Language:

اختر شیرانی

            ہمارے ہاں کے تو رندانِ بلا نوش کا بھی حال یہ ہے کہ شراب کی ساری سرمستیاں اور نشہ کی تمام مدہوشیاں حضور رسالت مآبصلی اللہ علیہ وسلم کا دامانِ ادب ان کے لرزتے ہاتھوں سے چھڑانے میں بھی کامیاب نہیں ہوتیں۔ اور یہ ’’دیوانے‘‘ اپنے اس حال میں بھی ’’بامحمد ہوشیار‘‘! کا پاس نہیں بھولتے۔

            شہرۂ آفاق شاعر اختر شیرانی رومانوی شاعری میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں ایک معروف نقاد نے کہا تھا کہ وہ وصل کی آرزو اس طرح کرتا ہے جس طرح بچہ ٹافی مانگتا ہے۔ مجاہد ختم نبوت آغا شورش کاشمیریؒ فرماتے ہیں کہ عرب ہوٹل میں ایک دفعہ بعض کمیونسٹ نوجوانوں نے جو بلا کے ذہین تھے، اختر شیرانی سے مختلف موضوعات پر بحث چھیڑ دی۔ وہ اس وقت تک شراب کی دو بوتلیں چڑھا چکے تھے اور ہوش قائم نہ تھے۔ تمام بدن پر رعشہ طاری تھا، حتیٰ کہ الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر زبان سے نکل رہے تھے۔ ادھر اَنا کا شروع سے یہ حال تھا کہ اپنے سوا کسی کو نہیں مانتے تھے۔ جانے کیا سوال زیر بحث تھا۔ فرمایا مسلمانوں میں تین شخص اب تک ایسے پیدا ہوئے ہیں جو ہر اعتبار سے جینئس (Genios)بھی ہیں اور کامل الفن بھی۔ پہلے ابوالفضل، دوسرے اسد اللہ خاں غالب، تیسرے ابوالکلام آزاد۔ شاعر وہ شاذ ہی کسی کو مانتے تھے۔ ہمعصر شعرا میں جو واقعی شاعر تھا، اسے بھی اپنے سے کمتر خیال کرتے تھے۔ کمیونسٹ نوجوانوں نے فیض کے بارے میں سوال کیا، طرح دے گئے۔ جوش کے متعلق پوچھا، کہا وہ ناظم ہے۔ سردار جعفری کا نام لیا، مسکرا دیے۔ فراق کا ذکر چھیڑا، ہونہہ ہاں کر کے چپ ہو گئے۔ ساحر لدھیانوی کی بات کی، سامنے بیٹھا تھا۔ فرمایا، مشق کرنے دو۔ ظہیر کاشمیری کے بارے میں کہا ’’نام سنا ہے۔‘‘ احمد ندیم قاسمی؟ فرمایا ’’میرا شاگرد ہے۔‘‘ نوجوانوں نے دیکھا کہ ترقی پسند تحریک ہی کے منکر ہیں، تو بحث کا رخ پھیر دیا۔

’’حضرت! فلاں پیغمبر کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘

آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ نشہ میں چور تھے۔ زبان پر قابو نہیں تھا، لیکن چونک کر فرمایا:’’کیا بکتے ہو؟‘‘

’’ادب و انشا یا شعر و شاعری کی بات کرو۔‘‘ کسی نے فوراً ہی افلاطون کی طرف رخ موڑ دیا۔ ’’ان کے مکالمات کی بابت کیا خیال ہے؟‘‘ ارسطو اور سقراط کے بارے میں سوال کیا، مگر اس وقت وہ اپنے موڈ میں تھے، فرمایا۔ ’’اجی پوچھو یہ کہ ہم کون ہیں۔ یہ افلاطون، ارسطو یا سقراط آج ہوتے، تو ہمارے حلقہ میں بیٹھتے، ہمیں ان سے کیا؟ کہ ان کے بارے میں رائے دیتے پھریں۔‘‘ اس لڑکھڑاتی ہوئی گفتگو سے فائدہ اٹھا کر ایک قادیانی نوجوان نے سوال کیا۔

’’آپ کا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘

اللہ اللہ! ایک شرابی، جیسے کوئی برق تڑپی ہو، بلور کا گلاس اٹھایا اور اس کے سر پر دے مارا۔

’’بدبخت ایک عاصی سے سوال کرتا ہے۔ ایک سیاہ رُو سے پوچھتا ہے! ایک فاسق سے کیا کہلوانا چاہتا ہے؟‘‘

تمام جسم کانپ رہا تھا۔ ایکا ایکی رونا شروع کیا۔ گھگی بندھ گئی ’’تم نے اس حالت میں یہ نام کیوں لیا؟ تمھیں جرأت کیسے ہوئی…؟ گستاخ! بے ادب!!

باخدا دیوانہ باش و با محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہوشیار!

اس شریر سوال پر توبہ کرو، تمہارا خبث باطن سمجھتا ہوں۔ خود قہر و غضب کی تصویر ہو گئے۔ اس قادیانی کو محفل سے اٹھوا دیا پھر خود اٹھ کر چلے گئے۔ تمام رات روتے رہے۔ کہتے تھے یہ بدبخت اتنے نڈر ہو گئے ہیں کہ ہمارا آخری سہارا بھی ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں، میں گنہگار ضرور ہوں لیکن یہ مجھے کافر بنانا چاہتا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

دنیائے ہست و بُود کو زینت تمہی صلی اللہ علیہ وسلم تو ہو

اس باغ کی بہار کے ساماں تمہی صلی اللہ علیہ وسلم تو ہو

دنیا کی آرزوئیں فنا آشنا ہیں سب

جو روح زندگی ہے وہ ارماں تمہی صلی اللہ علیہ وسلم تو ہو

صبح ازل سے شام ابد تک ہے جس کا نور

وہ جلوہ زار حُسن درخشاں تمہی صلی اللہ علیہ وسلم تو ہو

دُنیا و آخرت کا سہارا تمہاری صلی اللہ علیہ وسلم ذات

دونوں جہاں کے والئی و سلطان تمہی صلی اللہ علیہ وسلم تو ہو

اخترؔ کو بے نوائیِ دُنیا کی فِکر کیا

ساماں طرازِ بے سر و ساماں تمہی صلی اللہ علیہ وسلم تو ہو

(اخترؔشیرانی)