Language:

قادیانیوں سےمکمل بائیکاٹ پر بریلوی متکبہ فکر کا موقف حصہ دوم

خدا تعالیٰ ان پاک روحوں پر لاکھوں، کروڑوں، اربوں، کھربوں رحمتیں نازل فرمائے، جنھوں نے امت کو عشق مصطفیٰ کا درس دیا اور یہ ثابت کر دیا کہ ناموس مصطفیٰ کے سامنے سب ہیچ ہیں۔ حضور رحمت دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی عزت و عظمت کے سامنے نہ کسی استاد کی عزت ہے نہ کسی پیر کا تقدس رہ جاتا ہے نہ ماں باپ کا وقار نہ بیوی بچوں کی محبت آڑے آتی ہے نہ مال و دولت ہی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ سبحان من کتب الایمان فی قلوب المومنین وایدھم بروح منہ۔

صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے عشق و محبت ہی کی بنا پر خدا تعالیٰ نے ان کے جذبات کی تعریف فرمائی ہے اشداء علی الکفار رحماء بینھم (الفتح ۲۹)یعنی وہ کافروں دشمنوں پر بڑے ہی سخت ہیں اور آپس میں رحم دل ہیں۔ بلکہ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خدا اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی اور شدت کی مقدار پر ہی عشق ومحبت کا نکھار ہوتاہے جو شخص محبت کا دعویٰ تو کرے لیکن محبوب کے دشمنوں کے ساتھ بغض وعدات نہ رکھے وہ محبت میں سچا نہیں ہے وہ محبت محبت ہی نہیں ہے بلکہ وہ بر بریت ہے دھوکہ ہے فریب ہے الحاصل خدا تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے دوستوں کے ساتھ دوستی اور ان کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی افضل الاعمال ہیں۔ حدیث پاک میں ہے۔ افضل الاعمال الحب فی اللّٰہ والبغض فی اللّٰہ    (ابو داؤد شریف ج ۲ ص ۲۸۲ باب حجانبہ اھل الاھوأ)

یعنی عملوں میں سے افضل ترین عمل خداتعالیٰ کے دوستوں سے محبت کرنااور خداتعالیٰ کے دشمنوں سے دشمنی کرنا ہے۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم دربار الٰہی میں یوں دعا کرتے ہیں۔

’’یا اللہ! ہم کو ہدایت دہندہ ہدایت یافتہ کر،یا اللہ ہم کو گمراہ کرنے والا نہ کر ، یا اللہ ہم کو اپنے دوستوں کے ساتھ محبت و دوستی کرنے والا اور اپنے دشمنوں کے ساتھ دشمنی وعداوت رکھنے والا بنا۔ یا اللہ ہم تیری محبت کی وجہ سے تیرے دوستوں سے محبت کرتے ہیں اورتیرے دشمنوں کے ساتھ ان کی عداوت کی وجہ سے ہم ان سے عداوت رکھتے ہیں۔ یا اللہ یہ ہماری دعا ہے اسے قبول فرما۔ ‘‘ ۔(ترمذی شریف ج ۲ ص ۱۷۹ باب مایقول اذا قام من اللیل )

ان ارشادات عالیہ کو وہ مصلح کلی حضرات آنکھیں کھول کر دیکھیں جو لوگ بے سوچے سمجھے جھٹ کہہ دیتے ہیں کہ حضور تو کافروں کو بھی گلے لگاتے تھے۔ ان حضرات سے سوال ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے ارشاد مبارک یا ایھا النبی جاھد الکفار والمنٰفقین واغلظ علیھمط (التوبۃ ۷۳) کے مطابق حکم الہیٰ کی تعمیل کرتے تھے یا نہیں۔ ہر مسلمان کاایمان ہے کہ احکام خداوندی کی تکمیل سید دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی نہیں کرسکتا اور نہ کسی نے کی ہے۔ بنابریں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسجد نبوی شریف سے منافقوں کا نام لے لے کر نکال دیا۔ سیدنا ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے فرمایا۔

یعنی رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم جمعہ کے دن جب خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا اے فلاں تو منافق ہے لہٰذا مسجد سے نکل جا۔ اے فلاں تو بھی منافق ہے مسجد سے نکل جا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے کئی منافقوں کے نام لے کر نکالا اور ان کو سب کے سامنے رسوا کیا۔ اس جمعہ کو حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ ابھی مسجد شریف میں حاضر نہیں ہوئے تھے کسی کام کی وجہ سے دیر ہوگئی تھی جب وہ منافق مسجد سے نکل کر رسوا ہو کر جارہے تھے توفاروق اعظم رضی اﷲ عنہ شرم سے چھپ رہے تھے کہ مجھے دیر ہوگئی ہے، شاید جمعہ ہوگیا لیکن منافق فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ سے اپنی رسوائی کی وجہ سے چھپ رہے تھے پھر جب فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ مسجد میں داخل ہوئے تو ابھی جمعہ نہیں ہواتھا۔ بعد میں ایک صحابی رضی اﷲ عنہ نے کہا اے عمر رضی اﷲ عنہ تجھے خوشخبری ہو کہ آج خداتعالیٰ نے منافقوں کو رسوا کردیا ہے۔‘‘ (تفسیر روح المعانی ج ۱۱ ص ۱۰، تفسیر مظہری ج ۴ ص ۲۸۹، تفسیر ابن کثیرج۲ ص ۳۸۴ ، تفسیر خازن ج ۳ ص ۱۲۵  تفسیر بغوی علی الخازن ج ۳ ص ۱۱۵ تفسیر روح البیان ج ۳ ص ۴۹۳)

اور سیرت ابن ہشام میں عنوان قائم کیا ہے۔ طردالمنافقین من مسجد رسول اللّٰہ تعالی علیہ وسلم (سیرت ابن ہشام جلد1صفحہ528)اور اس کے تحت فرمایا کہ منافق لوگ مسجد میں آتے اور مسلمانوں کی باتیں سن کر ٹھٹھے کرتے ، دین کا مذاق اڑاتے تھے ایک دن کچھ منافق مسجد نبوی شریف میں اکٹھے بیٹھے تھے اور آہستہ آہستہ آپس میں باتیں کررہے تھے ایک دوسرے کے ساتھ قریب قریب بیٹھے تھے۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دیکھ کر کہا فامر بھم رسول اللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلم فأخرجوا من المسجد إخراجا عنیفا۔ (سیرت ابن ہشام جلد1صفحہ528) رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان منافقوں کو سختی سے نکال دیا جائے اس ارشاد پر حضرت ابوایوب رضی اﷲ عنہ ، خالد بن زیدرضی اﷲ عنہ اٹھ کھڑے ہوئے اور عمر بن قیس کو ٹانگ سے پکڑ کر گھسیٹتے گھسیٹتے مسجد سے باہر پھینک دیا۔ پھرحضرت ابوایوب رضی اﷲ عنہ نے رافع بن ودیعہ کو پکڑااس کے گلے میں چادر ڈال کر خوب بھینچا اور اس کے منہ پر طمانچہ مارا اور اس کو مسجد سے نکال دیا اورساتھ ساتھ حضرت ابوایوب رضی اﷲ عنہ فرماتے جاتے ۔ اف لک منافقا خبیثا (سیرت ابن ہشام جلد1صفحہ 528) ارے خبیث منافق تجھ پر افسوس ہے۔ اے منافق، رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی مسجد سے نکل جا اور ادھر حضرت عمارہ بن حزم رضی اﷲ عنہ نے زیدبن عمر کو داڑھی سے پکڑا زور سے کھینچا اور کھینچتے کھینچتے مسجد سے نکال دیا اور پھراس کے سینے پردونوں ہاتھوں سے تھپڑ مارا کہ وہ گرگیا اس منافق نے کہا اے عمارہ رضی اﷲ عنہ تو نے مجھے بہت عذاب دیا ہے۔ تو صحابی حضرت عمارہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا، خدا تجھے دفع کرے جو خدا تعالیٰ نے تیرے لئے عذاب تیار کیا ہے وہ اس سے بھی سخت ترہے۔ فلا تقربن مسجد رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وسلم (سیرت ابن ہشام جلد1صفحہ529) آئندہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مسجدکے قریب نہ آنا۔

اور بنو نجار قبیلہ کے دو صحابی ابو محمد رضی اﷲ عنہ جو کہ بدری صحابی تھے اورابو محمد مسعودرضی اﷲ عنہ نے قیس بن عمرو جو کہ منافقین میں سے نوجوان تھا گد ُی پر مارنا شروع کیاحتیٰ کہ مسجد سے باہر نکال دیا۔اور حضرت عبداللہ بن حارث رضی اﷲ عنہ نے جب سنا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے منافقوں کے نکال دینے کا حکم دیا ہے، حارث بن عمرکو سر کے بالوں سے پکڑ کر زمین پر گھسیٹتے گھسیٹتے مسجد سے باہر نکال دیا۔ وہ منافق کہتا تھا اے ابن حارث رضی اﷲ عنہ تو نے مجھ پربہت سختی کی ہے تو انہوں نے جواب میں فرمایا اے خدا کے دشمن تو اسی لائق ہے تو نجس ہے پلید ہے آئندہ مسجد کے قریب نہ آنا۔ ادھر ایک صحابی رضی اﷲ عنہ نے اپنے بھائی زری بن حارث کو سختی سے نکال کر فرمایا افسوس کہ تجھ پر شیطان کا تسلط ہے۔ (سیرت ابن ہشام جلد1صفحہ529)

نیز خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو ارشاد فرمایا کہ تم ابراہیم علیہ السلام کی پیروی میں خدا تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں سے ہمیشہ نفرت اور بیزاری رکھو، ارشاد ہے۔

  یعنی اے ایمان والو! تمہارے لئے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ماننے والوں میں اچھی پیروی ہے۔ جبکہ انہوںنے اپنی قوم سے فرمایا کہ ہم تم سے اور تمہارے بتوں سے بیزار ہیں ، ہم انکاری ہیں اور ہمارے تمہارے درمیان جب تک تم خدا وحدہ پر ایمان نہ لائو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دشمنی ٹھن گئی ہے۔  (سورۃ ممتحنہ4)

اور تفسیر روح المعانی میں حدیث قدسی منقول ہے۔  یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے میری عزت کی قسم جو شخص میرے دوستوں کے ساتھ دوستی نہیں کرتا اور میرے دشمنوں کے ساتھ دشمنی نہیں کرتا وہ میری رحمت حاصل نہیں کرسکتا۔ ‘‘ (صفحہ 35جز28)

اور درۃ الناصحین میں علامہ خوبویؒ نے ایک حدیث پاک ذکر کی ہے۔  یعنی رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف وحی بھیجی اے موسیٰ تو نے میرے لئے کبھی کوئی عمل کیا ہے۔ موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے عرض کی یا اللہ میں نے تیرے لئے نماز پڑھی خدا تعالیٰ نے فرمایا نماز تو تیرے لیے ہی برھان بنے گی۔ عرض کی یا اللہ میں نے تیرے لئے روزے رکھا۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ روزہ تو تیرے ہی لیے ڈھال بنے گا۔ پھر عرض کی میں نے تیرے لئے صدقہ دیا خدا تعالیٰ نے فرمایا صدقہ تو تیرے ہی لئے سایہ بنے گا۔ عرض کی میں نے تیرے لئے تیرا ذکر کیا۔ فرمایا اے موسیٰ ذکر تو تیرے ہی لئے نور ہوگا۔ بتا تو نے میرے لئے کون سا عمل کیا ہے موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی میرے پروردگار تو ہی بتا دے کہ وہ کونسا عمل ہے۔ جو تیرے لئے ہو۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا اے پیارے موسیٰ کیا تو نے میرے دوستوں کے ساتھ محبت و دوستی کی ہے اور کیا تو نے میرے دشمنوں کے ساتھ دشمنی کی ہے ۔ (درۃ الناصحین صفحہ210)پس معلوم ہوا کہ اعمال میں سب سے بہترین عمل اللہ کے نزدیک اللہ ہی کے واسطے کسی سے محبت کرنا اور اللہ ہی کے لیے کسی سے دشمنی کرنا ہے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ ایک ولی اللہ کے ساتھ پیش آیا۔ جیسا کہ تفسیر روح البیان جلد4صفحہ378پر ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کے دربار میں خدا تعالیٰ کے دوستوں کے ساتھ محبت کرنا جتنا مقبول محبوب عمل ہے۔ اتنا ہی خدا تعالیٰ کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی و عداوت رکھنا مقبول و محبوب عمل ہے نیز خدا تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت اور ان کے دشمنوں گستاخوں کی محبت آپس میں ضدیں ہیں یہ دونوں بیک وقت ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتیں۔

مخدوم الاولیاء سیدنا امام ربانی خواجہ مجدد الف ثانی سرہندی قدس سرہ نے فرمایا۔دو محبت متابنیہ جمعہ نشوند جمع ضدین را محال گفتہ اند محبت یکے  مستلزم عداوت ودیگر بست۔ (مکتوبات امام ربانی مکتوب نمبر165 جلد اول)  یعنی دو محبتیں جو ایک دوسرے سے ضد ہوں ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتیں کیونکہ اجتماع ضدیں محال ہے اگر خدا تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی دل میں محبت ہوگی۔ توخدا اور اس کے رسول کے دشمنوں کی محبت دل میں نہیں آسکتی خدا تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں کی جتنی محبت و دوستی دل میں آئے گی تو خدا اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت اتنی ہی کم ہوجائے گی۔ نیز فرمایا وعلامت کمال محبت کمال بغض است بااعداء او صلی اللہ علیہ وسلم (مکتوبات امام ربانی مکتوب نمبر165 جلد اول) یعنی تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کمالِ محبت کی یہ علامت ہے کہ سید دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ کمال بغض و عداوت ہو۔ نیز فرمایا  وباکفار کہ دشمنان خدائے عزوجل ودشمنانِ رسول و ے علیہ وعلیٰ آلہ الصلوۃ اوالتسلیمات دشمن بایدبو دودر ذل وخواری ایشاں سعی باید نمود ہیچ وجہ عزت نباید داد واین بدولتاں رادر مجلس خودراہ نباید۔

یعنی کافروں کے ساتھ جو کہ خدا تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب کے دشمن ہیں دشمنی رکھنی چاہیے اور ان کو ذلیل و خوار کرنے میں کوشش کرنی چاہیے اور کسی طرح ان کی عزت نہیں کرنی چاہیے۔ اور ان بدبختوں کو اپنی مجلس میں نہیں آنے دینا چاہیے۔نیز فرمایا، دررنگ سگاں ایشآن رادور بایدداشت (مکتوب جلد1صفحہ163) یعنی خدا اور اس کے رسول کے دشمنوں کو کتوں کی طرح دور رکھنا چاہیے۔ نیز فرمایا، پس عزت اسلام درخواری کفر و اہل کفر است کسیکہ اہل کفر راعزیز داشت اہل اسلام راخوار ساخت۔ (مکتوب جلد1 صفحہ 163) یعنی اسلام کی عزت اسی میں ہے کہ کفر وکفار کو ذلیل و خوار کیا جائے جو شخص کفر والوں کی عزت کرتا ہے وہ حقیقت میں مسلمانوں کو ذلیل کرتا ہے۔

نیز سیدامام ربانیؓ نے فرمایا’’راہیکہ بجناب قدس جد بزرگوار شما علیہ وعلی آلہ الصلوت والتسلمیات  میر ساند اگر بااین راہ رافتہ نشود وصول بآنجناب قدس دشواراست۔‘‘

یعنی رسول اکرم شفیع معظم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بارگاہ تک لے جانے والا یہی ایک راستہ ہے(کہ ان کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی رکھی جائے) اگر اس راستہ کو چھوڑ دیا جائے تو اس دربار تک رسائی مشکل ہے۔

اور یہ بھی مسلم کہ سید اکرم نور مجسم فخر آدم صلی اﷲ علیہ وسلم تک رسائی ہی دین ہے۔ ڈاکٹر سراقبال مرحوم نے کیا خوب کہا ہے۔

                                    بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست

                                                    اگر باو نرسیدی تمام بولبہی ست

یعنی تو اپنے آپ کو مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم  کے مبارک قدموں تک پہنچا دے اور اگر تو ان تک نہ پہنچ سکا تو تیرا سب کچھ ہی ابو لہب ہے۔                         (جاری ہے)