کی شادی کی تھی جو اس کے ننگ و ناموس کی جگہ تھی، اور اس کی عزت و آبرو کا مدار تھا۔ وہ باوجودیکہ اس کی بیوی ہے اور وہ خود زندہ موجود ہے۔ اس کے سامنے رات کو دوسرے سے ہم بستر ہووے اور غیر انسان اس کے ہوتے ہوئے اسی کے مکان میں اس کی بیوی سے منہ کالا کرے۔ اور وہ آوازیں سنے اور خوش ہو کہ اچھا کر رہا ہے، اور یہ تمام ناجائز حرکات اس کی آنکھوں کے سامنے ہوں اور اس کو کچھ بھی جوش نہ آوے۔ اب بتلائو کہ کیا ایسا شخص جس کی منکوحہ اور سہروں کے ساتھ بیاہی ہوئی اس کی آنکھوں کے سامنے دوسرے کے ساتھ خراب ہو۔ کیا اس کی انسانی غیرت اس بیحیائی کو قبول کرے گی……
مجھے ٹھیک ٹھیک معلوم نہیں کہ نیوگ میں یعنی اپنی بیوی کو دوسرے سے ہم بستر کروا کر صرف گیارہ بچوں تک لینے کا حکم ہے یا زیادہ۔ مدت ہوئی کہ میں نے ستیارتھ پرکاش میں پڑھا تو تھا مگر حافظہ اچھا نہیں، یاد نہیں رہا۔ آریہ صاحبان خود مطلع فرمائیں۔ کیونکہ بوجہ روز کی مشق کرانے کے ان کو خوب یاد ہوگا۔ (حاشیہ)
(نسیم دعوت صفحہ 78 تا 80 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 438 تا 440 بمعہ حاشیہ از مرزا قادیانی)
قادیانی کوک شاستر
(2) ”ایک معزز آریہ کے گھر میں اولاد نہیں ہوتی، دوسری شادی کر نہیں سکتا کہ وید کی رُو سے حرام ہے ، آخر نیوگ کی ٹھہرتی ہے ، یار دوست مشورہ دیتے ہیں کہ لالہ صاحب نیوگ کرائیے، اولاد بہت ہو جائے گی۔ ایک بول اٹھتا ہے کہ مہر سنگھ جو اسی محلہ میں رہتا ہے ، اس کام کے بہت لائق ہے۔ لالہ بہاری لال نے اس سے نیوگ کرایا تھا، لڑکا پیدا ہو گیا۔ یہ لالہ لڑکا پیدا ہونے کا نام سن کر باغ باغ ہو گیا۔ بولا مہاراج آپ ہی نے سب کام کرنے ہیں، میں تو مہر سنگھ کا واقف بھی نہیں۔مہاراج شریر النفس بولے کہ ہاں ہم سمجھا دیں گے ، رات کو آجائے گا۔ مہر سنگھ کو خبر دی گئی ، وہ محلہ میں ایک مشہور قمار باز، اول نمبر کا بدمعاش اور حرام کار تھا۔ سنتے ہی بہت خوش ہو گیا اور انہیں کاموں کو وہ چاہتا تھا پھر اس سے زیادہ اس کو کیا چاہیے تھا۔ ایک نوجوان عورت اور پھر خوبصورت، شام ہوتے ہی آموجود ہوا۔ لالہ صاحب نے پہلے ہی دلالہ عورتوں کی طرح ایک کوٹھری میں نرم بستر بچھوا رکھا تھا اور کچھ دودھ اور حلوا بھی دو برتنوں میں سرہانے کی طاق میں رکھوا دیا تھا تا اگر بیرج داتا کو ضعف ہو تو کھاپی لیں۔ پھر کیا تھا آتے ہی بیرج داتا نے لالہ دیوث کے نام و ناموس کا شیشہ توڑ دیا اور وہ بد بخت عورت تمام رات اس سے منہ کالا کراتی رہی اور اس پلید نے جو شہوت کا مارا تھا، نہایت قابل شرم اس عورت سے حرکتیں کیں اور لالہ باہر کے دالان میں سوئے اور تمام رات اپنے کانوں سے بے حیائی کی باتیں سنتے رہے بلکہ تختوں کی دراڑوں سے مشاہدہ بھی کرتے رہے۔ صبح وہ خبیث اچھی طرح لالہ کی ناک کاٹ کوٹھری سے باہر نکلا۔ لالہ تو منتظر ہی تھے، دیکھ کر اس کی طر ف دوڑے اور بڑے ادب سے اس پلید بد معاش کر کہا سردار صاحب رات کیا کیفیت گذری؟ اس نے مسکرا کر مبارک باد دی اور اشاروں میں جتا دیا کہ حمل ٹھہر گیا۔ لالہ دیوث سن کر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ مجھے تو اسی دن سے آپ پر یقین ہو گیا تھا جبکہ میں نے بہاری لالہ کے گھر کی کیفیت سنی تھی اور پھر کہا وید حقیقت میں ودیا سے بھرا ہوا ہے۔ کیا عمدہ تدبیر لکھی ہے جو خطا نہ گئی۔ مہر سنگھ نے کہا کہ ہاں لالہ صاحب، سب سچ ہے کیا وید کی آگیا کبھی خطا بھی ہو جاتی ہے میں تو انہی باتوں کے خیال سے وید کو ست ودیائوں کا پستک مانتا ہوں۔اور دراصل مہرسنگھ ایک شہوت پر ست آدمی تھا۔ اس کو کسی وید شاستر اور شرتی شلوک کی پروانہ تھی اور نہ ان پر کچھ اعتقاد رکھتا تھا۔ اس نے صرف لالہ دیوث کی حماقت کی باتیں سن کر اس کے خوش کرنے کے لیے ہاں میں ہاں ملا دی۔ مگر اپنے دل میں بہت ہنسا کہ اس دیوث کی پُتر لینے کے لیے کہاں تک نوبت پہنچ گئی۔ پھر اس کے بعد مہر سنگھ تو رخصت ہوا اور لالہ گھر کی طرف خوش خوش آیا اور اسے یقین تھا کہ اس کی استری رام دئی بہت ہی خوشی کی حالت میں ہو گی کیونکہ مراد پوری ہوئی۔ لیکن اس نے اپنے گمان کے برخلاف اپنی عورت کر روتے پایا اور اس کو دیکھ کر تو وہ بہت ہی روئی، یہاں تک کہ چیخیں نکل گئیں، اور ہچکی آنی شروع ہوئی۔ لالہ نے حیران سا ہو کر عورت کو کہا کہ ”ہے بھاگوان آج تو خوشی کا دن ہے کہ دل کی مرادیں پوری ہوئیں اور بیج ٹھہر گیا پھر تو روتی کیوں ہے ؟ وہ بولی میں کیوں نہ روئوں، تو نے سارے کنبے میں میری مٹی پلید کی اور اپنی ناک کاٹ ڈالی اور ساتھ ہی میری بھی۔ اس سے بہتر تھا کہ میں پہلے ہی مر جاتی۔ لالہ دیوث بولا کہ یہ سب کچھ ہو امگر اب بچہ ہونے کی بھی کس قدر خوشی ہو گی، وہ خوشیاں بھی تو تُو ہی کرے گی مگر رام دئی شاید کوئی نیک اصل کی تھی۔ اس نے ترت جواب دیا کہ حرام کے بچہ پر کوئی حرام کا ہی ہو تو خوشی منائے۔ لالہ تیز ہو کر بولا کہ ہے ہے کیا کہہ دیا۔ یہ تو وید آگیا ہے۔ عورت کو یہ بات سن کر آگ لگ گئی، بولی میں نہیں سمجھ سکتی کہ یہ کیسا وید ہے جو بد کاری سکھلاتا اورزنا کاری کی تعلیم دیتا ہے۔ یوں تو دنیا کے مذاہب ہزاروں باتوں میں اختلاف رکھتے ہیں مگر یہ کبھی نہیں سنا کہ کسی مذہب نے وید کے سوا یہ تعلیم بھی دی ہو کہ اپنی پاک دامن عورتوں کو دوسروں سے ہم بستر کرائو۔ آخر مذہب پاکیزگی سکھلانے کے لیے ہوتا ہے نہ بد کاری اور حرام کاری میں ترقی دینے کے لیے۔ جب رام دئی سب باتیں کہہ چکی تو لالہ نے کہا کہ چپ رہو، اب جو ہوا سو ہوا۔ ایسا نہ ہو کہ شریک سنیں اور میرا ناک کاٹیں۔ رام دئی نے کہا کہ اے بے حیا کیا ابھی تک تیرا ناک تیرے منہ پر باقی ہے۔ ساری رات میرے شریک نے جو تیرا ہمسایہ اور تیرا پکا دشمن ہے ، تیری سہروں کی بیاہتا اور عزت کے خاندان والی سے تیرے ہی بستر پر چڑھ کر تیرے ہی گھر میں خرابی کی اور ہر ایک ناپاک حرکت کے وقت جتا بھی دیا کہ میں نے خوب بدلا لیا۔ سو کیا اس بے غیرتی کے بعد تو جیتا ہے۔ کاش تو اس سے پہلے ہی مرا ہوتا۔ اب وہ شریک اور پھر دشمن باتیں بنانے اور ٹھٹھا کرنے سے کب باز رہے گا بلکہ وہ تو کہہ گیا ہے کہ میں اس فتح عظیم کو چھپا نہیں سکتا کہ جو آج وساوامل کے مقابل پر مجھے حاصل ہوئی۔ میں ضرور رام دائی کا سارا نقشہ محلہ کے لوگوں پر ظاہر کروں گا، سو یاد رکھ کہ وہ ہر ایک مجلس میں تیرا ناک کاٹے گا اور ہر ایک لڑائی میں یہ قصہ تجھے جتائے گا اور اس سے کچھ تعجب نہیں کہ وہ دعویٰ کر دے کہ رام دئی میری ہی عورت ہے کیونکہ وہ اشارہ سے یہ بھی کہہ گیا ہے کہ آئندہ بھی میں تجھے کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ لالہ دیوث نے کہا کہ نکاح کا دعویٰ ثابت ہونا تو مشکل ہے البتہ یارانہ کا اظہار کرے تو کرے تا ہماری اور بھی رسوائی ہو، بہتر تو یہ ہے کہ ہم دیش ہی چھوڑ دیں۔ بیٹا ہونے کا خیال تھا، وہ تو ایشر نے دے ہی دیا۔ بیٹے کانام سن کر عورت زہر خندہ ہنسی اور کہا کہ تجھے کس طرح اور کیونکر یقین ہو ا کہ ضرور بیٹا ہو گا، اول تو پیٹ ہونے میں ہی شک ہے اور پھر اگر ہو بھی تو اس بات پر کوئی دلیل نہیں کہ لڑکا ہی ہوگا، کیا بیٹا ہونا کسی کے اختیار میں رکھا ہے۔ کیا ممکن نہیں کہ حمل ہی خطا جائے یا لڑکی پیدا ہو۔ لالہ دیوث بولے کہ اگر حمل خطا گیا تو میں کھڑک سنگھ کو جو اسی محلہ میں رہتاہے ، نیوگ کے لیے بلا لائوں گا۔ عورت نہایت غصہ سے بولی کہ اگر کھڑک سنگھ بھی کچھ نہ کر سکا تو پھر کیا کرے گا؟ لالہ بولا کہ تو جانتی ہے کہ نرائن سنگھ بھی ان دونوں سے کم نہیں، اس کو بلا لائوں گا۔پھر اگر ضرورت پڑی تو جیمل سنگھ، لہنا سنگھ، بوڑ سنگھ، جیون سنگھ، صوباسنگھ، خزان سنگھ، ارجن سنگھ، رام سنگھ، کشن سنگھ، دیال سنگھ سب اس محلہ میں رہتے ہیں اور زور اور قوت میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں، میرے کہنے پر سب حاضر ہو سکتے ہیں۔ عورت بولی کہ میں اس سے بہتر تجھے صلاح دیتی ہوں کہ مجھے بازار میں ہی بٹھا دے، تب دس بیس کیا ہزاروں لاکھوں آ سکتے ہیں، منہ کالا جو ہونا تھا، وہ تو ہو چکا مگر یاد رکھ کہ بیٹا ہونا پھر بھی اپنے بس میں نہیں اور اگر ہوا بھی تو تجھے اس سے کیا جس کا وہ نطفہ ہے آخر وہ اسی کا ہوگا اور اسی کی خوبو، لائے گا کیونکہ درحقیقت وہ اسی کا بیٹا ہے، اس کے بعد رام دئی نے کچھ سوچ کر پھر رونا شروع کیا اور دور دور تک آواز گئی اور آواز سن کر ایک پنڈت نہال چند نام دوڑا آیا اور آتے ہی کہا کہ لالہ سکھ تو ہے، یہ کیسی رونے کی آواز آئی۔ لالہ ناک کٹا چاہتا تو نہیں تھا کہ نہال چند کے آگے قصہ بیان کرے مگر اس خوف سے کہ رام دئی اس وقت غصہ میں ہے، اگر میں بیان نہ کروں تو وہ ضرور بیان کر دے گی۔ کچھ کھسیانا سا ہو کر زبان دبا کر کہنے گا کہ مہاراج آپ جانتے ہیں کہ وید میں وقت ضرورت نیوگ کے لیے آ گیا ہے۔ سو میں نے بہت دنوں سوچ کر رات کو نیوگ کرایا تھا، مجھ سے یہ غلطی ہوئی کہ میں نے نیوگ کے لیے مہر سنگھ کو بلا لیا، پیچھے معلوم ہوا کہ وہ میرے دشمن کرم سنگھ کا بیٹا اور نہایت شریر آدمی ہے، وہ مجھے اور میری استری کو ضرور خراب کرے گا اور وہ وعدہ کر گیا ہے کہ میں یہ ساری کیفیت خوب شائع کروں گا۔ نہال چند بولا کہ درحقیقت بڑی غلطی ہوئی اور پھر بولا کہ وساوامل تیری سمجھ پر نہایت ہی افسوس ہے۔ کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ نیوگ کے لیے پہلا حق برہمنوں کا ہے اور غالباً یہ بھی تجھ پر پوشیدہ نہیں ہوگا کہ اس محلہ کی تمام کھترانی عورتیں مجھ سے ہی نیوگ کراتی ہیں اور میں دن رات اسی سیوا میں لگا ہوا ہوں پھر اگر تجھے نیوگ کی ضرورت تھی تو مجھے بلا لیا ہوتا۔ سب کام سدھ ہو جاتا اور کوئی بات نہ نکلتی۔ اس محلہ میں اب تک تین ہزار کے قریب ہندو عورتوں نے نیوگ کرایا ہے مگر کیا کبھی تم نے اس کا ذکر بھی سنا، یہ پردہ کی باتیں ہیں، سب کچھ ہوتا ہے پھر ذکر نہیں کیا جاتا لیکن مہر سنگھ تو ایسا نہیں کرے گا۔ ذرہ دو چار گھنٹوں تک دیکھنا کہ سارے شہر میں رام دئی کے نیوگ کا شور و غوغا ہوگا۔ لالہ دیوث بولا کہ درحقیقت مجھ سے سخت غلطی ہوئی۔ اب کیا کروں۔ اس وقت شریر پنڈت نے جو بباعث نہ ہونے رسم پردہ کے رام دئی کو دیکھ چکا تھا کہ جوان اور خوش شکل ہے ، نہایت بے حیائی کا جوا ب دیا کہ اگر اسی وقت رام دئی مجھ سے نیوگ کرے تو میں ذمہ دار ہوتا ہوں کہ مہر سنگھ کے فتنہ کو میں سنبھال لوں گا اور پہلا حمل ایک شکی بات ہے۔ اب بہر حال یقینی ہوجائے گا۔ تب وساوامل دیوث تو اس بات پر بھی راضی ہو گیا مگر رام دئی نے سن کر سخت گالیاں اس کو نکالیں۔ تب وسا وامل نے پنڈت کو کہا کہ مہاراج اس کا یہی حال ہے، ہر گز نیوگ کرنا نہیں چاہتی۔ پہلے بھی مشکل سے کرایا تھا جس کو یاد کرکے اب تک رو رہی ہے کہ میرا منہ کالا کیا۔ اسی سے تو اس نے چیخیں ماری تھی جن کو آپ سن کر دوڑے آئے۔ تب وہ شہوت پر ست پنڈت وساوامل کی یہ بات سن کر رام دئی کی طرف متوجہ ہوا اورکہا نہیں بھاگو ان نیوگ کو برا نہیں ماننا چاہیے۔ یہ وید آگیا ہے مسلمان بھی تو عورتوں کو طلاق دیتے ہیں اور وہ عورتیں کسی دوسرے سے نکاح کر لیتی ہیں۔ سو جیسے طلاق جیسے نیوگ۔ بات ایک ہی ہے۔”

(آریہ دھرم صفحہ 31تا 34 روحانی خزائن جلد 10صفحہ 31تا 34از مرزا قادیانی)

پر میشر کی جگہ
(3) ”پر میشر ناف سے دس انگلی نیچے ہے (سمجھنے والے سمجھ لیں)۔”            (چشمہ معرفت صفحہ 106 مندرجہ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 114 از مرزا قادیانی)
پرمیشر ہندوئوں کے خدا کو کہتے ہیں۔ مرزا قادیانی نے ہندوئوں کے خدا کو اپنی ناف سے دس انگل نیچے قرار دے کر انہیں بہت بڑی گالی دی۔جس کے نتیجے میں ہندئوںنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ کتابیں شائع کیں ۔
ایسی گندی تحریریں لکھنے والا کوئی بدقماش ، بد ذات ،بد کرادر ،گندی ذہنیت کامالک تو ہو سکتا ہے کوئی شریف آدمی نہیں ہو سکتا ۔مگر قادیانی ٹولہ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی مرزا قادیانی کواللہ کا برگزیدہ نبی کہتا ہے اور اس کونہ ماننے والوں کو کافر کہتا ہے۔اور ظلم یہ کہ ہم مسلمان انہیں یہ سب کچھ کرنے کی اجازت دیے بیٹھے ہیں۔