Language:

چودھری ظفر اللہ کادیانی کے چند واقعات

  1. چودھری ظفر اللہ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ خسیس ہونے کی حد تک کنجوس تھا۔ اس کی خساست کے بہت سے دلچسپ واقعات ان کے نہایت قریبی عزیزوں اور دوستوں نے بیان کیے ہیں۔ جن میں سے نمونے کے طور پر چند ایک قارئین کے لیے پیش خدمت ہیں۔

    -1         پرنسس عابدہ سلطان آف بھوپال اقوام متحدہ امریکہ میں چودھری صاحب کی رہائش گاہ کا احوال یوں بیان کرتی ہیں ’’چوتھی منزل کے اوپر ایک بہت ہی چھوٹا سا کمرہ تھا۔ اس میں ایک ٹوٹا پھوٹا سا پلنگ پڑا تھا اور دوسری عام ضروریات بھی اچھی طرح مہیا نہ تھیں۔ میں یہ حالت دیکھ کر سمجھی کہ غالباً یہاں چوکیدار رہتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ بھئی یہ کس کا کمرہ ہے تو معلوم ہوا کہ یہاں پاکستان کے وزیر خارجہ رہتے ہیں… مجھے تو بہت برا لگا۔ میں نے کہا کہ یہ کیا ہے؟ ان کو اتنا الائونس ملتا ہے، اتنی تنخواہ ملتی ہے، ان کے سارے اخراجات گورنمنٹ ادا کرتی ہے( یہ تمام پیسے آخر کہاںخرچ ہو تے رہے ؟از مئولف ) اور یہ ایسی پھٹیچر جگہ پڑے ہوئے ہیں اور یہ بات ہماری بدنامی کا باعث ہے کہ ہمارا وزیر خارجہ اس طرح پڑا ہوا ہے… چونکہ میرے اور ان کے بہت بے تکلفی کے اور برسوں پرانے تعلقات تھے۔ چنانچہ پہلی فرصت میں، میں نے ان سے بہت جھگڑا کیا۔ میں نے کہا ظفر اللہ صاحب آپ کو کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ آپ اس طرح پڑے ہوئے ہیں۔‘‘ (قادیانی ماہنامہ ’’خالد‘‘ دسمبر 85ء)

    -2         چودھری صاحب کے بھتیجے ادریس نصراللہ بیان کرتے ہیں ’’ایک دفعہ ایک عزیز نے پوچھا آپ کے پاس رومال ہے، فرمایا ہاں ہے اور اپنا رومال دے دیا۔ اس نے سارے رومال سے اپنے دونوں ہاتھ پونچھ لیے۔ نہایت شفقت سے فرمایا آپ کو دراصل تولیہ کی ضرورت تھی۔ رومال تو ہنگامی ضرورت کے لیے ہے۔ پھر فرمانے لگے ’’میں رومال کی مختلف تہیں کر کے ایک تہہ عموماً ایک ہفتہ استعمال کرتا ہوں اور پھر دوسری اور پھر تیسری اور اس طرح ایک دھویا ہوا رومال قریباً دو ماہ کفایت کرتا ہے۔ میرے پاس دو رومال ہیں اور جس دوست نے یہ رومال تحفتاً دیے تھے، ان کی وفات کو 27 سال ہو چکے ہیں۔‘‘ اسی طرح ایک دفعہ فرمایا ’’میں اپنے رومال، بنیان، جراب اور قمیض وغیرہ ہالینڈ میں خود دھوتا ہوں۔‘‘ (یہ ان کی ناکام اور پریشان کن ازدواجی اور گھریلو زندگی کے انتشار کا خمیازہ بھی تھا) جبکہ اس وقت ان کی ماہوار آمدن تقریباً 60 ہزار روپے سے زائد تھی۔ (ایضاً، ص 130)

    -3         فرمایا کہ ’’میری والدہ فرمایا کرتی تھیں کہ جب تم کوئی قمیض پہننی ترک کر دیتے ہو تو پھر وہ کسی کام کی نہیں رہتی۔‘‘ (ایضاً، ص 169)

    -4         ایک دفعہ گلے کا بٹن کپڑے پہنتے ہوئے گر گیا۔ برادرم مکرم حمید صاحب اسے ڈھونڈنے لگے تو فرمایا ’’تم رہنے دو میں خود ڈھونڈتا ہوں۔ تم ابھی کہہ دو گے کہ نہیں ملتا، اور لا دیتا ہوں اور میرے پاس یہ بٹن 45 سال سے ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 130)

    -5         ایک دفعہ فرمانے لگے کہ ’’ہالینڈ میں صبح کے ناشتے کے لیے وہ انڈہ استعمال کرتا ہوں جس میں دو زردیاں ہوتی ہیں۔ ایک زردی میں ایک دن کھاتا ہوں اور دوسری اگلے روز۔‘‘ (ایضاً، ص 153)

    -6         ’’آپ اپنی ذات پر بالکل نہ ہونے کے برابر خرچ کرتے تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ آپ ایک دفعہ موسم سرما کے شروع میں لندن سے لاہور تشریف لانے والے تھے۔ مجھے محترمہ امت الحئی بیگم صاحبہ نے فرمایا کہ ابا تشریف لا رہے ہیں اور ان کا کوٹ بہت بوسیدہ ہو چکا ہے۔ اسے بھجوا رہی ہوں۔ اسے مرمت کروا دیں۔ کوٹ کا نہ صرف استر پھٹ چلا تھا بلکہ بیرونی کپڑے میں بھی جگہ جگہ سوراخ ہو چکے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ نئے کپڑے کے چند نمونے بھجوا رہا ہوں۔ آپ پسند کر لیں۔ میں ابا حضور کی آمد سے پہلے درزی سے نیا کوٹ سلوا دوں گا۔ بیگم صاحبہ نے فرمایا رشید! یہ ناممکن ہے۔ ابا ہرگز نیاکوٹ نہیں پہنیں گے۔ بلکہ ہم پر شدید ناراض ہوں گے اور ایسا ہی واقعہ آپ کے ایک جوتے کی مرمت کا بھی ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 148)

    -7         عبدالکریم صاحب آف لندن بیان کرتے ہیں ’’حضرت چودھری صاحب نے ایک دفعہ ان کی بڑی بیٹی عزیزہ صادقہ کو اپنی ایک قمیص بھجوائی کہ اس کا کالر پھٹ چکا ہے، اسے الٹ دیں۔ جب کئی دن گزر گئے اور قمیص درست ہو کر نہ آئی تو حضرت چودھری صاحب نے فرمایا کہ قمیص ابھی تک درست ہو کر واپس کیوں نہیں آئی۔ اس پر عزیزہ نے جواب دیا کہ اس قمیص کا کالر تو پہلے ہی الٹایا جا چکا ہے۔ اب اسے مزید الٹانے کی گنجائش نہیں۔‘‘ (ص 72)

    -8         محترم مولانا شمس صاحب نے پوچھا، کیا بات ہے چائے میں کیا دیر ہے؟ جواب دیا دودھ پھٹ گیا ہے۔ چودھری صاحب نے فرمایا کہاں ہے لے آئو۔ جواب ملا پھینک دیا ہے۔ چودھری صاحب نے فرمایا… پھٹے ہوئے دودھ اور دہی میں کیا فرق ہے۔ مگر انسان ایک کو ضائع کر دیتا ہے۔ دوسرے کو شوق سے کھاتا ہے۔ پھر ایک واقعہ سنایا کہ میں چند دن کے لیے لندن سے باہر گیا ہوا تھا۔ اس دوران میرے میزبان ڈاکٹر آسکر برونلر کو باہر جانا پڑا۔ وہ جانے سے پہلے گھر میں موجود اشیائے خوردنی کی ایک فہرست میز پر رکھ گئے۔ میں واپس آیا تو دیکھا کہ دہی پر اُلی لگی ہوئی ہے۔ میں نے وہ ہٹا کر دہی کھا لی۔ جو دوست چائے پلا رہے تھے، انھوں نے بڑی حیرت سے کہا چودھری صاحب آپ نے اُلی (پھپھوندی) لگا ہوا دہی کھا لیا۔ محترم چودھری صاحب نے بڑے پیار سے جواب دیا، ہاں کھا لیا۔ (ص 73)

    شریعت سادگی سکھاتی ہے لیکن کنجوسی سے پناہ مانگنے کی تعلیم ہے ۔سرظفر اللہ نے لاکھوں کروڑوں کمائے مگر خود اچھا کھانا اور اچھا پہننا تک نصیب نہ ہوا اور یہ دولت کبھی کسی غریب قادیانی کی مصیبت دور کرنے کے کام نہ آئی بلکہ ساری دولت جائداد مرزا قادیانی کے خاندان (رائل فیملی) کے لیے وقف ہو گئی۔ نیز اپنی آل اولاد پسماندگان کے نام بھی کچھ نہ کیا۔