Language:

کادیانیت اور عقل

 مرزا قادیانی اور عقل کی شروع سے آپس میں لڑائی رہی مگر جب مرزا نے دعویٰ نبوت کیا تو قادنیوں اور عقل میں زبردست جنگ چھڑگئی۔ آخر دونوں فریق ایک دانا کے پاس پہنچے۔ دانا نے فریقین کے دلائل غورو توجہ سے سنے اور فیصلہ صادر فرمایا کہ آج کے بعد عقل قادیانیوں کے پاس نہیں جائے گی اور قادیانی عقل کے پاس نہیں جائیں گے۔ فریقین نے فیصلے کو بخوشی تسلیم کیا اور تاحیات اس فیصلے پر کار بند رہنے کا اعلان کردیا ۔ اس کے بعد عقل قادیانی دماغوں سے پرواز کر گئی اور قادیانی دماغ سمجھ بوجھ سے بانجھ ہوگئے۔ اور ابھی تک دونوں فریقین اپنے اپنے عہد پر قائم ہیں۔ یہ بات اپنے دامن میں ہزاروں دلائل رکھتی ہے۔مگر اختصار کے قانون کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم یہاں بطور نمونہ قادیانی نبی مرزا قادیانی کے دماغ کو پیش کرتے ہیں۔ ارسطو نے کہا تھا کہ اگر دریا کا پانی میٹھا ہو تونہروں کا پانی بھی میٹھا ہوتا ہے اور اگر دریا کا پانی کڑوا ہو تو نہروں کا پانی بھی کڑوا ہوتا ہے۔ لہٰذا ہم نہروں کی بجائے‘ کفرو ارتداد کے قادیانی دریا کا متعفن اور کالا پانی چیک کرتے ہیں۔ لیجئے قادیانی دریا (مرزا قادیانی) سے نکالے گئے چند ڈول بطور مشاہدہ تجربہ حاضر ہیں!
-01آگ:۔ ’’ ایک دفعہ میرے دامن کو آگ لگ گئی تھی۔ مجھے خبر بھی نہ ہوئی اور ایک شخص نے دیکھ اور بتلایا اور آگ کو بجھا دیا۔‘‘افیون کے کرشمے (ناقل) (سیرت المہدی حصہ اول ص 236 از مرزا بشیر احمد قادیانی ابن مرزا قادیانی)
-02نمک اور چینی : ۔ ’’ بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے ایک دفعہ حضرت صاحب سناتے تھے کہ جب میں بچہ ہوتا تھا۔ تو ایک دفعہ بعض بچوں نے مجھے کہا کہ جاؤ گھر سے میٹھا لاؤ۔ میں گھر میں آیا اور بغیر کسی کے پوچھنے کیے ایک برتن میں سے سفید بور ا اپنی جیبوں میں بھر کر باہر لے گیا اور راستہ میں ایک مٹھی بھر کر منہ میں ڈال لی ۔ بس پھر کیا تھا۔ میرا دم رک گیا اور بڑی تکلیف ہوئی۔ کیونکہ معلوم ہوا کہ جسے میں نے سفید بورا سمجھ کر جیبوں میں بھرا تھا وہ بورا نہ تھا بلکہ پسا ہوا نمک تھا۔‘‘ ذہانت کے آثار بچپن سے ہی نمایاں ہونے شروع ہوگئے تھے؟ (ناقل) (سیرت المہدی حصہ اول ص 244 مولفہ مرزا بشیر احمد قادیانی)
-03خوش خورا کی:۔ ’’ بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ بعض بوڑھی عورتوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ بچپن میں حضرت صاحب نے اپنی والدہ سے روٹی کیساتھ کچھ کھانے کو مانگا۔ انہوں نے کوئی چیز شاید گڑبتایا کہ یہ لے لو۔ حضرت نے کہا نہیں یہ میں نہیں لیتا۔ انہوں نے کوئی اور چیز بتائی۔ حضرت صاحب نے اس پر بھی وہی جواب دیا۔ وہ اس وقت کسی بات پر چڑی ہوئی بیٹھی تھیں۔ سختی سے کہنے لگیں۔ کہ جاؤ پھر راکھ سے روٹی کھالو۔ حضرت صاحب روٹی پر راکھ ڈال کر بیٹھ گئے اورگھر میں ایک لطیفہ ہوگیا۔ یہ حضرت صاحب کا بالکل بچپن کا واقعہ ہے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ والدہ صاحبہ نے یہ واقعہ سنا کر کہا کہ جسوقت اس عورت نے مجھے یہ بات سنائی تھی۔ اسوقت حضرت صاحب بھی پاس تھے۔ مگر آپ خاموش رہے۔ ‘‘( ہائے کاش ماں کہہ دیتی کہ جاؤ جا کر نیلے تھوتھے سے کھالو اور مرزا قادیانی نیلا تھوتھا کھاکر ہلاک ہوجاتا تو لاکھوں لوگ مرتد ہونے سے بچ جاتے)
(سیرۃ المہدی حصہ اول ص 245 مصنفہ مرزا بشیر احمد قادیانی)
-04یاد داشت:۔’’ بیان کیا مجھ سے مولوی ذوالفقار علی خان صاحب نے کہ جن دنوں میں گوردا سپور میں کرم دین کا مقدمہ تھا ۔۔۔۔۔اور مولوی صاحب کے ہاتھ میں اس وقت حضرت صاحب کی چھڑی تھی۔ حضرت صاحب دعا کرکے باہر نکلے تو مولوی صاحب نے آپ کو چھڑی دی۔ حضرت صاحب نے چھڑی ہاتھ میں لیکر اسے دیکھا اور فرمایا کس کی چھڑی ہے؟ عرض کیا گیا کہ حضور ہی کی ہے جو حضور اپنے ہاتھ میں رکھا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ اچھا میں تو سمجھا تھا کہ یہ میری نہیں ہے۔ خان صاحب کہتے ہیں کہ وہ چھڑی مدت سے آپ کے ہاتھ میں رہتی تھی۔ ‘‘ (سیرت المہدی حصہ اول 245مصنفہ مرزا بشیراحمد قادیانی )
-05ہنر مندی:۔ ’’ ایک دفعہ گھر میں ایک مرغی کے چوزبہ ذبح کرنے کی ضرورت پیش آئی ۔۔۔۔۔ اس لئے حضرت صاحب اس چوزے کو ہاتھ میں لیکر خوذ ذبح کرنے لگے۔ مگربجائے چوزہ کی گردن پر چھری پھیرنے کے غلطی سے اپنی انگلی کاٹ ڈالی جس سے بہت خون گیا۔ ‘‘ (سیرت المہدی حصہ دوم ص4مصنفہ مرزا بشیر احمد قادیانی)
خوش لباس:۔ ’’ شیخ رحمت اللہ صاحب یا دیگر احباب اچھے اچھے کپڑے کو کوٹ بنوا کر لایا کرتے تھے۔ حضور کبھی تیل سرمبارک میں لگاتے تو تیل والا ہاتھ سر مبارک اور داڑھی مبارک سے ہوتا ہوا بعض اوقات سینہ تک چلا جاتا ۔ جس سے قیمتی کوٹ پر دھبے پڑجاتے۔ (اخبار الحکم قادیان جلد ۳۸ نمبر ۶ مورخہ ۲ فروری ۱۹۳۵ئ)
-06فصاحت:۔ ’’ حضرت مسیح موعود کو زبان میں کسی قدر لکنت تھی اور آپ پر نالے کو پنالہ فرمایا کرتے تھے‘‘۔ (سیرت المہدی حصہ دوم ص 25 مرزا بشیر احمد قادیانی )
-07گھڑی اور وقت:۔ ’’ بیان کیا مجھ سے عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ کسی شخص نے حضرت صاحب کو ایک جیبی گھڑی تحفہ دی۔ حضرت صاحب اس کو رومال میں باندھ کر جیب میں رکھتے تھے زنجیر نہیں لگاتے تھے اور جب وقت دیکھنا ہوتا تھا تو گھڑی نکال کر ایک کے ہند سے یعنی عدد سے گن کر پتہ لگاتے تھے اور انگلی رکھ رکھ کر ہندسہ گنتے تھے اور منہ سے بھی گنتے جاتے تھے۔ ‘‘( پانچویں جماعت کا بچہ گھڑی پر ایک نظر ڈالتے ہی وقت معلوم کرلیتا ہے :ناقل)(سیرت المہدی حصہ اول ص ۱۶۲ صاحبزادہ بشیر احمد قادیانی)
-08عقل کا نوحہ:۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جسمانی عادات میں ایسے سادہ تھے کہ بعض دفعہ جب حضور جراب پہنتے تھے تو بے تو جہی کے عالم میں اس کی ایڑی پاؤں کے تلے کی طرف نہیں بلکہ اوپر کی طرف ہوجاتی تھی اور بارہا ایک کاج کا بٹن دوسرے کاج میں لگا ہوا ہوتا تھا اور بعض اوقات کوئی دوست حضور کے لئے گر گابی ہدیتہ لاتا تو آپ بسا اوقات دایاں پاؤں بائیں میں ڈال لیتے تھے اور بایاں دائیں میں ۔۔۔کھانا کھانے کا یہ حال تھا کہ خود فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں تو اس وقت پتہ لگتا ہے کہ کیا کھارہے ہیں کہ جب کھاتے کھاتے کوئی کنکر وغیرہ کا ریزہ دانت کے نیچے آجاتا ہے۔ (سیرت المہدی حصہ دوم ص ۵۸ مصنفہ مرزا بشیر احمد قادیانی)
-09حاضر دماغی:۔ ’’ بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ سیر کو جاتے ہوئے آپ کسی خادم کا ذکر غائب کے صیغہ میں فرماتے تھے حالانکہ وہ آپ کے ساتھ ساتھ جارہا ہوتا تھا اور پھر کسی کے جتلانے پر آپ کو پتہ چلتا تھا کہ وہ شخص آپ کے ساتھ ہے۔ ‘‘ (سیرت المہدی حصہد وم ص 77 مصنفہ مرزا بشیر احمد قادیانی)
-10فیشن:۔ صدری گھر میں اکثر پہنے رہتے مگر کوٹ عموماً باہر جاتے وقت ہی پہنتے اور سردی کی زیادتی کے دنوں میں اوپر تلے دو دو کوٹ بھی پہنا کرتے۔’’ درفٹے منہ‘‘ (ناقل) (سیرت المہدی حصہ دوم ص 127مصنفہ مرزا بشیر الدین قادیانی)
-11پابندی وقت:۔ ’’ گھڑی بھی آپ ضرور اپنے پاس رکھا کرتے مگر اسکے چابی دینے میں چونک اکثر ناغہ ہوجاتا۔ اس لئے اکثر وقت غلط ہی ہوتا تھا اور چونکہ گھڑی جیب میں سے اکثر نکل پڑتی اس لئے آپ اسے بھی رومال میں باندھ لیا کرتے ۔ ‘‘ (سیرت المہدی حصہ دوم ص127 مصنفہ مرزا بشیر ااحمد قادیانی)
ننگا پاؤں:۔ ’’ ایک مرتبہ مرزا صاحب اور سید محمد علی شاہ تلاش روز گار کے خیال سے قادیان سے چلے ۔ کلا نور کے قریب ایک نالے سے گزرتے ہوئے مرزا صاحب کی جوتی کا ایک پاؤں نکل گیا۔ مگر اس وقت تک انہیں معلوم نہ ہوا جب تک وہاں سے بہت دور جا کر یاد نہیں کرایا گیا۔ ‘‘ (حیات النبی جلد اول ص ۵۸ مولفہ یعقوب علی قادیانی)
-12بٹن اور کاج:۔ ’’ بارہا دیکھا گیا کہ بٹن اپنا کاج چھوڑ کر دوسرے ہی میں لگے ہوئے ہوتے تھے۔ بلکہ صد ری کے بٹن کوٹ کاجوں میں لگائے ہوئے دیکھے گئے۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ دوم ص 126مصنفہ مرزا بشیر احمد قادیانی)
-13انوکھاانداز ’’ بعض دفعہ دیکھا گیا کہ آپ صرف روکھی روٹی کا نوالہ منہ میں ڈال لیا کرتے تھے اور پھر انگلی کا سرا شوربے میں ترکرکے زبان سے چھوا دیا کرتے تاکہ لقمہ نمکین ہوجاوے۔‘‘ تالیاں ………… (ناقل) (سیرت المہدی حصہ دوم ص 131 مصنفہ مرزا بشیر احمد قادیانی)
-14کیا کھایاـ؟:۔ ’’ بار ہا آپ نے فرمایا کہ ہمیں تو کھانا کھا کر یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ کیا پکا تھا۔ اور ہم نے کیا کھایا ‘‘ (سیرت المہدی حصہ دوم ص 131 مرزا بشیر احمد قادیانی)
-15جرابیں:۔ ’’چنانچہ پچھلی عمر میں بارہ مہینے گرم کپڑے پہنا کرتے تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب بالعموم گرمی میں بھی جراب پہنے رکھتے تھے۔‘‘( اور نہاتے تو سارا سال ہی نہیں ہوں گے اور کتنی بدبو آتی ہوگی۔ اف :ناقل) (سیرت المہدی حصہ سوم ص 66مصنفہ مرزا بشیر احمد قادیانی)
-16چابیاں:۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاجاموں میں میں نے اکثر ریشمی ازار بند پڑا ہوا دیکھا ہے اور آزاد بند میں کنجیوں کا گچھا بندھا ہوتا تھا۔(چال کے ساتھ چھن چھن کی آواز کیاسماں باندھتی ہوگی) (سیرت المہدی حصہ سوم ص110 مصنفہ مرزا بشیر احمد قادیانی)
-17بھاگ گیا:۔ ’’ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سیبیان کیا کہ ایک دفعہ مسجد میں نماز ظہر یا عصر شروع ہوچکی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام درمیان میں سے نماز توڑ کر کھڑکی کے راستہ گھر میں تشریف لے گئے اور پھر وضو کرکے نماز میں آملے اور جو حصہ نماز کا رہ گیا تھا وہ وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد پورا کیا۔ یہ معلوم نہیں کہ حضور بھول کر بے وضو آگئے تھے یا رفع حاجت کے لئے گئے تھے۔ ‘‘ (سیرت المہدی حصہ سوم ص267 مصنفہ مرزا بشیر احمد قادیانی)
-18تیل:۔ ’’ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد میں آپ کی لڑکی عصمت ہی صرف ایسی تھی جو قادیان سے باہر پیدا ہوئی اور باہر ہی فوت ہوئی۔ اس کی پیدائش انبالہ چھاؤنی کی تھی اور فوت وہ لدھیانہ میں ہوئی۔ اسے ہیضہ ہوا تھا۔ اس لڑکی کو شربت پینے کی عادت پڑ گئی تھی۔۔۔۔۔۔ رات کو وہ اٹھتی تو
کہتی۔ ابا شربت پینا ہے۔ آپ فوراً ٹھکر شربت بنا کر اسے پلا دیا کرتے تھے۔ ایک روز لدھیانہ میں اس نے اسی طرح رات کو اٹھ کر شربت مانگا۔ حضرت صاحب نے اسے شربت کی جگہ چنبیلی کا تیل پلا دیا۔ جس کی بوتل اتفاقاً شربت کی بوتل کے پاس ہی پڑی ہوئی تھی۔ ‘‘ (سیرت المہدی حصہ سوم ص 259مصنفہ مرزا بشیر احمد قادیانی) قادیانیو! یہ تمہاری کتابوں میںسے چند حوالے دئیے گئے ہیں جو اپنی زبان سے پکار پکار کر تمہیں مرزا قادیانی کی دماغی حالت سے آشنا کررہے ہیں۔ اے گم کردہ راہ لوگو! جو شخص پاگل خانے کا حقدار تھا تم نے اسے تخت نبوت پہ بٹھا دیا۔ جو کسی دفتر میں چپڑاسی رکھے جانے کے قابل نہیں تھا تم نے اسے نبی بنالیا۔ارتداد کے تپتے ہوئے صحرا میں بھٹکنے والو! ذرا آنکھوں سے تعصب ہٹ دھرمی کی دبیز پٹی اتار دو۔ حق کی آواز نہ سننے کے لئے کانوں میں ٹھونسی ہوئی روئی نکال دو اور سروں کو ایک زور دار جھٹکا دے کر دماغوں پر لگے ہوئے کفر کے زنگ آلود تالے توڑ دو اور پھر سوچو کہ!کیا مرزا فاتر العقل نہیں؟کیا مرزا مخبوط الحواس نہیں؟کیا مرزا کوڑھ دماغ نہیں؟ تم نے اس جاہل مطلق‘ فاتر العقل اور مخبوط الحواس کو نبی مان لیا جو ایک متوازی انسان بھی کہلانے کا مستحق نہیں اور اس کا دامن دنیا کی ہر ہر برائی سے داغدار ہے۔ قفس ارتداد کے اسیرو! عقیدہ ختم نبوت کوبازیچہ اطفا ل نہ سمجھو‘ یہی وہ عقیدہ ہے جس پر تمہاری آئندہ آنے والی لا متناہی زندگی کا انحصار ہے۔ مرزا قادیانی کو نبی ماننا جرم عظیم ہے۔ جس کی سزا سدا جہنم کا عذاب ہے۔