Language:

دوزخ سے مرزا کادیانی کا خط مرزا طاہر کے نام

پیارے مرزا طاہر!

نمستے! کافی دنوں سے تمہیں خط لکھنے کی کوشش کررہا تھا لیکن اس شدت کا عذاب ہے کہ میری پور پور جل رہی ہے اور ہڈی ہڈی چٹخ رہی ہے۔ آج دوزخ میں الٹا لٹکایا گیا ہوں اور اسی حالت میں تمہیں یہ خط تحریر کررہا ہوں۔

پچھلے مہینے ایک قادیانی لندن سے دوزخ میں آیا۔ اس کے ذریعے معلوم ہوا کہ تم نے میری بکواسیات پر مشتمل ساری کتابوں کو اکٹھا کر کے ’’روحانی خزائن‘‘ کے نام سے لندن سے شائع کیا ہے۔ طبیعت بڑی خوش ہوئی کہ تم دجل و فریب میں مجھ سے بھی چار ہاتھ آگے ہو۔ کفروارتداد پر مبنی کتابوں کو اکٹھا کر کے تم نے انہیں کیا خوب نام دیا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کسی شراب خانے کے باہر مسجد کا بورڈ لگادیا جائے۔ میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ جہنم آتے ہوئے میرے کسی امتی کے ہاتھوں مجھے ایک سیٹ ضرور بھیج دینا۔

اسی لندنی قادیانی کے ذریعے مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تم پاکستان سے بھاگ کر لندن آگئے ہو اور تم نے ربوہ سے اپنا مرکز لندن منتقل کردیا ہے۔ یہاں تم نے اربوں روپوں کی زمین خرید کر’’اسلام آباد‘‘ کے نام سے ایک نئی بستی آباد کی ہے اور اس میں تمہاری رہائش گاہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ پیارے! تم مقدروں کے بڑے دھنی ہو۔ ایک ہم بختوں کے مارے تھے کہ قادیان میں خاک پھانکتے تھے۔ گرمیوں میں گھر سے باہر قدم رکھتے تو جھلس جاتے اور سارے جسم پر گرمی دانے نکل آتے۔ سردی پڑتی تو ٹھٹھرے ہوئے سانپ کی طرح کمرے میں پڑے رہتے۔ برسات ہوتی تو مینڈک بن جاتے۔ گرد آلود ہوائوں کے جھکڑ چلتے تو بھوت بن جاتے۔ صبح سیر کے لئے جاتے تو راستے میں اتنی گرد اڑتی کہ واپسی یوں معلوم ہوتا کہ جیسے گرد میں نہا کے آئے ہیں اور تمہاری دادی کپڑے دھونے سے انکار کردیتی۔ رات کو کہیں جانا پڑتاتو کتے کاٹتے۔ ایک تم ہو کہ جسے دنیا کی ہر آسائش میسر ہے۔ دولت تمہاری ہر ضرورت تمہارے گھر کی دہلیز پر پہنچا دیتی ہے۔ موسم کی چیرہ دستیاں تم پر کوئی اثر نہیں کرسکتیں۔ تمہاری کوٹھی ایئر کنڈیشنڈ، تمہارا بیت الخلاء ایئر کنڈیشنڈ، تمہاری کار ایئر کنڈیشنڈ، تمہارا آفس ایئر کنڈیشنڈ اور ایک ہم ہیں کہ جہنم کی آگ میں ’’ایئر کنڈیشنڈ‘‘۔ لیکن کوئی بات نہیں بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی، آنا تو تم نے بھی ہمارے پاس ہے!

مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تم نے ایک ٹیلی ویژن چینل خریدا ہے اور ڈش انٹینا کے ذریعے اپنے ارتدادی پروگرام کو پوری دنیا میں خوب چلا رہے ہو۔ تم نے ساری قادیانی عبادت گاہوں میں ڈش انٹینا لگا دیے ہیں۔ جب تمہاری تقریر ہوتی ہے تو قادیانی مبلغ سادہ لوح لوگوں کو گھیر کر عبادت گاہوں میں لے جاتے ہیں اور ٹیلی ویژن پر تمہارے منہ سے نکلے ہوئے زہر کو لوگوں کے کانوں کے ذریعے ان کے قلب میں اتارتے ہیں۔ بھئی کمال تدبیر نکالی ہے تم نے ارتدادی تبلیغ کی۔ میری طرف سے ڈش انٹینا مہم پر بہت بہت شاباش۔

کل شیطان میرے پاس آیا تھا۔ وہ بہت خوش تھا اور زور زور سے قہقہے لگا رہا تھا کہ تمہارے پوتے نے میری بہت مشکلیں حل کردی ہیں۔ پہلے مجھے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے ملک ملک کے سفر پر جانا پڑتا تھا اور مسلسل سفر سے تھک کے نڈھال ہوجاتا تھا۔ تمہارے پوتے نے ڈش انٹینا کے ذریعے یہ کام سنبھال کر میری ڈیوٹی سہل کردی ہے کیا خوب پوتا ہے تمہارا؟ تم تو نرے ’’پھتو‘‘ تھے اور ہاں میں نے یہ بھی سنا ہے کہ تم ’’وائس آف اسلام‘‘ کے نام پر ایک ریڈیو سٹیشن بھی شروع کررہے ہو۔ بھئی بڑے استرے ہو تم! اسلام کو اسلام کے نام پر ہی لوٹ رہے ہو۔ لندن میں ارتدادی بستی بسائی تو اس کا نام اسلام آباد، ارتدادی ریڈیو سٹیشن قائم کررہے ہو تو اس کا نام بھی ’’وائس آف اسلام‘‘! میری طرف سے ریڈیو سٹیشن قائم کرنے کے منصوبے پر بھی تھپکی وصول کرو! جب ’’وائس اف اسلام‘‘شروع کرو تم کسی ماہر موسیقار سے منفرد سی دھن بنوا کر کسی مشہور گلوکار سے کہنا کہ وہ میری کتاب ’’آریہ دھرم‘‘ کے صفحہ 76-77 پر درج ذیل میرے یہ بول بہترین انداز میں گائے۔

چپکے چپکے حرام کروانا

آریوں کا اصول بھاری ہے

نام اولاد کے حصول کاہے

ساری شہوت کی بے قراری ہے

بیٹا بیٹا پکارتی ہے غلط

یار کی اس کو آہ و زاری ہے

دس سے کروا چکی ہے زنا لیکن

پاک دامن ابھی بے چاری ہے

زن بیگانہ پہ یہ شیدا ہیں

جس کو دیکھو وہی شکاری ہے

پیارے ! تم نے خود تو اتنی ترقی کر لی کہ ہوا کی لہروں کے ذریعے اپنی تبلیغ کررہے ہو۔ تم اپنے تو ہر عیب پر اس خوبصورتی سے پردہ ڈالتے ہو کہ وہ خوبی بن جاتا ہے لیکن میری آج بھی چھپنے والی تصویروں میں مجھے کانا دکھایا جارہا ہے۔ میری ایک آنکھ چھوٹی اور دوسری بڑی دکھائی جارہی ہے۔ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ فوراً کسی ماہر مصور سے میری دونوں آنکھیں برابر کرائو اور پھر میری چار رنگی تصویر چھاپ کر پوری دنیا میں تقسیم کرو تاکہ ہمیں بھی پتہ چلے کہ ہمارا ’’خلیفہ‘‘ کسی سائنسی دور میں رہ رہا ہے۔

تمہاری بیوی آصفہ بیگم عرف آچھی مرنے کے فوراً بعد میرے پاس جہنم میں پہنچ چکی ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ تم شراب بہت پیتے ہو۔ تمہار ی بلانوشی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ تم شراب نہیں پیتے بلکہ شراب تمہیں پیتی ہے۔ اس شغل میں کمی کرو ورنہ تمہارے گردے ناکارہ ہوجائیں گے اور تم بھی میری طرح دن میں سو سو مرتبہ پیشاب کرتے پھرو گے۔ میری اس نصیحت کو ہمیشہ یاد رکھنا کہ شراب ہمیشہ ولایتی پینا، کبھی بھول کر بھی دیسی شراب عرف کتے مار کے قریب نہ جانا۔  میں خود ہمیشہ ای پلومر کی ولایتی شراب پیتا تھا۔ کبھی کبھی جب تمہاری دادی کی شاہ خرچیوں سے ہاتھ بہت تنگ ہوتا تو قادیان کی بنی ہوئی کتے مار پی لیتا تو وہ نشہ چڑھتا کہ میں گھوم گھوم جاتا۔ میری کتابوں میں یعنی ’’روحانی خزائن‘‘ میں جتنی بھی گالیاں ہیں وہ کتے مار کی ’’برکت‘‘ ہیں۔

جہنم میں آنے والے میرے امتی مجھ سے بہت لڑتے ہیں۔ چیختے چلاتے ہیں کہ ہم تو پیسے دے کر بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے تھے۔ ادھر تم خود جہنم میں بیٹھے ہو اور ہرآنے والے قادیانی کا استقبال کررہے ہو۔ میں انہیں اپنی شکل دکھاتے ہوئے کہتا ہوں کہ کیا نبی اس شکل کے ہوتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا ہے کہ تو امام زماں تھا۔ میں کہتا ہوں نہیں میں آلام زماں تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا تھا کہ تو مسیح تھا۔ میں کہتا نہیں میں قبیح تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سناکہ تو ظلی تھا۔ میں کہتا ہوں نہیں میں بھیگی بلی تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا تھا کہ تو بروزی تھا۔ میں کہتا ہوں نہیں میں موذی تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا تھاکہ تو نبی تھا۔ میں کہتا ہوں نہیں میں غبی تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ہم نے سنا تھا کہ تو رسول تھا۔ میں کہتا ہوں نہیں میں فضول تھا۔ وہ مجھے گالیاں بکنے لگتے ہیں اور جواباً میں بھی انہیں گالیاں بکنے لگتا ہوں اور اس زور کا مشاعرہ گرم ہوتا ہے کہ فرشتے گرز مار مار کر ہمیں خاموش کراتے ہیں۔

ملکہ وکٹوریہ یہاں’’ملکہ دوزخ‘‘ ہے۔ جنرل گریسی کی ایسی درگت بنتی ہے کہ اس کے چہرے کی گریس (Grace) دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ انگریز گورنر سرفرانس موڈی جس نے تمہیں پاکستان میں ربوہ بسانے کے لئے 1033 ایکڑ سات کنال آٹھ مرلے زمین دی تھی۔ اسے جہنم میں اتنی ہی زمین مفت دے دی گئی ہے۔ یہاں پر سرفرانس موڈی کی شکل پنجاب کے دیہاتوں میں بیٹھنے کے لئے استعمال ہونے والے ’’موڑے‘‘ کی طرح ہے۔

امریکی الیکشن میں بش ہارگیا اور کلنٹن جیت گیا۔ کیا خوب شخص تھا بش کہ عربوں کی کمر توڑ کے رکھ گیا۔ بھائی کو بھائی کا خون پلا گیا۔ تیل کے چشموں کو آگ لگوا کر عربوں کی معیشت کو جلا گیا۔ تیل اگلتی سرزمین پر اپنی فوجوں کے پہرے بٹھا گیا اور عربوں کے مابین نفرت کی ایسی سنگین دیوار چن گیا کہ ایک لمبی مدت تک وہ دیوار گرتی نظر نہیں آتی۔ سنا ہے کہ امریکہ نے سعودی عرب اور کویت میں جواپنی فوجیں اتاری تھیں، ان میں کچھ فوجی ہماری جماعت کے بھی تھے۔

مجھے معلوم ہوا ہے کہ کلنٹن سے تمہاری ملاقات ہوچکی ہے اور پرانے معاہدوں کی توثیق بھی ہوچکی ہے۔ کلنٹن بھی بش کی طرح’’سمجھ دار‘‘ آدمی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تم دونوں کی خوب گزرے گی۔ پیارے! امریکہ کو ہمیشہ باپ سمجھ کر عزت کرنا۔ اس کے سامنے کبھی اف نہ کرنا بلکہ ہمیشہ دم ہلانا۔ کیونکہ امریکہ ہی وہ آکسیجن ہے جس کے سہارے ہماری جماعت زندہ ہے۔ یہاں ایک بات کا شدید رنج ہوا کہ ہمارا جگری یار سٹیفن سولارز امریکی سینٹ کا الیکشن ہار گیا۔ ہمارا زبردست حامی ومددگار تھا۔ ہماری حمایت میں اس کی تقریریں اوراخباری بیانات ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اسے مسلمانوں سے اتنی ہی نفرت تھی جتنی کسی بڑے سے بڑے یہودی کو ہو سکتی ہے۔ امریکہ میں مقیم مسلمانوں نے بڑی جدوجہد سے اسے ہرایا ہے۔ کوئی بات نہیں وہ سینٹ کے اندر ہو یا باہر اس کی آواز میں ایک طاقت تو ہے۔

اسرائیل سے تو تمہارے تعلقات دیوار چین سے بھی زیادہ مضبوط ہیں اور اس کے بارے میں، میں تمہیں تلقین کرنا وقت کا ضیاع سمجھتا ہوں۔ مجھے اس بات کی از حد خوشی ہوئی کہ کشمیری حریت پسندوں کو کچلنے کے لئے اسرائیل سے جو کمانڈوز بھارت کی مدد کے لیے سری نگر آئے ان کمانڈوز میں ہماری جماعت کے نوجوان بھی تھے۔ بیٹا! یہود اور ہنود کے ہم پر ان گنت احسانات ہیں اور ہمیں اس طرح اپنے محسنوں کے احسانات کا بدلہ چکاتے رہنا چاہیے۔ ویسے بھی آپس کی خوشی، غمی میں شامل ہونے سے تعلقات مزید مضبوط ہوتے ہیں۔ بیٹا! تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر ہمارا ہی پیدا کردہ ہے۔تقسیم ہندوستان کے وقت اگر حد بندی کمیشن کے سامنے ہماری جماعت قادیان کے لیے اپنا الگ مطالبہ پیش نہ کرتی تو ضلع گورداسپور پاکستان میں شامل ہوجاتا اور کشمیر پاکستان کے پاس چلا جاتااور پاکستان دفاعی اور معاشی اعتبار سے ایک مضبوط ملک بن جاتا۔ کشمیر کی آزادی ہماری بے عزتی اور توہین ہے۔ کشمیر کے مسئلہ پر ہمیشہ بھارت کے شانہ بشانہ کھڑے رہنا۔ کیونکہ بھارت مضبوط ہے، تو ہم بھی مضبوط ہیں!

بیٹا! روس ٹوٹا اور اس کی ریاستیں آزاد ہوئیں لیکن تم کسی بھی ریاست پر قبضہ نہ کرسکے۔ بڑے افسوس کی بات ہے لیکن مجھے یہ خبریں ملتی رہیں کہ تم نے اس مقصد کے لئے کوششیں تو بہت کیں اور اب بھی بڑے ہاتھ پائوں مار رہے ہو۔ میں تو جہنم میں بھی یہ خبر سنتے کے لیے بیتاب رہتا ہوں کہ دنیا میں کہیں ہماری بھی ریاست بن گئی ہے۔

کل ہی جہنم میں تازہ تازہ آئے ایک اہم قادیانی نے مجھے بتایا کہ پاکستان میں صدر غلام اسحاق خاں نے پھر قومی اسمبلی توڑ دی ہے۔ لیکن مجھے اس بات کی خبر مل گئی تھی کہ اسمبلی ٹوٹنے سے دو تین دن پہلے میرا پوتا ایم ایم احمد، صدر غلام اسحاق سے ملا تھا اور اس سے ایک لمبی رازدانہ میٹنگ ہوئی اور اس نے تمہارا پیغام بھی غلام اسحاق کو پہنچایا اور اس ملاقات کے دو تین بعد قومی اسمبلی ٹوٹ گئی۔ مجھے اس بات سے از حد خوشی ہوئی کہ پاکستان کے حکمرانوں سے تمہارے کتنے گہرے تعلقات ہیں اور پاکستان کی ریاست میں تم کس اہمیت کے حامل ہو۔ میں تمہاری طاقت دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ اگر تم انگلینڈ میں بیٹھ کر ڈوریاں ہلائو تو یہاں کے حکمران بھی ہلنے لگتے ہیں۔ بھئی ہلیں کیوں نہ، سب کا ملجا و ماویٰ تو امریکہ ہے اور تم امریکہ کے بغل بچے! جو امریکہ کا غلام ہے وہ تمہارا بھی غلام ہے۔ بہت وقت بیت گیا۔ اچھااب ختم کرتا ہوں۔

یہاں میرے پاس تمہارے ابا، اماں، دادی، نانا، نانی، چچا، چچیاں، ماموں، ممانیاں، سرظفراللہ، شیزان والا شاہنواز وغیرہ ہم جہنم میں ’’ٹھیک ٹھاک‘‘ ہیں۔ ابوجہل، ابولہب، ولید بن مغیرہ، عبداللہ بن ابی، امیہ بن خلف، نمردو، شداد، فرعون، ہامان، اسود، عنسی، مسیلمہ کذاب، ابن سبا، شمر، حکیم نورالدین، مرزابشیرالدین، مرزا ناصر وغیرہ ہم تمہیں بہت بہت پیار کہہ رہے ہیں۔

                                                                                                                        فقط

                                                                                                                        تمہارا دادامرزا قادیانی

                                                                                                                        حال مقیم’’ھاویہ‘‘