Language:

حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام اور احادیث مبارکہ حصہ اول

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت و فلاح کے لیے جو کچھ ارشاد فرمایا، اس کی تعبیر و تشریح حضور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کے بغیر ممکن نہیں۔ احادیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم  ہمیں قرآنی احکام کی عملی تصویر مہیا کرتی ہیں۔ صلوٰۃ، زکوٰۃ، تیمم، حج، عمرہ، صوم یہ محض الفاظ ہیں لغات ہمیں ان الفاظ کے وہ معانی نہیں بتاتیں جو شریعت میں مطلوب ہیں۔ پس اگر احادیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم موجود نہ ہوں تو ہمارے پاس قرآن مجید کے معانی، شریعت کے مطابق متعین کرنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں رہے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لیے قرآن نازل فرمایا اور اس کی تشریح و تفسیر حضور سید المرسلین علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد کر دی۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس مانزل الیھم و لعلھم یتفکرون۔(النحل:44)  ترجمہ: ہم نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف ذکر (قرآن مجید) نازل فرمایا تاکہ آپؐ (اسے) کھول کر لوگوں کو بیان کریں کہ ان کی طرف کیا احکام نازل کیے گئے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں۔

اسلام میں حدیث کی آئینی و دستوری حیثیت اور حجیت کے بارے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فکر انگیز ارشاد ملاحظہ کیجیے:

q          عن العرباضؓ بن ساریہ قال قام رسول اللّٰہ فقال الحسیب احدکم متکناً علیٰ اریکتہ یظن ان اللّٰہ لم یحرم شیئاً الا ما فی ھذا القرآن، الا و انی واللّٰہ قد امرت و وعظت و نہیست عن اشیاء انھما کمثل القرآن اواکثرھم۔ (مشکوٰۃ، ابی داؤد)

حضرت عرباضؓ بن ساریہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا: کیا گمان کرتا ہے، تم میں سے ایک شخص، اپنے پلنگ پر تکیہ لگائے ہوئے، کہ اللہ نے اور کوئی چیز حرام ہی نہیں کی، بجز ان چیزوں کے جو قرآن میں حرام کی گئی ہیں؟ آگاہ رہو، کہ قسم خدا کی کہ میں نے حکم دیے ہیں اور میں نے نصیحتیں کی ہیں اور میں نے روکا ہے، بہت سی چیزوں سے کہ وہ قرآن ہی کی طرح ہیں، بلکہ اس سے بھی زائد۔

سچے اللہ کے مخبر صادق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی لفظ بہ لفظ پوری ہو رہی ہے۔ آج بنگلوں میںرہنے والے اور فراغت و خوشحالی و عیش و نشاط سے زندگی گزارنے والے لوگ منکرین حدیث قادیانی، پردیزی وغیرہ حدیث کی حجیت کا انکار کرتے ہیں اور صرف قرآن کو حجت قرار دیتے ہیں۔

شیخ المفسرین حضرت علامہ حافظ ابن کثیرؒ تحریر فرماتے ہیں:’’حضرت محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم سے کئی احادیث تواتر کے ساتھ منقول ہیں کہ آپؐ نے خبر دی کہ سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے آسمان سے نازل ہوں گے۔‘‘           (تفسیر ابن کثیر جلد 4 صفحہ 132)

معلوم ہوا کہ نزول مسیح کی احادیث کو تواتر کا درجہ حاصل ہے۔ اس سلسلہ میں علامہ خالد محمود لکھتے ہیں:’’آنحضرتصلی اﷲ علیہ وسلم  سے جو حدیثیں تواتر کے ساتھ منقول ہیں، ان کی تکذیب بھی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی تکذیب ہے۔ سو حدیث متواتر سے ثابت ہونے والے جملہ امور پر ایمان لانا ضروری ہے اور ان میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے۔ ان میں سے کسی ایک کا انکار کر دیا جائے تو انسان مسلمان نہیں رہتا۔‘‘ (آثار الحدیث جلد 2 صفحہ 128)

تمام امت مسلمہ کا اس پر اجماع ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں اور قربِ قیامت زمین پر نازل ہوں گے، جیسا کہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم  سے 30 سے زائد صحابہ کرامؓ روایت کر رہے ہیں۔ احادیث میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور اس کے بعد ان کے کارناموں اور ذمہ داریوں نشانیاں بڑے واضح الفاظ میں بیان کی گئی ہیں۔ 70 سے زائد ان احادیث کو تواتر کا درجہ حاصل ہے۔ ان میں سے ایک احادیث مبارکہ پیش کی جاتی ہے:

پہلی حدیث

(1)        حدثنا اسحق اخبرنا یعقوب بن ابراھیم حدثنا ابی عن صالح عن ابی شھاب ان سعید بن المسیب سمع ابوھریرہرضی اﷲ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکماً عدلا فیکسر الصلیب و یقتل الخنزیر و یضع الحرب ویفیض المال حتی لا یقبلہ احد حتٰی تکون السجدۃ الواحدۃ خیر من الدنیا وما فیھا۔ ثم یقول ابی ھریرۃرضی اﷲ عنہ واقرو وان شئتم و ان من اھل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ و یوم القیامۃ یکون علیہم شہیداً۔                        (صحیح بخاری، جلد اوّل صفحہ 490، حدیث نمبر 3448، مسلم جلد 1 صفحہ 87)

(ترجمہ) ’’حضرت ابوہریرہؓ روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت محمد رسول اللہصلی اﷲ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ یقینا ابن مریم تم میں حاکم عادل ہو کر اتریں گے، پس صلیب توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جنگ ختم کردیں گے، مال کی اس قدر کثرت ہو جائے گی کہ اسے کوئی قبول نہ کرے گا۔ یہاں تک کہ دنیا اور دنیا بھر کے سب مال و متاع سے ایک سجدہ اچھا معلوم ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے تھے کہ اگر تم نزول عیسیٰ علیہ السلام کی دلیل اس ارشاد نبویؐ کے ساتھ قرآن سے چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھ لو: ’’وان من اھل الکتاب الا لیٔومنن بہ قبل موتہ ویوم القیامۃ یکون علیہم شہیداً‘‘ کیونکہ اس میں صاف طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جتنے اہل کتاب ہیں، وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے۔ اور قیامت کے دن وہ ان کے بارہ میں شہادت دیں گے۔‘‘

اس حدیث مبارکہ کو امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ دونوں نے روایت کیا ہے۔ محدثین کی اصطلاح میں یہ ’’متفق علیہ‘‘ حدیث ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ نے اس آیت کا مطلب وہی سمجھا اور بیان کیا ہے جو اوپر لکھا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ مطلب انھوں نے رسول اللہصلی اﷲ علیہ وسلم ہی کی تلقین و تعلیم سے سمجھا ہوگا۔

حضرت ابوہریرہؓ کی روایت کردہ اس حدیث سے چند باتیں معلوم ہوئیں:۔-1قرب قیامت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا مسئلہ قرآن کریم میں ذکر کیا گیا ہے۔-2حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے وہ تمام ارشادات جو نزول عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہیں، وہ قرآن کریم کی ہی شرح و تفسیر ہیں۔-3جس عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا قرآن کریم اور ارشادات نبویہصلی اﷲ علیہ وسلم میں ذکر ہے، اس سے وہی حضرت عیسیٰ بنفس نفیس مراد ہیں، نہ کہ کوئی اور مراقی یا انگریزی مسیح یا خود ساختہ ابن مریم۔-4حضرت ابوہریرہؓ کا حلقہ درس مسجد نبوی میں ہوتا تھا اور وہ ہزاروں کے مجمع میں علی رئوس الاشہاد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول پر قرآن کریم اور حدیث نبوی کے حوالے باصرار و تکرار پیش کرتے تھے، مگر کسی صحابی  ؓ اور کسی تابعیؒ نے  ان کو اس پر نہیں ٹوکا، اور یہ ممکن نہیں تھا کہ کوئی غلط بات نعوذ باللہ مسجد نبوی میں بیٹھ کر علیٰ رئوس الاشہاد قرآن و حدیث کے حوالے سے کہی جائے اور صحابہ و تابعینؒ کی پوری جماعت میں ایک آدمی بھی انھیں ٹوکنے والا نہ اٹھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ حضرت ابوہریرہؓ کے تمام ہمعصر صحابہ و تابعین کا یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آخری زمانے میں آسمان سے نازل ہوں گے اور انھوں نے قرآن مجید اور حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم  سے یہی عقیدہ اخذ کیا تھا۔

حدیث مبارکہ میں صلیب کو توڑ نے اور خنزیر کو ہلاک کر نے کا مطلب یہ ہے کہ عیسائیت ایک الگ دین کی حیثیت سے ختم ہو جائے گی۔ دین عیسوی  اس عقیدے پر قائم ہے کہ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے ( حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کو (نعوذ باللہ) صلیب پر ’’لعنت‘‘ کی موت دی جس سے وہ انسان کے گناہ کا کفارہ بن گیا۔ انبیاء علیہ السلام کی امتوں کے درمیان عیسائیوں کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے صرف عقیدے کو لے کر خدا کی پوری شریعت رد کر دی، حتیٰ کہ خنزیر کو حلال کر لیا، جو تمام انبیا کی شریعتوں میں حرام رہاہے۔ پس جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آ کر خدا کا بیٹا ہونے، صلیب دئیے جانے اور کسی کے گناہ کا کفارہ بننے کی تردید کر دیں گے تو عیسائی عقیدے کی کوئی بنیاد ہی باقی نہ رہے گی۔ اسی طرح جب وہ بتائیں گے کہ نہ میں نے  خنزیر حلال کیااور نہ شریعت کی پابندی سے آزاد ٹھہرایا تھا تو عیسائیت کی دوسری امتیازی خصوصیت کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔

حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اس حدیث میں قسم کھا رہے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں تاویل نہیں ہو سکتی۔ اس کا معنی و مطلب وہی ہے جو اس کے الفاظ سے ظاہر ہے۔ اس میں آپصلی اﷲ علیہ وسلم  اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھا کر ارشاد فرما رہے ہیں کہ: (حضرت عیسیٰ) ابن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے یعنی وہی ابن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے جن کو اللہ تعالیٰ نے بن باپ پیدا کیا،جن کا ذکر قرآن میں ہے،جن پر اللہ تعالیٰ نے انجیل نازل فرمائی،جن کو ساری دنیا رسولاً الی بنی اسرائیل کی حیثیت سے جانتی ہے۔

مندرجہ بالا تشریح سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام ہی دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے نہ کہ اس سے مراد ’’مثیل مسیح‘‘ ہے۔ مثلاً اگر کوئی یہ کہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی ولد حکیم مرتضیٰ جو 26 مئی 1908ء کو ’’وبائی ہیضہ‘‘ میں مبتلا ہو کر مرا تو اس سے مراد یقینا وہی مرزا غلام احمد قادیانی ہی سمجھا جائے گا نہ کہ اس کا کوئی مثیل۔ قرآن حکیم میں ’’عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام‘‘ مذکور ہے اور احادیث میں بلا استثنا ’’مسیح ابن مریم علیہ السلام‘‘ یا صرف ’’ابن مریم علیہ السلام‘‘ کے الفاظ موجود ہیں۔ پھر یہاں تو حدیث مذکور میں آنحضرتصلی اﷲ علیہ وسلم  قسم اٹھا کر فرماتے ہیں کہ ’’ابن مریم علیہ السلام‘‘ اتریں گے، اصول یہ ہے کہ جو بات قسم اٹھا کر کہی جائے اس سے صرف ظاہری معنی مراد لیے جاتے ہیں۔ وہاں کسی قسم کی تاویل اور استثنا نہیں چل سکتا۔ آنجہانی مرزا قادیانی نے خود یہ اصول بیان کیا ہے۔چنانچہ وہ لکھتا ہے:

(1)        ’’والقسم یدل علٰی ان الخبر محمول علی الظاھر لاتأویل فیہ ولا استثناء والا فأیی فائدۃ کانت فی ذکر القسم۔

(ترجمہ) ’’اور قسم کھا کر کوئی بات کہنا اس پر دلالت کرتا ہے کہ کہی ہوئی بات ظاہر پر محمول ہے۔ اس میں نہ کوئی تاویل ہے اور استثناء ورنہ قسم کھانے کا فائدہ کیا ہے۔‘‘

(حمامتہ البشریٰ صفحہ 14 مندرجہ روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 192 (حاشیہ) از مرزا قادیانی)

آنحضرتصلی اﷲ علیہ وسلم  مذکورہ حدیث میں قسم کھا رہے ہیں کہ ’’ابن مریم‘‘ نازل ہوں گے اور مرزا قادیانی کا قسم بارے اصول آپ نے ملاحظہ کر لیا۔ تحریر کیا جا چکا ہے کہ آنے والے مسیح کا نام ’’عیسیٰ‘‘ ہوگا جبکہ مرزا قادیانی کا نام ’’غلام احمد تھا‘‘۔ کہاں ’’غلام احمد‘‘ اور کہاں ’’عیسیٰ‘‘ فرق صاف ظاہر ہے۔ مسیح علیہ السلام کی والدہ محترمہ کا نام ’’مریم صدیقہ‘‘ ہے جبکہ مرزا قادیانی کی ماں کا نام ’’چراغبیبی‘‘۔ مسیح علیہ السلام نازل ہوں گے جبکہ مرزا قادیانی ماں کے پیٹ سے برآمد ہوا۔اس بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ مرزا قادیانی ہرگز وہ ’’مسیح موعود‘‘ نہیں جس کی خبر حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلمنے دی تھی۔

قادیانی بتائیںکیا ’’وان من اھل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ‘‘ (نسائ: 159) قرآن مجید کی آیت ہے یا نہیں؟کیا حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ جو اس حدیث کی دلیل اس آیت کو بتاتے ہیں تو خود ان کا اور باقی صحابہ کرامؓ کا  حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ ہونے اور قرب قیامت آسمان سے نزول ہونے پر ایمان تھا یا نہیں؟

مذکورہ بالا حدیث کو مرزا قادیانی نے اپنی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ کے صفحہ 201 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 198 پر نقل کیا ہے۔ اس حدیث مبارکہ میں حضور نبی کریمصلی اﷲ علیہ وسلم  فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم، عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے۔ اس کے مقابلہ میں مرزا قادیانی کہتا ہے کہ ’’ابن مریم مر گیا حق کی قسم‘‘! (ازالہ اوہام صفحہ 413 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 513 از مرزا قادیانی) یعنی ایک ہی شخصیت کے متعلق حضور صلی اﷲ علیہ وسلم  فرماتے ہیں: کہ وہ نازل ہوں گے (زندہ ہیں) جبکہ مرزا قادیانی کہتا ہے کہ وہ مر گئے ہیں، نازل نہیں ہوں گے۔ اب خود فیصلہ کریں کہ کس کی قسم سچی ہے، حضور خاتم النبیین علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یا ملعون آنجہانی مرزا قادیانی کی؟

مرزا قادیانی کی زبان درازی اور شقاوت قلبی دیکھیے کہ اس نے مذکورہ حدیث کے راوی حضرت ابوہریرہؓ کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات و نزول کے بارے میں تشریح کا نہ صرف بُرا منایا بلکہ حضرت ابو ہریرہؓ کے متعلق ایسی ہرزہ سرائی کی کہ عبداللہ بن سبا کو بھی شرمندہ کرگیا۔

-1جیسا کہ ابوہریرہ ؓ غبی تھا اور درایت اچھی نہیں رکھتا تھا۔(اعجاز احمدی صفحہ 18 مندرجہ روحانی خزائن جلد19صفحہ127 از مرزا قادیانی)     -2جو شخص قرآن شریف پر ایمان لاتا ہے اس کوچاہیے کہ ابوہریرہ کے قول کو ایک ردی متاع کی طرح پھینک دے۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص410 روحانی خزائن جلد21ص410 از مرزا قادیانی)   -3 اکثر باتوں میں ابوہریرہ بوجہ اپنی سادگی اور کمی درایت کے ایسے دھوکوں میں پڑ جایا کرتا تھا۔ چنانچہ ایک صحابی کے آگ میں پڑ جانے کی پیشگوئی میں بھی اس کو یہی دھوکہ لگا تھا اور آیت و ان من اھل الکتب الا لیومنن بہ قبل موتہ کے ایسے الٹے معنی کرتا تھا جس سے سننے والے کو ہنسی آتی تھی۔ (حقیقۃ الوحی صفحہ 34 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 36 از مرزا قادیانی)