Language:

قادیانیوں کی شعائر اسلامی کی توہین – عدالتی کاروائی

ننکانہ صاحب کے ناصر احمد نامی قادیانی نے ننکانہ صاحب میں ایک مسلمان نوجوان کو مرزائیت کی تبلیغ کی۔ اطلاع اور ثبوت ملنے پر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ننکانہ صاحب نے تھانہ سٹی ننکانہ میں مقدمہ درج کروا دیا۔ مرزائی نے ضمانت کرا لی۔ ابھی اس قادیانی شرارت کو چند دن بھی نہ گزرنے پائے تھے کہ اسی ناصر احمد قادیانی اور دیگر ملزمان نے اپنے ہاں شادی کے لیے ایک دعوتی کارڈ شائع کیا‘ جس میں ایسی اصطلاحات (اسلامی شعائر، استعمال کی گئیں‘ جس سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ شادی کارڈ کسی غیر مسلم کا نہیں بلکہ مسلمان کا ہے مثلاً  نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم‘ بسم اللہ الرحمن الرحیم ‘ اسلام علیکم‘ انشاء اللہ ‘ نکاح مسنونہ  وغیرہ کے الفاظ لکھوائے۔ ظاہر ہے کہ قادیانیوں کے لیے ایسے اسلامی شعائر کا استعمال شرعاً  و قانوناً ممنوع ہے‘ چنانچہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ننکانہ کے امیر جناب حاجی عبدالحمید رحمانی صاحب اور ناظمِ اعلیٰ جناب مہر شوکت علی شاہد صاحب نے ان کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا۔ اس پر ملزمان کی گرفتاری ہوئی۔ چند ملزمان نے لاہور ہائی کورٹ میں قبل از گرفتاری ضمانت کے لیے درخواستیں گزاریں۔ ایک اور درخواست ضمانت بعد از گرفتاری ناصر احمد قادیانی کی طرف سے دائر کی گئی۔ اس پر جناب جسٹس اختر حسن صاحب لاہور ہائی کورٹ نے ان کی عبوری ضمانتیں منظور کر لیں اور مستقل ضمانتوں کے لیے ایڈیشنل سیشن جج ننکانہ صاحب کے روبرو پیش ہونے کو کہا۔ مگر قادیانی ملزمان عبوری ضمانتوں کی مدت ختم ہونے پر اس موقف کے ساتھ پھر لاہور ہائی کورٹ میں جناب جسٹس راشد عزیز خان صاحب کی عدالت میں پیش ہو گئے کہ ہمیں ایڈیشنل سیشن جج سے انصا ف کی توقع نہیں۔ حالانکہ تھوڑا عرصہ پہلے پورے ننکانہ صاحب‘ بالخصوص بار ایسوسی ایشن نے بار بار درخواستیں کرکے ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت ننکانہ صاحب میں منظور کرائی۔ بہر حال قادیانیوں کی درخواست پر مستقل ضمانتوں کے کیس کی سماعت لاہور ہائی کورٹ کے عزت مآب جسٹس جناب میاں نذیر اختر صاحب کی عدالت میں شروع ہوئی۔

پنجاب گورنمنٹ کی طرف سے جناب نذیر احمد غازی اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور مدعی کی طرف سے جناب رشید مرتضیٰ قریشی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ پیش ہوئے۔ جناب رشید مرتضیٰ قریشی اللہ کے ولی اور مجذوب ہیں۔ انگریز سامراج کی پیداوار ،،قادیانیت‘‘ کے خلاف نفرت ان کے جسم میں رچی بسی ہے۔ انہوں نے اس کیس میں تمام مسلمانانِ عالم کی طرف سے نمائندگی کا بھرپور حق ادا کیا۔ عزت ماب جسٹس جناب میاں نذیر اختر صاحب نے فریقین کے دلائل و مباحث سنے اور پھر فیصلے صادر فرمائے۔ فیصلہ جات کا ایک ایک لفظ تمام مسلمانوں کو تحفظِ ناموس رسالتؐ، تحفظ ناموس اہل بیتؓ اور تحفظ شعائرِ اسلامی کے بارے میں لمحہ فکر یہ فراہم کرتا ہے۔ اس فیصلہ سے عدالت عالیہ کے وقار میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اللہ رب العزت ا ن سب حضرات کو دنیا و آخرت میں جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین۔

شادی کے لیے دعوتی کارڈ میںقادیانی نے جواسلامی شعائر استعمال کئے ان سے متعلق جسٹس جناب میاں نذیر اختر صاحب نے  اپنے اس فیصلے میں لکھا کہـ،، شادی کے دعوت نامے پر سرسری نظر ڈالنے سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسلمانوں کی طرف سے شائع اور تقسیم کیے گئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قادیانی یا مرزا قادیانی کے دوسرے پیروکار زیر دفعہ 298-B پی پی سی کے تحت کچھ مخصوص کلمات مثلاً امیر المومنین‘ خلیفۃ المومنین ‘ خلیفۃ المسلمین ‘ صحابی یا اہل بیت وغیرہ کا استعمال نہیں کر سکتے۔ تاہم یہ مذکورہ ممنوعہ کلمات قادیانیوں کو اس بات کا لائسنس نہیں دے دیتے کہ وہ دیگر اس قسم کے مشابہہ کلمات یا شعائرِ اسلام استعمال کریں جو عام طور پر عام مسلمان استعمال کرتے ہیں‘ کیونکہ اس طرح کرنے سے یہ (قادیانی) اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر رہے ہوں گے‘ جو قانون کے مطابق ممنوع ہے‘‘۔

قادیانیوں نے اس کیس میں موقف اختیار کیا کہ قا دیانیوں کو صرف 298-B پی پی سی میں مخصوص کیے گئے الفاظ کے استعمال سے روکا گیا ہے اور دیگر شعائر اسلامی کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں۔ جج صاحب نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ،،فاضل وکیلِ درخواست دہندگان کی اس دلیل میں کوئی وزن نہیں ہے کہ قادیانیوں کو صرف 298-B پی پی سی میں مخصوص کیے گئے الفاظ کے استعمال سے روکا گیا ہے اور یہ کہ انہیں (قادیانیوںکو) شعائرِ اسلام اور دیگر کلمات‘جنہیں مسلمان استعمال کرتے اور دعوت ناموں پر لکھتے ہیں‘ استعمال کرنے کی آزادی ہے۔ مرزا غلام احمدکے پیروکار قادیانی اور لاہوری گروہ کی طرف سے ان الفاظ کا استعمال ‘ جو دفعہ 298-B پی پی سی میں درج ہیں‘ جرم ہے۔ نیز قادیانیوں کی طرف سے ان شعائرِ اسلام کا استعمال جو دعوت ناموں پر درج کیے گئے‘ بھی 298-C پی پی سی کے تحت جرم ہے۔ دعوت نامے پر سرسری نظر ڈالنے سے شدید تاثر پیدا ہوتا ہے کہ وہ اشخاص جنہوں نے (شادی کی) دعوت دی ہے یا اپنے نام ،،تاکید مزید‘‘ میں شائع کرانے کی اجازت دی ہے‘ مسلمان ہیں‘‘۔

 آخر میں‘ میں جناب حاجی عبدالحمید رحمانی صاحب‘ امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ننکانہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اس کیس کے تمام مراحل میں خصوصی توجہ اور محنت فرمائی۔ مزید برآں ننکانہ صاحب کے مہر شوکت علی شاہد‘ چوہدری نذیر احمد ‘ محمد شاہین پرواز‘ محمد قدیر شہزاد‘ محمد اکرم ناز‘ حبیب احمد عابد‘ مہر تاج دین‘ ظفر عباس‘ منظور احمد‘ محمد خالد نسیم چشتی اور لاہور کے جناب محبوب احمد‘  نور محمد قریشی‘ حافظ عبدالخالق اور رانا رمیض خاں صاحبان خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں کہ جنہوں نے ہر دم گرم رہ کر مجلس کے لیے کامیابی حاصل کی۔ حضرت مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی‘ جناب محمد متین خالد‘ اور جناب محمد طاہر عبدالرزاق صاحبان نے مقدمہ کے متعلقہ ہر قسم کی کتب فراہم کیں اور مقدمہ کی مکمل نگرانی کرتے رہے۔ایڈیشنل سیشن جج صاحب ننکانہ کی عدالت میں اس کیس کی مذہبی نوعیت اور دینی غیرت و حمیت کے پیش نظر تمام مقامی وکلاء صاحبان رضاکارانہ طور پر پیش ہوئے جن میں بالخصوص کمال دین ڈوگر ‘ شیخ محمد امین ‘  مہر محمد اسلم ناصر ‘  برکت علی غیور ‘  محمد امین بھٹی ‘  رائے ہدایت علی خاں کھرل ‘  حق نواز ‘ رائے ولایت علی خاں اور محمد صدیق ڈوگر صاحبان سرفہرست ہیں‘ انہوں نے بڑی محبت اور محنت سے یہ کیس لڑا‘ مزید براں ڈپٹی ڈسٹرکٹ اٹارنی جناب سید نور حسین شاہ صاحب نے بھی خوب حق ادا فرمایا۔ اللہ رب العزت ان سب حضرات کو دنیا و آخرت میں جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین۔ ثم آمین۔