Language:

مولانا مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ

            مولانا مفتی محمودؒ کا وجود ملت اسلامیہ کے لیے قدرت کا عطیہ تھا۔ آپ کو قدرت نے بے شمار خوبیوں سے سرفراز فرمایا تھا اور آپ کی تمام تر خوبیاں و صلاحیتیں خدمتِ اسلام کے لیے وقف تھیں۔ 53ء کی تحریک ختم نبوت میں آپ ملتان سے گرفتار ہوئے۔ 74ء کی تحریک ختم نبوت میں آپ نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ اسمبلی سے باہر ملت اسلامیہ کی راہنمائی شیخ الاسلام مولانا محمد یوسف بنوریؒ کی قیادت میں جلیل القدر علماء و راہنمائوں نے کی اور قومی اسمبلی میں ختم نبوت کی وکالت آپ نے کی۔ اسمبلی کے معزز ممبران، و علماء کرام کی حمایت و تعاون آپ کو حاصل تھا۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے مرزا ناصر قادیانی اور صدرالدین لاہوری مرزائیوں کے جواب میں جو محضر نامہ تیار کیا گیا، اس کا نام ’’ملت اسلامیہ کا موقف‘‘ ہے، اس کے عربی، اردو، انگلش میں مجلس نے کئی ایڈیشن شائع کیے ہیں۔ اس محضر نامے کو اسمبلی میں پڑھنے کا شرف اللہ رب العزت نے حضرت مولانا مفتی محمودؒ کو بخشا۔ آپ اسمبلی میں ملت اسلامیہ کی متفقہ آواز تھے۔ قومی اسمبلی سے7 ستمبر1974 کو قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے میں ان میں بڑا حصہ ہے۔ انہوں نے اسمبلی میں قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر پر جو علمی جرح کی، وہ تاریخ کا ایک ناقابل فراموش حصہ ہے۔ 22 اگست سے5 ستمبرکی شام تک آئینی کمیٹی کے بہت سے اجلاس ہوئے مگر متفقہ حل کی صورت گری ممکن نہ ہوسکی۔ سب سے زیادہ جھگڑا آئین کی دفعہ 106 میں ترمیم کے مسئلہ پر ہوا۔ اس دفعہ کے تحت صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلم اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی ہے جو بلوچستان میں ایک، سرحد میں ایک، سندھ میں دو اورپنجاب میں تین سیٹوں پر مشتمل ہے۔ ان 6 غیر مسلم اقلیتوں کے نام یہ ہیں: عیسائی، ہندو، سکھ، پارسی، بدھ اور شیڈول کاسٹ یعنی اچھوت۔ حزب اختلاف کے نمائندگان چاہتے تھے کہ ان چھ کی قطار میں قادیانیوں کو بھی شامل کیا جائے تاکہ کوئی شبہ باقی نہ رہے۔ اس کے لیے حکومت تیار نہ تھی اور ویسے بھی قادیانیوں کا نام اچھوتوں کے ساتھ پیوست کرنا پڑتا تھا۔ وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا، اس کو رہنے دیں۔ مفتی صاحب نے کہا، جب اوراقلیتی فرقوں کے نام فہرست میں شامل ہیں تو ان کا نام بھی لکھ دیں۔پیرزادہ نے جواب دیا، یہ اقلیتی فرقوں کی ڈیمانڈ تھی اور مرزائیوں کی ڈیمانڈ نہیں۔ مفتی صاحب نے کہا، یہ تو تمہاری تنگ نظری ہے اورہماری فراخدلی کا ثبوت ہے کہ ہم ان کی ڈیمانڈ کے بغیر انہیں ان کا حق دے رہے ہیں۔7 ستمبر کو اسمبلی نے فیصلہ سنانا تھا۔ ادھر سب کمیٹی5 ستمبر کی شام تک کوئی فیصلہ ہی نہ کرسکی۔ چنانچہ6 ستمبر کی صبح کو مسٹر بھٹو نے مولانا مفتی محمود سمیت سب کمیٹی کے چھ ارکان کو پرائم منسٹر ہائوس بلایا جہاں دو گھنٹے کی مسلسل گفتگو کے باوجود بنیادی نکتہ نظر پر اتفاق رائے کی صورت پیدا نہ ہوئی۔ اپوزیشن سمجھتی تھی کہ اس کے بغیر حل ادھورا رہے گا۔ بڑی بحث و تمحیص کے بعد مسٹر بھٹو نے یہ جواب دیا: میں سوچوں گا۔ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو میں دوبارہ بلائوں گا۔‘‘

عصر کے وقت اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔ پیرزادہ نے مفتی صاحب سمیت دیگر ارکان کو اسپیکر کے کمرے میں بلایا۔ اپوزیشن نے اپنا موقف پھر واضح کیا کہ دفعہ 106 میں چھ اقلیتی فرقوں کے ساتھ مرزائیوں کی تصریح کی جائے اوربریکٹ میں’’قادیانی گروپ اورلاہوری گروپ‘‘ لکھا جائے۔ مسٹر پیرزادہ نے کہا، وہ اپنے آپ کو مرزائی نہیں کہتے، احمدی کہتے ہیں۔ مفتی صاحب نے کہا، ہم ان کو احمدی تسلیم نہیں کرتے، احمدی تو ہم ہیں۔ پھر کہا، ’’چلو مرزا غلام احمد قادیانی کے پیرو کار لکھ دو۔‘‘ پیرزادہ نے نکتہ اٹھایا، دستور میں کسی شخص کا نام نہیں ہوتا۔ حالانکہ دستور میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اورقائداعظم کے نام موجود ہیں۔ اورپھر سوچ کر بولے، مفتی صاحب، مرزا قادیانی کے نام سے دستور کو کیوں پلید کرتے ہو؟ مسٹر پیرزادہ کا خیال تھا، شاید اس حیلے سے مفتی صاحب ٹل جائیں۔ مفتی صاحب نے فوراً جواب دیا۔’’شیطان، ابلیس، خنزیر کے نام بھی قرآن میں موجود ہیں۔ اس سے قرآن کی صداقت و تقدس پر تو کوئی اثر نہیں پڑتا۔‘‘ پیرزادہ لاجواب ہو کر کہنے لگے، وہ اپنے آپ کو احمدی کہلاتے ہیں۔مفتی صاحب نے کہا، بریکٹ بند ثانوی درجہ کی حیثیت رکھتا ہے، صرف وضاحت کے لیے ہوتا ہے۔ یوں لکھ دو’’قادیانی گروپ اور لاہوری گروپ جو اپنے آپ کو احمدی کہلاتے ہیں۔‘‘ چنانچہ اس پر فیصلہ ہوگیا۔

7ستمبر1974ء ہماری تاریخ کا وہ یاد گار دن ہے جب1953ء اور1974ء کے شہیدان ختم نبوت کا خون رنگ لایا اورہماری قومی اسمبلی نے اپنی تاریخ میں پہلی بار ملی امنگوں کی ترجمانی کی اورعقیدہ ختم نبوت کو آئینی تحفظ دے کر قادیانیوں کودائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔ اس روز دستور کی دفعہ260 میں اس تاریخی شق کا اضافہ ہوا:

’’جو شخص خاتم النبیین محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر مکمل اورغیر مشروط ایمان نہ رکھتا ہو اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی معنی و مطلب یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویدار ہو یا اس قسم کا دعویٰ کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو، وہ آئین یا قانون کے ضمن میں مسلمان نہیں ہے۔‘‘

            دستور106 کی شکل یوں بنی:’’بلوچستان، پنجاب، سرحد اورسندھ کے صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں میں ایسے افراد کے لیے مخصوص فاضل نشستیں ہوں گی جو عیسائی، ہندو، سکھ، بدھ اورپارسی فرقوں اورقادیانی گروہ یا لاہوری افراد( جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں) یا شیڈول کاسٹس سے تعلق رکھتے ہیں، بلوچستان ایک، سرحد ایک، پنجاب تین، سندھ دو۔

مولانا مفتی محمود کی وفات کے بعد آپ کے ایک عقیدت مند نے آپ کو خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ فرمائیے حضرت کیسے گزری؟ اس پر آپ نے فرمایا: ’’ساری زندگی قرآن و حدیث کی تعلیم میں گزری، اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کوشش و کاوش کی، وہ سب اللہ رب العزت کے ہاں بحمدہٖ تعالیٰ قبول ہوئیں مگر نجات صرف اس محنت کی وجہ سے ہوئی جو قومی اسمبلی میں مسئلہ ختم نبوت کے لیے کی تھی، ختم نبوت کی خدمت کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے بخشش فرما دی۔‘‘