Language:

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین

ارشاد باری تعالیٰ ہے”اے میرے محبوب(صلی اللہ علیہ وسلم )جہاں جہاں میرا ذکر ہوگا وہاں وہاں میرے ساتھ تمھارا بھی ذکر ہوگا”کرہ ارض پر ایک سیکنڈ بھی ایسا نہیں گزرتا جب سینکڑوں ہزاروںمئوذن اللہ تعالیٰ کی توحید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعلان نہ کرتے ہوں اور یہ سلسلہ قیامت تک اسی طرح جاری رہے گا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا”اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میری روح کو پیدا فرمایااور پھر تمام مخلوق کو پیدا فرمایا اور فرمایا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں افلاک کو پیدا نہ فرماتا اگر آپ صلی اللہ تعالی وسلم نہ ہوتے تو میں اپنی ربویت کو ظاہر نہ کرتا”۔ مقام نبوت و رسالت کی عظمت و رفعت اور بلند ی مرتبہ کی گواہی کائنات کا ذرہ ذرہ دے رہا ہے۔کائنات کے ہر گوشے میں ذکرِ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔جہاں تک خالق کل کی بادشاہت ہے وہاں تک تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و رحمت ہے۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوقات سے افضل واحسن اور تمام رسولوں کے تاجدار ہیں ۔حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں فرماتے ہیں”کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچھا کسی آنکھ نے آج تک دیکھا نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خوبصورت کسی ماں نے آج تک جنا نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام عیبوں سے پاک پیدا کیا گیاگویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے پیدا کیا گیا جیسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا”۔اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کے حسن کو درجہ کمال تک پہنچایا اور اپنی محبت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو منتخب فرمایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حسن و جمال اور مردانہ وجاہت کی جو دولت عطا ہوئی وہ دنیا میں کسی نبی یا دوسرے بشر کے حصے میں نہیں آئی۔اور اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کو پانے کا واحد ذریعہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کا بیان ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و کمالات کا اظہار ممکن ہی نہیں کیونکہ مخلوق میں کوئی بھی نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا علم رکھتا ہے اور نہ مرتبہ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف اور تعارف صرف اللہ تعالیٰ ہی کر سکتے ہیں۔بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کہا گیا اور سچ یہ ہے کہ اس سے بڑھ کر آپ کے مقام رفیع کا بیان ممکن نہیں۔
مرزا قادیانی کی زبان یہودونصاری کی تلو ارسے زیادہ خطرناک اور بچھوو سانپ کے ڈنک سے زیادہ زہر یلی تھی ۔یہ بناسپتی نبی اپنے پھٹے ہوئے کفر یہ منہ اور لچرو آوارہ قلم سے ذلت کی موت تک گستاخیوں کے انگارے اگلتارہا اور اپنے بے لگام اور گستاخ قلم سے اس محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم ، رسول اکرمۖ اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق وہ وہ دلخراش عبارتیں لکھتا رہا کہ جن کو زبان بیان کرنے سے قاصر ہے۔ اس ازلی بدبخت نے ایسی جسارت کی جو کہ ابلیس لعین بھی نہ کر سکا۔ افسوس یہ ہے کہ اب تک بعض بدقسمت اس مردود ازلی سے اپنی عقیدتوں کا رشتہ جوڑے بیٹھے ہیں۔ ذیل میںمرتد و زندیق اعظم مرزا قادیانی کی گستاخیو ں اورہر زہ سرائیو ں کے چندحوالے پیش کئے جاتے ہیںجنہیں لکھتے ہو ئے قلم رخصت چاہتاہے لیکن ”چہر ہ قادیانیت ”امت مسلمہ کودکھانااسلام کی ضرورت کاتقاضاہے لہذ انقل کفرکفر نہ باشد ۔ہم اس کفر کو دل پر پتھر رکھ کر نقل کردیتے ہیں۔
(1) ”جو شخص مجھ میں اور مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم میں تفریق کرتا ہے، اس نے مجھے نہیں دیکھا ہے اور نہیں پہچانا ہے۔”

 ( روحانی خزائن جلد16صفحہ258 از مرزاقادیانی)

2) ” مسیح موعودخود محمد رسول اللہ ہے۔ جو اشاعت اسلام کے لئے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے۔ اس لئے ہم کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں، ہاں اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرورت پیش آتی۔”(نوٹ: مرزائی مرزا قادیانی کو مسیح موعود کہتے ہیں)

(کلمة الفضل صفحہ158، از مرزا بشیر احمد ایم اے ا بن مرزا قادیانی)

3)     محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شاں میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں                                         (اخبار بدر قادیان 25اکتوبر 1906)
مرزا قادیانی نے قاضی ظہور الدین اکمل کی نظم پڑھ کر بے حد خوشی کا اظہار کیا اور اسے اپنے ساتھ گھر لے گیا۔ ملعون قاضی اکمل 22 اگست 1944ء کے الفضل میں لکھتا ہے:
(4 ”وہ اس نظم کا ایک حصہ ہے جو حضرت مسیح موعود کے حضور میں پڑھی گئی اور خوش خط لکھے ہوئے قطعے کی صورت میں پیش کی گئی اور حضور اُسے اپنے ساتھ اندر لے گئے۔ اس وقت کسی نے اس شعر پر اعتراض نہ کیا، حالانکہ مولوی محمد علی صاحب (امیر جماعت لاہور) اور اَعْوانُھُم موجود تھے اور جہاں تک حافظہ مدد کرتا ہے، بوثوق کہا جا سکتا ہے کہ سن رہے تھے اور اگر وہ اس سے بوجہ مرور زمانہ انکار کریں تو یہ نظم ”بدر” میں چھپی اور شائع ہوئی۔ اس وقت ”بدر” کی پوزیشن وہی تھی بلکہ اس سے کچھ بڑھ کر جو اس عہد میں ”الفضل” کی ہے حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر سے ان لوگوں کے محبانہ اور بے تکلفانہ تعلقات تھے۔ وہ خدا کے فضل سے زندہ موجود ہیں ان سے پوچھ لیں اور خود کہہ دیں کہ آیا آپ میں سے کسی نے بھی اس پر ناراضی یا ناپسندگی کا اظہار کیا اور حضرت مسیح موعود کا شرف سماعت حاصل کرنے اور جزاک اللہ تعالیٰ کا صلہ پانے اور اس قطعے کو اندر خود لے جانے کے بعد کسی کو حق ہی کیا پہنچتا تھا کہ اس پر اعتراض کر کے اپنی کمزوری ایمان اور قلت عرفان کا ثبوت دیتا۔”                                                            (الفضل قادیان، مؤرخہ 22 اگست 1944ء جلد 32، نمبر 196، صفحہ 6 کالم 1)
اس سے واضح ہے کہ یہ محض شاعرانہ مبالغہ آرائی نہ تھی، بلکہ ایک مذہبی عقیدہ تھا۔ جس کی مرزا قادیانی نے بذات خود نہ صرف تصدیق بلکہ تحسین کی تھی۔
5) ” آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھا لیتے تھے حالانکہ مشہور تھا کہ سور کی چربی اس میں پڑتی ہے۔”                                                                                                         (مرزا قادیانی کا مکتوب، اخبار الفضل قادیان22فروری1924ئ)
6) خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے چھپانے کے لیے ایک ایسی ذلیل جگہ تجویز کی جو نہایت متعفن اور تنگ اور تاریک اور حشرات الارض کی نجاست کی جگہ تھی۔”                          (تحفہ گولڑویہ صفحہ 112(حاشیہ) مندرجہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 205 از مرزا قادیانی)
7) “میں آدم ہوں، میں نوح ہوں، میں ابراہیم ہوںمیں اسحاق ہوں، میں یعقوب ہوں، میں اسمعیل ہوں، میں موسیٰ ہوں، میں دائود ہوں، میں عیسیٰ ابن مریم ہوں، میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔                           (تتمہ حقیقت الوحی صفحہ521، مندرجہ روحانی خزائن جلد22 صفحہ521ازمرزا قادیانی)
8) حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”نبوت کے محل کی آخری اینٹ میں ہوںاور میں ہی نبیوں کا (سلسلہ) ختم کرنے والا ہوں۔” (بخاری، مسلم) جبکہ مرزا قادیانی نے اس کے جواب میں کہا:” پس خدا نے ارادہ فرمایا کہ اس پیش گوئی کو پورا کرے اور آخری اینٹ کے ساتھ بنا کو کمال تک پہنچا دے۔ پس میں وہی اینٹ ہوں۔”                     (خطبہ الہامیہ صفحہ178، مندرجہ روحانی خزائن جلد 16صفحہ178 از مرزا قادیانی)
9)        “روضہ آدم کہ تھا وہ نامکمل اب تلک

                     میرے آنے سے ہوا کامل بجملہ برگ و بار

(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص 114، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 144، از مرزا قادیانی)

10) لولاک لما خلقت الافلاک۔                                                            (تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات صفحہ 525، طبع چہارم، از مرزا قادیانی)
سب جانتے ہیں کہ یہ حدیث قدسی ہے اور اس کے مصداق صرف اور صرف حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں جبکہ ملعون مرزا قادیانی اس حدیث کو اپنے اوپر منطبق کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مرزا قادیانی کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ اے مرزا اگر میں تجھے پیدا نہ کرتا تو آسمان و زمین اور جو کچھ اس میں ہے، کچھ پیدا نہ کرتا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں جس قدر انبیائے کرام اور اولیائے عظام تشریف لائے اور انھیں مراتب عالیہ عنایت ہوئے، یہ سب مرزا قادیانی کے طفیل سے ہوا۔ (نعوذ باللہ)
11) ” پھر اس کتاب میں اس مکالمہ کے قریب ہی یہ وحی اللہ ہے محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینہم اس وحی الہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی۔”                                    (ایک غلطی کا ازالہ صفحہ4، مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 207از مرزا قادیانی)
12) ” خدا تعالیٰ نے آج سے چھبیس برس پہلے میرا نام براہین احمدیہ میں محمد اور احمد رکھا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز مجھے قرار دیا ہے۔”                                                             (حقیقة الوحی تتمہ صفحہ67،مندرجہ روحانی خزائن جلد 22، صفحہ502 از مرزقادیانی)
13) ” میں بارہا بتلا چکا ہوں کہ میں بموجب آیت و آخرین منہم لما یلحقوبھم بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں اور خد ا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں ، میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے۔ اور مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی وجود قرار دیا ہے۔ پس اس طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا۔”

            (ایک غلطی کا ازالہ صفحہ10، مندرجہ روحانی خزائن جلد 18، صفحہ212 از مرزا قادیانی)

14) “ہر ایک نبی کو اپنی استعداد اور کام کے مطابق کمالات عطا ہوتے تھے کسی کو بہت، کسی کوکم۔ مگر مسیح موعود کو تو تب نبوت ملی جب اس نے نبوت محمدیہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے تمام کمالات کو حاصل کر لیا اور اس قابل ہوگیا کہ ظلی نبی کہلائے پس ظِلی نبوت نے مسیح موعود کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹایا بلکہ آگے بڑھایا اور اس قدر آگے بڑھایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے پہلو بہ پہلو لا کھڑا کیا۔”

(کلمة الفصل صفحہ113، از مرزا بشیر احمد ایم اے ابن مرزا قادیانی )

(15 ”اور چونکہ میں ظلی طور پر محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہوں پس اس طور سے خاتم النبیین کی مہر نہیں ٹوٹی۔ کیونکہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت محمدۖ تک ہی محدود رہی۔ یعنی بہرحال محمد صلیاﷲ علیہ وسلم ہی نبی رہے نہ اور کوئی۔ یعنی جب کہ میں بروزی طور پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدیۖ مع نبوت محمدیہۖ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں تو پھر کونسا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا۔”                            (ایک غلطی کا ازالہ صفحہ8، مندرجہ روحانی خزائن جلد18صفحہ212 از مرزا قادیانی)
(16 ”مجھے بروزی صورت نے نبی اور رسول بنایا ہے اور اسی بنا پر خدا نے بار بار میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا مگر بروزی صورت میں۔ میرا نفس درمیان نہیں ہے بلکہ محمد مصطفےٰ صلی اﷲ علیہ وسلم ہے۔ اسی لحاظ سے میرا نام محمدۖ اور احمدۖ ہوا۔ پس نبوت اور رسالت کسی دوسرے کے پاس نہیں گئی۔ محمدۖ کی چیز محمدۖ کے پاس ہی رہی۔”

(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 12 مندرجہ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 216 از مرزا قادیانی)

17) مگر تم خوب توجہ کر کے سن لو کہ اب اسم محمد کی تجلی ظاہر کرنے کا وقت نہیں۔ یعنی اب جلالی رنگ کی کوئی خدمت باقی نہیں کیونکہ مناسب حد تک وہ جلال ظاہر ہو چکا۔سورج کی کرنوں کی اب برداشت نہیں۔ اب چاند کی ٹھنڈی روشنی کی ضرورت ہے اور وہ احمد کے رنگ میں ہو کر میں ہوں۔                                                                                                             ( روحانی خزائن ج17ص446/445 از مرزاقادیانی)
(18اصل میںمرزا قادیانی کیا تھا اس کا اپنا اقرار :جو شخص آنحضرتصلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں کوئی ایسا کلمہ زبان پر لائے گا۔ جس سے آپصلی اﷲ علیہ وسلمکی ہتک ہو وہ حرامی نہیں تو اور کیا ہے؟”                             (ملفوظات جلد سوم صفحہ 208، طبع جدید، از مرزا قادیانی)
اللہ تعالیٰ ایسے مردودوںسے ہر مسلمان بلکہ ہر انسان کو اپنی پناہ میں رکھے! (آمین
)