Language:

قادیانیت ٓائین و قانون کی نظر میں – چوہدری اشتیاق احمد خان ایڈووکیٹ

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا کوئی تشریعی، غیر تشریعی، ظلی، بروزی یا نیا نبی نہیں آئے گا۔پوری ملت اسلامیہ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ قادیانی مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی ماننے کی وجہ سے کافر، مرتد ، زندیق اور گستاخ رسول ؐ ہیں۔علامہ اقبالؒ نے پنڈت جواہر لعل نہرو کے نام ایک خط میں فرمایا تھا: ’’قادیانی اسلام اور ملک دونوں کے غدار ہیں۔‘‘ لاہور ہائیکورٹ نے قادیانیوںکے خلاف اپنے ایک فیصلہ میں لکھا:’’مرزا قادیانی نے’’محمد رسول اللہ‘‘ ہونے کا دعویٰ کیااور ان تمام لوگوں کے خلاف بے حد غلیظ زبان استعمال کی، جنہوں نے اس کے نبوت کے دعویٰ کو مسترد کیا اور اس (مرزا قادیانی)نے خود اعلان کیا کہ وہ برطانوی سامراج کی پیداوار یعنی اس کا’’خود کاشتہ پودا‘‘ ہے۔ لہذا جب وہ اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ وہ خود’’محمد رسول اللہ‘‘ ہے اوراس کے پیروکار اس کو ایسا ہی مانتے ہیں، تو اس صورت میں وہ رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید توہین اور تحقیر کے مرتکب ہوتے ہیں‘‘

(پی ایل ڈی،1987ء لاہور458)۔

قادیانیوں کے کفریہ عقائد و عزائم کی بناء پر ملک کی منتخب جمہوری حکومت( پیپلز پارٹی) نے متفقہ طور پر 7 ستمبر1974 کو انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا اورآئین پاکستان کی شق 106(2)اور260(3) میں اس کا اندراج کردیا۔ جمہوری نظامِ حکومت میں کوئی بھی اہم فیصلہ ہمیشہ اکثریتی رائے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ دنیا کی تاریخ کا واحد واقعہ ہے کہ حکومت نے فیصلہ کرنے سے پہلے قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر کو پارلیمنٹ کے سامنے اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کے لیے بلایا۔ اسمبلی میں اس کے بیان کے بعد حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار نے قادیانی عقائد کے حوالے سے اُس پر جرح کی جس کے جواب میں مرزا ناصر نے نہ صرف مذکورہ بالا تمام عقائد و نظریات کا برملا اعتراف کیا بلکہ باطل تاویلات کے ذریعے ان کا دفاع بھی کیا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ قادیانی، پارلیمنٹ کے اس متفقہ فیصلے کو تسلیم کرنے سے یکسر انکاری ہیں۔ قادیانیوں نے آئین میں دی گئی اپنی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا جسے وفاقی شرعی عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے (PLD 1985 FSC 8) میں لکھا کہ’’اس اعلان کے نتیجے میں، جو مسلمانوں کے متفقہ مطالبے پر منظور ہوا تھا،قادیانیوں کے لئے روا نہ تھا کہ وہ خودکو مسلمان کہتے یا اپنے تصور کے اسلام کی، حقیقی اسلام کے طور پہ اشاعت کرتے۔ لیکن انہوں نے آئینی ترمیم کا بالکل احترام نہیں کیا اور اپنے عقیدے کو پہلے کی طرح اسلام قرار دیتے رہے۔وہ اپنی کتابوں اور رسالوں وغیرہ کی اشاعت کے ذریعے نیز انفرادی طور پر مسلمانوں کے اندر اپنے مذہب کی آزادانہ تبلیغ کرتے ہوئے غیظ وغضب کا باعث بنتے رہے‘‘۔

قادیانی اس فیصلے کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے نہ صرف آئین کے باغی ہیں بلکہ اُلٹا وہ مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت کے پانچ رکنی  بینچ نے اپنے ایک فیصلے میں لکھا ہے کہ   ’’قادیانیوں نے الٹا مسلمانوں کو غیر مسلم اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دے کر اپنے آپ کو ایسی جماعت کی جگہ، جس میں قرآن کریم کی محبت اور عقیدت سب سے بلند ہے،امت مسلمہ قرار دے لیا ہے۔یہ برداشت نہیں کیا جاسکتا اور غیر مسلموں کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ امت کا شیرازہ بکھیرکر مسلمانوں کے حقوق اور مراعات پر غاصبانہ قبضہ کر لیں‘‘  (PLD 1985 FSC 8)۔  لاہور ہائیکورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں لکھا ہے’’قادیانیوں کے نزدیک غیر قادیانی یا غیر احمدی کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ اس طرح انہوں نے اپنی علیحدہ امت بنالی ہے جو امت مسلمہ کا حصہ نہیں۔ یہ چیز خود ان کے طرز عمل اور عقائد سے ثابت ہے، وہ خود کو مسلمانوں کو اپنی ملت سے خارج گردانتے ہیں۔

(PLD 1992 Lahore 1)

قادیانیوں کو شعائر اسلامی کے استعمال اور اس کی توہین سے روکنے کے لیے 26 اپریل 1984ء کو حکومت پاکستان نے امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کیا جس کی رو سے قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے اور اپنے مذہب کے لیے اسلامی شعائرو اصطلاحات استعمال نہیں کر سکتے۔ اس آرڈیننس کے ذریعہ تعزیراتِ پاکستان میں دو نئی دفعات 298/Bْْ اور 298/Cکا اضافہ کیا گیا ہے

298/B              بعض مقدس شخصیات یا مقامات کے لیے مخصوص القاب‘ اوصاف یا خطابات وغیرہ کا ناجائز استعمال

1۔          قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ (جو خود کو ’’احمدی‘‘ یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں) کا کوئی شخص حضرت محمد ﷺ کے خلیفہ یا صحابی کے علاوہ کسی شخص کو امیر المومنین‘ خلیفۃالمومنین‘ خلیفۃ المسلمین‘ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طور پر منسوب کرے یا مخاطب کرے۔حضرت محمد ﷺ کی کسی زوجۂ مطہرہ کے علاوہ کسی ذات کو ام المومنین کے طور پر منسوب کرے یا مخاطب کرے۔حضرت محمد ﷺ کے خاندان (اہلِ بیت) کے کسی فرد کے علاوہ کسی شخص کو اہل بیت کے طور پر منسوب کرے یا موسوم کرے یا پکارے۔اپنی عبادت گاہ کو ’’مسجد‘‘ کے طور پر منسوب کرے یا موسوم کرے یا پکارے تو اسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لیے دی جائے گی جو تین سال تک ہو سکتی ہے اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہو گا۔

2۔          قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ (جو خود کواحمدی یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں) کا کوئی شخص جو الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوںیا تحریری یا مرئی نقوش کے ذریعے اپنے مذہب میں عبادت کے لیے بلانے کے طریقے یا صورت کو اذان کے طور پر منسوب کرے یا اس طرح اذان دے جس طرح مسلمان دیتے ہیں تو اسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لیے دی جائے گی جو تین سال ہو سکتی ہے اور وہ جرمانے کا مستوجب بھی ہو گا۔

298/C               قادیانی گروپ وغیرہ کا شخص جو خود کو مسلمان  کہے یا اپنے مذہب کی تبلیغ یا تشہیر کرے

قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ ( جو خود کو احمدی یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں) کا کوئی شخص جوبلا واسطہ یا بالواسطہ خود کومسلمان ظاہر کرے یا اپنے مذہب کو اسلام کے طور پر موسوم کرے یا منسوب کرے یا الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا مرئی نقوش کے ذریعے اپنے مذہب کی تبلیغ یا تشہیر کرے یا دوسروں کو اپنا مذہب قبول کرنے کی دعوت دے یا کسی بھی طریقے سے مسلمانوں کے مذہبی احساسات کو مجروح کرے‘ کو کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لیے دی جائے گی جو تین سال تک ہو سکتی ہے‘ اور جرمانے کا بھی مستوجب ہو گا۔یہ جرم قابل دست اندازی پولیس اور ناقابل ضمانت ہوگا۔

قادیانیوں نے ان پابندیوں کو وفاقی شرعی عدالت، لاہور ہائی کورٹ، کوئٹہ ہائی کورٹ وغیرہ میں چیلنج کیا جہاں انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔قادیانیوں کے خلاف وفاقی شرعی عدالت نے یادگار اور تاریخی فیصلہ دیا جس کی قادیانیوں کی طرف سے دائر کردہ اپیل سپریم کورٹ شریعت ا پیلٹ بینچ نے خارج کرکے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کردی۔  وفاقی شرعی عدالت نے آرڈیننس کے بارے میں لکھا کہ ’’ اس سوال پر ہم ٖغور کر چکے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچے ہیںکہ ہر دو عقیدوں کے قادیانی مسلمان نہیں ہیں ، بلکہ غیر مسلم ہیں۔ لہذا آرڈیننس انہیں اپنے آپ کو ایسا کہلانے سے روکتا ہے جو وہ نہیں ہیں۔کیونکہ ان کو جھوٹ موٹ مسلمان ظاہر کرکے کسی شخص، خصوصا امت مسلمہ کو دھوکہ دینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی‘‘۔۔۔۔۔۔’’اہل بیت کی اصطلاح بھی جیسا کہ کئی احادیث سے واضح ہوتا ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے افراد کے لئے مخصوص ہے۔ایسے اشخاص جو مسلمان نہیں یا جو مسلمان نہیں تھے ان کو اس نام سے نہیں پکارا جا سکتا۔قادیانیوں کی طرف سے مرزا صاحب کے افراد ِخاندان کے لیے ایسے نام کا استعمال زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔وہ اوصاف جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افراد ِخاندان متصف تھے وہ کسی اور شخص میں موجود نہیں ہو سکتے، اس لئے یہ کوئی حیرت کی بات نہیںکہ مسلمانوں نے اس توہین کا برا منایا۔اس اصطلاح کے استعمال سے امن وامان کے صورت حال خراب ہوتی ہے۔ لہذا یہی امت کے مفاد میں تھا کہ اس کے استعمال کو فوجداری جرم قرار دے کر قادیانیوں کو اس کے استعمال سے منع کردیا جائے‘‘

(PLD 1985 FSC 8) ۔

اس کے باوجودقادیانی خود کو مسلمان کہنے اور شعائر اسلامی کے استعمال سے باز نہیں آئے۔قادیانی  298-B پی پی سی میں مخصوص کئے گئے الفاظ کے علاوہ دیگر شعائر اسلامی اور کلمات کا استعمال آزادی سے کرتے رہے، جسے اعلی عدالتوں نے منع کیا کہ قادیانی کوئی بھی شعائر اسلامی استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ اس طرح وہ مسلمان ظاہر ہوتے ہیں جو قانون کے مطابق ممنوع ہے۔ننکانہ صاحب کے چند قادیانیوں نے اپنے ہاں شادی کے لئے ایک دعوتی کارڈ شائع کیا جس میں شعائر اسلامی کا استعمال کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شادی کارڈ کسی غیر مسلم کا نہیں بلکہ مسلمان کا ہے۔ مثلاً نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم ، بسم اللہ الرحمن الرحیم ، اسلام علیکم۔ نکاح مسنونہ وغیرہ کے الفاظ وغیرہ لکھوائے۔ ان قادیانیوں کے خلاف شعائر اسلامی کے استعمال کرنے کے جرم میں مقدمہ درج کروایا گیا۔ قادیانیوں نے اس مقدمہ میں ضمانت کے کیس میں لاہورہائیکورت میں موقف پیش کیا کہ ’’قانون قادیانیوں کو صرف ان مخصوص الفاظ کے استعمال سے روکتا ہے جو دفعہ298-B پی سی پی میں درج ہیں نہ کہ دوسرے کلمات جو دعوت ناموں میں استعمال کئے جاتے ہیں‘‘۔لاہورہائیکورٹ نے اپنے فیصلے (1992 Pcr LJ 2346) مورخہ02  اگست 1992ء میں لکھا کہ ’’فاضل وکیل درخواست دہند گان کی اس دلیل میں کوئی وز ن نہیںہے کہ قادیانیوں کے صرف 298-Bپی سی پی میں مخصوص کیے گئے الفاظ کے استعمال سے روکا گیا ہے اور یہ کہ انہیں (قادیانیوں کو) شعائرِ اسلام اور دیگر کلمات ، جنہیں مسلمان استعمال کرتے اور دعوت ناموں پر لکھتے ہیں، استعمال کرنے کی آزادی ہے۔

اسی نوعیت کے ایک دوسرے کیس میں لاہور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا’’شادی کے دعوت نامے پر سرسری نظر ڈالنے سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسلمانوں کی طرف سے شائع اور تقسیم کئے گئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قادیانی یا مرزا قادیانی کے دوسرے پیروکار زیرِ دفعہ298-Bپی پی سی کے تحت کچھ مخصوص کلمات مثلاً امیر المومنین، خلیفۃ المومنین، خلیفۃ المسلمین، صحابی یا اہل بیت وغیرہ کا استعمال نہیں کرسکتے۔ تاہم یہ مذکورہ ممنوعہ کلمات قادیانیوں کو اس بات کا لائسنس نہیں دے دیتے کہ وہ د یگر اس قسم کے مشابہ کلمات یا شعائرِ اسلام استعمال کریں جو عام طور پر مسلمان استعمال کرتے ہیں، کیونکہ اس طرح کرنے سے یہ (قادیانی) اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کررہے ہوں، جو قانون کے مطابق ممنوع ہے‘‘ لاہورہائیکورٹ

(1992 PCR. LJ 2351) ۔

بالآخر قادیانیوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کی کہ انھیں شعائر اسلامی استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔ سپریم کورٹ کے فل بنچ جو جناب جسٹس عبدالقدیر چوہدری ، جناب جسٹس شفیع الرحمن، جناب جسٹس محمد افضل لون ، جناب جسٹس سلیم اختر ، جناب جسٹس ولی محمد خاںپر مشتمل تھا، نے اس کیس کی مفصل سماعت کی۔ دونوں اطراف سے دلائل و براہین دیئے گئے۔ اصل کتابوں سے متنازع ترین حوالہ جات پیش کیے گئے۔ فاضل جج صاحبان نے جب قادیانی عقائد پر نظر دوڑائی تو وہ لرز کر رہ گئے۔ فاضل جج صاحبان کا کہنا تھا کہ قادیانی اسلام کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں جبکہ دھوکہ دینا کسی کا بنیادی حق نہیں ہے اور نہ دھوکہ باز کو روکنے سے اس کے حقوق سلب ہوتے ہیں۔ خود سپریم کورٹ کے فل بنچ نے  قادیانیوں کی اپیلیں خارج کرتے ہوئے اپنے نافذ العمل فیصلہ میں لکھا:’’ احمدی ان شعائر کی بے حرمتی کرتے رہے ہیں اور اپنے قائدین و معمولات پر ان کا اطلاق کرتے رہتے ہیںتا کہ لوگوں کو یہ دھوکا دے سکیں کہ وہ بھی اسی  مقام و مرتبہ اور صلاحیت کے حامل ہیں۔ احمدیوں کے اس عمل نے نہ صرف معصوم، سادہ اور بے خبر لوگوں کو گمراہ کیا بلکہ پوری مدت کے دوران امن و امان کا مسئلہ خراب کرتے رہے۔ اس لیے قانون سازی کی ضرورت تھی جو کسی بھی لحاظ سے احمدیوں کی مذہبی آزادی میں دخل نہیں دیتی۔ یہ قانون محض انہیں ایسے القابات و خطابات استعمال کرنے سے روکتا ہے جن پر ان کا کسی قسم کا حق نہیں، ازروئے قانون ان پر نئے القابات و اصطلاحات وضع کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔احمدی دوسری اقلیتوں کی طرح اپنے مذہب پر عمل کرنے میں آزاد ہیں اور ان کے اس حق کو قانون یا انتظامی احکامات کے ذریعے کوئی نہیں چھین سکتا۔ بہرحال ان پر لازم ہے کہ وہ آئین اور قانون کا احترام کریں اور انہیں اسلام سمیت کسی دوسرے مذہب کی مقدس ہستیوں کی بے حرمتی یا توہین نہیں کرنی چاہیے، نہ ہی ان کے مخصوص خطابات، القابات و اصطلاحات استعمال کرنے چاہئیں نیز مخصوص نام مثلاً مسجد اور مذہبی عمل مثلاً اذان وغیرہ کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے تاکہ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے اور لوگوں کے عقیدہ کے بارے میں گمراہ نہ کیا جائے اور دھوکہ نہ دیا جائے۔‘‘

سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس تاریخی فیصلہ ظہیرالدین بنام سرکار (1993 SCMR 1718) کی رو سے کوئی قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہلوا سکتا اور نہ ہی اپنے مذہب کی تبلیغ کر سکتا ہے۔ اس کے باوجود قادیانی آئین، قانون اور اعلیٰ عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑاتے ہوئے خود کو مسلمان کہلواتے، اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے، گستاخانہ لٹریچر تقسیم کرتے، شعائر اسلامی کا استعمال کر کے اسلامی مقدس شخصیات و مقامات کی توہین کرتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ قادیانیوں کی ان آئین شکن، خلاف قانون اور انتہائی اشتعال انگیز سرگرمیوں پر قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرمانہ غفلت اور خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔حکومت اگر پارلیمنٹ اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے تو وہ قادیانیوں کو آئین ،قانون اور عدالتی فیصلوں کا پابند کرے تاکہ کہیں بھی لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال خرابنہ ہو۔