Language:

قادیانییت ایک استعماری تحریک – سینیٹر راجہ ظفر ا لحق

قادیانیت بلاشبہ ایک سیاسی تحریک ہے جس نے مذہب کا لبارہ اوڑھ رکھا ہے۔ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے ابتداء میں خود استعمار نے کئی ایسی تحریکوں کی بنیاد رکھی ان کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں پروان بھی چڑھایا اگر اس تناظر میں ان تحریکوں خصوصاً قادیانیت کا مطالعہ کیا جائے تو نہ صرف اس کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے بلکہ اس کے دور رس سیاسی اثرات کا بھی اندازہ ہو سکتا ہے۔ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی کل آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی  ہے۔ اتنی بڑی تعداد اور اس کے سیاسی اثرات کا جائزہ ایک طویل عرصے سے مغربی ممالک میں لیاجاتا رہا ہے اور ایسے لٹریچر کی کوئی کمی نہیں جو مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کو جو کہیں اکثریت اور حکومت میں ہیں اور کہیں اقلیت میں کے اتحاد اور ایک ایسی قوت بننے سے روکنے کیلئے کئی طرح کی تجاویز دیتا رہا بلکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ خود مسلمانوں کے اندر سے ایسی تنظیموں کا پیداکرنا بھی ضروری سمجھا گیا جو دام ہم رنگ زمین کا کام دے سکیں۔ ایک طویل عرصے تک قادیانیت کو مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ سمجھا جاتا رہا اور ان کے خلاف آواز اٹھانے والے کو فرقہ واریت کا لقب دیاجاتا رہا۔ خود جب حضرت علامہ اقبال نے اپنا معرکعہ الاراء مقالہ اسلام اور احمدیت انگریزی میں تحریر فرمایا جس کے پائے کا تجزیہ آج تک سامنے نہیں آیا تو پنڈت جواہر لعل نہرو نے حضرت علامہ رحمۃ اللہ علیہ کو یہ طعنہ دیا کہ عالمی سطح کے تسلیم شدہ ایک عظیم فلسفی کو یہ زیب نہیں دیتا تھا کہ وہ فرقہ واریت کی سطح پر اتر آئے۔ تو حضرت علامہ نے اس کے جواب میں ایک ایسی بات کہی جو میرے خیال میں ان کے مقالے سے بھی زیادہ مئوثر اور سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ حضرت علامہ نے فرمایا کہ اگر پنڈت جواہر لعل نہرو کو یہ علم ہوتا کہ اسلام کی ساری عمارت کی بنیاد اسی عقدیہ ختم نبوت پر ہے تو وہ مجھ پر اعتراض نہ کرتا۔ اسلام اس لئے کامل دین ہے کہ قرآن میں اضافہ ناممکن ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآؒلہ وسلم اسی لئے آخری نبی اور رسول ہیں کہ آئندہ کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اسے وحی یاالہام کا اعزاز حاصل ہے۔ جس پر ایمان لانا لازمی ہو۔

اسی عقیدے کی تصدیق سورۃ البقرۃکی ابتدائی آیات میں اس طرح ہوتی ہے۔

’’یومنون بما انزل علیک و ما انزل من قبلک‘‘

جس کا تذکرہ مرحوم و مغفور مفتی محمود صاحب نے قومی اسمبلی کے1974ء کے اس اجلاس میں کیا تھا جس میں قادیانی جماعت کا سربراہ بھی موجود تھا اور ارکان نے دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد وہ تاریخی آئینی ترمیم منظور کی تھی جس کے نتیجے میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا اور مذہبی طور پر دائرہ اسلام سے خارج ہونے کی حقیقت کو آئین کا حصہ بنایا گیا اور جس کی تکمیل 1984ء میں ایک آرڈینس کے ذریعے سے صدر جنرل ضیاء الحق مرحوم نے کی جس کے نتیجے میں قادیانیوں کا مرکز پاکستان سے منتقل ہوا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ قادیانیت کی تحریک کو اس کے اصلی خدوخال کے ساتھ پیش کیا جائے تو نہ صرف اس کی مزید ترویج رک سکتی ہے بلکہ وہ لوگ جو اس تحریک کے بارے میں اپنی کم علمی یا کم فہمی یا دنیاوی لالچ کی بناء پر اس کے ساتھ منسلک ہو گئے ہیں وہ بھی اس سے تائب ہو سکتے ہیں۔ اس کیلئے ایک مسلسل ذہنی اور علمی کو شش کی ضرورت ہے جس کی بنیاد صرف وقتی رد عمل پر نہ ہو۔

                                                                                        سینیٹر راجہ محمد ظفر الحق

                                                                                               اسلام آباد