Language:

ایک مظلوم بیٹی کی دردناک داستان

یہ صرف ثوبیہ کی ہی کہانی نہیں بلکہ آپ کو اس معاشرہ میں ثوبیہ ایسی بے شمار مظلوم لڑکیاں اس سے ملتی جلتی المناک کہانیاں سناتی نظر آئیں گی۔ یہ بیچاریاں آئے دن قادیانیوں کے ہم رنگ زمیں دام میں پھنس کر ان کے اذیت ناک مظالم کا نشانہ بن رہی ہیں۔ دھوکہ دہی ایک ایسا قبیح جرم ہے جو دنیا کے تمام مذاہب میں ممنوع اور قابل نفریں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دھوکہ باز کو ہر مہذب معاشرے میں ناپسندیدہ نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں فتنہ قادیانیت، دھوکہ دہی کا دوسرا نام ہے۔ قادیانیوں کا مقصد حیات ہی اسلام کے نام پر بھولے بھالے لوگوں کو دھوکہ دے کر ان کے ایمان کی شمع کو گل کرنا اور انھیں مرتد کر کے اپنے حلقہ میں شامل کرنا ہے۔ اس مذموم مقصد کو حاصل کرنے کے لیے قادیانی کئی ذرائع اختیار کرتے ہیں جن میں سرفہرست مسلمان لڑکیوں سے شادی کرنے کے بعد انھیں بلیک میل کر کے قادیانی بنانا ہے۔ بعض بدقسمت لڑکیاں قادیانیوں کے اس سنہری جال میں پھنس کر ارتداد اختیار کر لیتی ہیں جبکہ بعض خوش نصیب لڑکیاں ہر قسم کے لالچ اور تحریص و ترغیب کو ٹھکرا کر اپنے متاعِ ایمان کو بچا لیتی ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کے اس اقدام سے انھیں مستقبل میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ثوبیہ ایسی ہی خوش نصیب مگر مظلوم مسلمان لڑکیوں میں سے ایک ہے۔ آئیے ثوبیہ کی کہانی خود ثوبیہ کی اپنی زبانی سنتے ہیں۔

’’میرا نام ثوبیہ عمر ہے۔ اس وقت میری عمر 27 سال ہے۔ میں اس وقت اپنے والدین کے ہمراہ گلشن راوی لاہور (پاکستان) میں مقیم ہوں۔ میں نے 2001ء میں مقامی کالج سے بی۔ اے کیا۔ یہاں میری چند لڑکیوں سے دوستی ہو گئی۔ ان میں سے ایک لڑکی حمیرا کے ساتھ چند ہی دنوں میں میری بے تکلفی ہو گئی اور آہستہ آہستہ یہ بے تکلفی گہری دوستی میں بدل گئی۔ اس نے ہمارے گھر آنا جانا شروع کر دیا۔ ٹیلی فون بھی باقاعدگی سے ہونے لگے۔ عید اور دیگر تہواروں پر تحائف کا تبادلہ ہوتا اور اکٹھے کھانا کھایا جاتا۔ چند سالوں بعد حمیرا نے اچانک اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’ہم آپ کو اپنی بھابھی بنانا چاہتے ہیں۔‘‘ میں نے جواباً اسے کہا کہ میں اپنے والدین کی مرضی اور خواہش کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ اس سلسلہ میں آپ میرے والدین سے رابطہ کریں۔ چند دنوں بعد حمیراکے والدین ہمارے گھر آ گئے اور اپنے بیٹے عمران احمد کے لیے میرے والدین سے میرا رشتہ مانگا۔ میرے والدین نہایت شریف النفس اور سادہ مزاج ہیں۔ بالخصوص دنیاداری کے معاملات سے تو وہ قطعی نابلد ہیں۔ میرے والدین نے اس خاندان کے گزشتہ ایک سال کے معاملات اور رویوں کے پیش نظر ان پر اندھا دھند اعتماد کرتے ہوئے چھان بین اور مشورہ کے بغیر ہاں کر دی۔ اس طرح 22 فروری 2003ء کو میری شادی عمران احمد سے ہو گئی۔ قیمتی جہیز کے علاوہ شادی اس دھوم دھام سے ہوئی کہ خود سسرال والوں کے رشتے دار حیران رہ گئے۔

شادی کے چند ماہ بعد جب میں امید سے تھی تو عمران مجھے اپنے رشتے داروں سے ملوانے کے لیے ربوہ (موجودہ چناب نگر) لے گئے۔ جہاں سسرالی خواتین نے مجھ سے کئی ایک جارحانہ سوالات کیے چونکہ میرا کوئی مطالعہ نہ تھا، اس لیے میں ان کے تلبیسی سوالات کے جوابات نہ دے سکی اور خاموش رہی۔ اسے میری لاعلمی سمجھئے یا نالائقی، میں پھر بھی ان کی چال نہ سمجھ سکی کہ یہ لوگ مجھے کس دلدل میں پھینکنا چاہتے ہیں؟ اسی طرح میرے سسرال والے اکثر مجھے “Trump Card” کہتے اور قہقہے لگاتے۔ میں نے کبھی غور نہ کیا کہ اس کے کیا معنی ہیں اور وہ مجھے کیوں ایسا کہتے ہیں؟

2004ء میں میرے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔ سوائے عمران کے ان کے گھر کا کوئی فرد اس بچی کو دیکھنے کے لیے نہ آیا۔ ڈیڑھ ماہ بعد میں اپنے سسرال آ گئی۔ عمران کے گھر میں جہاں میری ساس اور دیور بھی رہتے تھے، ہر جمعہ کو باقاعدگی سے قادیانی ٹی وی چینل MTA بڑے اہتمام سے دیکھا جاتا۔ قادیانی جماعت کا خلیفہ مرزا مسرور تقریریں کرتا اور اپنے پیروکاروں کو مختلف ہدایات دیتا۔ اس وقت تک مجھے قادیانیوں کے عقائد و عزائم کے بارے کچھ علم نہ تھا بہر طور میں ان کے ساتھ شامل نہ ہوتی بلکہ اپنے کمرے میں علیحدہ نماز پڑھتی اور قرآن مجید کی تلاوت کرتی۔ میری اس حرکت کا میری ساس نے بے حد برا منایا۔ اس کا رویہ مجھ سے بے حد ظالمانہ اور وحشیانہ ہو گیا۔ بات بات پر ٹوکنا، کھانوں میں بلاوجہ نقص نکالنا، عمران کے سامنے میری جھوٹی شکایات لگانا، میرے ماں باپ کو برا بھلا کہنا، اور کسی چیز کو ہاتھ نہ لگانے دینا اس کا روزمرہ کا معمول بن گیا۔ ایک دفعہ میری بیٹی دودھ کے لیے بلک رہی تھی۔ میں فریج سے دودھ نکالنے گئی تو ساس نے میرا ہاتھ روک لیا اور کہا کہ دودھ کے لیے اپنے باپ سے پیسے لائو۔ میں نے عمران کو فون کرنے لگی تو فون چھین لیا اور کہا کہ باہر جا کر PCO سے فون کرو۔ رات دیر گئے عمران واپس آیا تو میری ساس نے الٹا میرے خلاف فرضی اور من گھڑت جھوٹی شکایات کا انبار لگا دیا جس پر عمران طیش میں آ گیا اور میری بات سنے بغیر مجھے برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ اگلے دن صبح عمران اپنے کام پر چلا گیا۔ میں کچن میں سب گھر والوں کے لیے ناشتہ بنا رہی تھی۔ اچانک میری ساس دبے قدموں کچن میں آئی اور پیچھے سے میرے کپڑوں کو آگ لگا دی جس سے میں گھبرا گئی اور بڑی مشکل سے آگ بجھائی۔ میری گھبراہٹ اور پریشانی پر سب گھر والے شیطانی قہقہے لگانے لگے۔ اس پر میں نے فوری طور پر عمران کو کام سے واپس بلایا اور سارا معاملہ اس کے سامنے رکھا۔ میری ساس نے جھوٹی قسمیں کھا کر کہا کہ ایسا کسی نے نہیں کیا بلکہ یہ محض غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ اس دن کے بعد میں اس گھر میں خوف زدہ رہنے لگی۔ مجھے رات کو بھی نیند نہ آتی۔ محسوس ہوتا جیسے میری ساس مجھے سوتے میں قتل کر دے گی۔ اس خوف اور دبائو کی وجہ سے میں بے خوابی کا شکار رہنے لگی۔

عمران کا کاروبار تسلی بخش نہ تھا۔ وہ اپنے کاروبار کے سلسلہ میں پریشان رہتا۔ ایک دن میں نے اس کے رویہ میں بے حد تبدیلی دیکھی۔ وہ گھنٹوں میرے پاس بیٹھا رہا۔ شام کو باہر سیر کے لیے پارک میں لے گیا اور رات کا کھانا ایک ہوٹل میں کھلایا۔ دوسرے دن وہ میرے لیے ایک قیمتی سوٹ لے کر آیا۔ میں اس کے رویہ پر بے حد حیران ہوئی۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ مجھ سے بے حد پیار کرتا ہے اور جو بھی غلط فہمیاں تھیں، وہ سب دور ہو گئی ہیں۔ میں اس کی ان باتوں پر بے حد خوش ہوئی اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے مجھے نئی زندگی مل گئی ہے۔ چند روز بعد عمران نے مجھے کہا کہ وہ کاروبار کے سلسلہ میں بے حد پریشان ہے، لہٰذا میں اس کی مدد کروں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ میں اس کی کیا مدد کر سکتی ہوں۔ اس نے فوراً کہا کہ تم اپنے باپ سے فوری طور پر 10 لاکھ روپے لے کر آئو تاکہ میں کاروبار کر سکوں۔ میں نے اسے کہا کہ میرے والد مجھے ا تنی زیادہ رقم نہ دے سکیں گے۔ کیونکہ ایک تو ان کے پاس اتنی رقم نہیں اور دوسرے ابھی میری دو بہنیں اور ہیں جن کی شادی ہونا باقی ہے۔ لہٰذا اتنی رقم لانا میرے لیے ناممکن ہے۔ میری بات سن کر عمران غصے سے پاگل ہو گیا اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں امید سے ہوں، گھر میں پڑے پلاسٹک کے سخت پائپ کے ساتھ زد و کوب کرنے لگا۔ میں کمزور اور نازک اندام لڑکی ہوں۔ اس وحشیانہ پٹائی سے میں بے ہوش ہو گئی۔ اتفاق سے رات کو میرے والد کا فون آیا تو انھوں نے میری کراہتی آواز سے اندازہ لگایا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ وہ فوری طور پر آئے اور میرے سسرال والوں کو کچھ کہے بغیر مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ گھر میں آ کر میں نے انھیں سارا ماجرا سنایا اور تخلیہ میں اپنی والدہ کو اپنے جسم پر زخموں کے تازہ نشانات دکھائے۔ میرے پورے جسم پر نیل پڑ چکے تھے۔ اور جسم کا ہر حصہ شدید درد کر رہا تھا۔ ہمارے قریبی رشتے داروں کو اس واقعہ کا علم ہوا تو انھوں نے ہمیں ہسپتال سے تشدد کا سرٹیفکیٹ لا کر تھانے جا کر مقدمہ درج کروانے کا مشورہ دیا۔ مگر میرے والد صاحب نے اس مشورہ پر عمل نہ کیا اور معاملہ خدا پر چھوڑ دیا۔ 2 ماہ تک عمران اور ان کے گھر والوں نے مجھ سے مکمل قطع تعلق کیے رکھا۔ ایک دن صبح کے وقت انھوں نے مجھے فون کیا اور اپنے رویہ پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے معذرت کی اور کہا کہ آئندہ ایسا واقعہ کبھی نہ ہوگا۔ تم فوراً گھر واپس آ جائو۔ شام کو عمران موٹر سائیکل پر مجھے لینے گھر آ گیا۔ میرے والدین کی وسیع الظرفی اور کشادہ دلی دیکھئے کہ انھوں نے میرا مستقبل بچانے کے لیے عمران سے کوئی شکایت کی اور نہ شکوہ۔ بلکہ اسے بڑا پرُتکلف کھانا کھلایا اور کہا کہ یہ تمہاری امانت ہے، تم اسے لے جا سکتے ہو۔ میں دوبارہ اپنے سسرال آ گئی چند ہفتے عمران کا رویہ میرے ساتھ ہمدردانہ رہا۔ پھر رفتہ رفتہ ان کے رویہ میں حسب معمول تبدیلی آ گئی اور ایک دن غصے سے کہنے لگے کہ اگر تم اپنے والد سے 10 لاکھ روپے نہ لائی تو میں تمھیں طلاق دے دوں گا۔ میں یہ سن کر لرز گئی۔ میرا دل ڈوب ڈوب گیا۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ کچھ دیر بعد ہوش آئی تو دیر تک سمجھ نہ پائی کہ کیا کروں۔ طلاق کی دھمکی کے الفاظ، کانوں میں مسلسل گونج رہے تھے۔ اسی دوران عمران نے ہمارے گھر پر قبضہ کرنے کے لیے ایک چال چلی کہ اپنا نیا شناختی کارڈ بنوایا اور ہمارے علم میں لائے بغیر اپنا مستقل پتہ میرے والدین کے گھر کا دے دیا۔ میرے والد صاحب کو عمران کی یہ حرکت بہت بری لگی لیکن وہ مصلحت کے تحت خاموش رہے۔

چند دنوں بعد عمران نے مجھے کہا کہ میرا تعلق قادیانی جماعت سے ہے اور اگر تمھیں میرے ساتھ رہنا ہے تو تمھیں قادیانیت اختیار کرنا پڑے گی۔ یہ سن کر ایک دفعہ پھر میرے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا۔ میں نے بڑی مشکل سے اپنے حواس پر قابو پایا اور فیصلہ کیا کہ اب میں عمران کے ساتھ کبھی نہ رہوں گی۔ اس نے مجھے دھوکا دے کر میرے ساتھ شادی کی۔ قادیانی مذہب جھوٹا ہے۔میں نے عمران سے کہا کہ تم نے میرے ساتھ دھوکہ کیا اور اب میری مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھا کر میرے ایمان پر ڈاکہ ڈالنا چاہتے ہو۔ میں کسی قیمت پر اپنے ایمان کا سودا نہیں کروں گی۔ میری اس جرأت پر عمران نے مجھے گندی گالیاں دینا شروع کر دیں اور تھپڑوں اور گھونسوں سے مجھ پر تشدد شروع کر دیا۔ میں روتی اور چلاتی رہی مگر وہاں موجود کوئی شخص میری مدد کو نہ آیا۔ اس نے مار مار کر مجھے ادھ موا کر دیا۔ کچھ دیر بعد مجھے ہوش آیا تو میں نے اپنے والد کو فون کیا اور کہا کہ مجھے فوری طور پر یہاں سے لے جائیں ورنہ یہ لوگ مجھے قتل کر دیں گے۔ میرے والد فوراً آ گئے اور مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ اب حالات اس رخ پر تھے کہ کسی مصالحت کی گنجائش نہ تھی۔ یہ ایمان و کفر کا معاملہ تھا۔ میں نے اپنے گھر والوں کو ساری روداد سنائی اور کہا کہ ایک مشرقی لڑکی ہونے کے ناتے میں اپنے خاوند کی ہر جائز و ناجائز بات اور زیادتی برداشت کر سکتی ہوں مگر اپنے قیمتی ایمان کا سودا نہیں کر سکتی۔ اب میں عمران کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ لہٰذا میں اس سے خلع لینا چاہتی ہوں۔میرے والد ختم نبوت کے حوالہ سے بڑے حساس ہیں۔ انھوں نے  میرے اس فیصلہ کی تائید کی ۔ میں نے 8 ستمبر 2004ء کو عدالت میں خلع کے لیے درخواست دائر کر دی ۔ عدالت نے 23 نومبر 2004ء کو خلع کی ڈگری میرے حق میں جاری کر کے مجھے عمران کے چنگل سے آزاد کر دیا۔ آج کل میں اپنے والدین کے گھر ایک مطلقہ کی حیثیت سے رہ رہی ہوں۔ عدالت سے خلع کا فیصلہ ہو جانے کے باوجود عمران آئے روز گھر فون کر کے دھمکیاں دیتا ہے۔ فون کی گھنٹی بجتی ہے تو سب گھر والے سہم جاتے ہیں۔ ہم گھر سے باہر سودا سلف لاتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ میں گھر میں مقید ہو کر رہ گئی ہوں۔ خوف اور پریشانی کی وجہ سے ہماری زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ میرے والد صاحب اعصابی طور پر بے حد کمزور ہو گئے ہیں۔ ہمارا کوئی پرسان حال نہیں۔ میرا مستقبل تباہ ہو گیا ہے۔ میں نفسیاتی مریضہ بنتی جا رہی ہوں۔ اگر خودکشی حرام نہ ہوتی تو شائد میں یہ قدم اٹھا چکی ہوتی۔ خدارا ہماری مدد کیجئے۔ ورنہ میں روز قیامت پیارے آقا و مولا حضور خاتم النبیینصلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر ہر صاحب اختیار مسلمان کی شکایت کروں گی کہ انھوں نے مجھے ایک قادیانی کے ظلم و ستم سے بچانے کی کوئی کوشش نہ کی۔‘‘

قارئین محترم! یہ تھی ثوبیہ کی اذیت ناک اور دردبھری کہانی، جس کا ایک ایک لفظ حکمرانوں کی روشن خیالی اور مسلمانوں کی بے حسی پر ہتھوڑے برسا کر ان کی غیرت و حمیت کو جگا رہا ہے۔ اور یہی نہیں آئے دن اسی طرح کے واقعات ہمارے سامنے آتے ہیںکہ قادیانی مسلمان بن کر مسلمانوں کی بچیوں سے شادی کرتے ہیں اور کچھ عرصہ بعد جب ان کو یقین ہو جاتا ہے کہ اب یہ کہیں نہیں جا سکتی تو فوراً شرط رکھتے ہیں کہ یا تو قادیانیت قبول کرو یا طلاق لے لو ۔ اکثر والدین جو قادیانی مسئلہ کی نزاکت کو نہیں سمجھتے وہ تو طلاق کا نام سن کر ہی ڈر جا تے ہیں اور بیٹی کو خود کہتے ہیں کہ قادیانیت قبول کر لو مگر طلاق والا معاملہ نہ ہونے پائے اور کئی دفعہ کو مسلمان بچیاں اپنے والدین کی مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے خاموشی سے قادیانیوں کی ہر شرط کو مان لیتی ہیں اور بات کو کھلنے ہی نہیں دیتیں ۔ مگر جو مسلمان قادیانی فتنہ کو سمجھتے تھے انھوں نے قادیانیوں سے نجات حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ان میں سے ہر ایک نے کس طرح اس چنگل سے آزادی حاصل کی ہر ایک کی اپنی جگہ ایک درد ناک داستان ہے ۔مسلمانوںاس فتنہ قادیانیت کے طریقہ واردات اب بدل چکے ہیں ہمیں بھی ہوشیار ہو نا ہو گا ۔دکھ ہوتا ہے یہ جان کر کہ مسلمان بچے بچیاں PHD تو کر لیتے ہیں مگر قادیانیت سے بالکل ناوا قف۔آخر ایسا کیوں ہے؟اس لیے کہ  ہم نے کبھی بھی اس موضوع کو اتنا اہم نہیں سمجھا کہ خود بھی اس کے متعلق معلومات حاصل کریں۔ بس آج ہی یہ فیصلہ کریں کہ جو ہوا سو ہوا آج سے ہم اس معاملہ کو بخوبی سمجھیں گے ۔ اگر اس سلسلہ میں ہمارا مشورہ درکار ہو تو آپ بذریعہ ای میل [email protected]  پر رابطہ کر سکتے ہیں۔