Language:

مانئے یا نہ مانئے – محمد متین خالد

اللہ تعالیٰ اپنے حبیب مکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پایاں محبت کرتے ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ اوّل یہ کہ حضور نبی کریمؐ نے اپنی روشن زندگی کا ایک ایک نورانی لمحہ اللہ تعالیٰ کی مکمل اطاعت اور رضا کے منور ہالے میں بسر کیا اور دوسرا یہ کہ آپؐ نے اس راستے میں آنے والی تمام جانگسل مشکلات، تکالیف، مصائب اور آزمائشوں کو نہایت خندہ پیشانی، صبر اور استقامت سے برداشت کیا۔ حضور نبی کریمؐ کی اس خوبصورت ادا اور قربانی نے اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپؐ کا مقام و مرتبہ بے حد بلند کیا۔ قرآن مجید میں خالق کائنات حضور نبی کریمؐ کا تعارف وماارسلنک الا رحمۃ للعالمین کی رخشاں سند کے ساتھ کرتا ہے۔ کبھی آپ کے فرقِ  اقدس پر یٰسین، طہ، یاایہا المزمل اور یا ایہا المدثر کے تاج سجائے جاتے ہیں اور کبھی ورفعنالک ذکرک کی منادی انفس و آفاق میں آپ کی برتری کا اعلان کرتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی پہچان بھی قرآن کریم میں جگہ جگہ اپنے محبوب علیہ السلام کے توسط سے کرائی۔ کبھی فرمایا ھوالذی ارسل رسول بالھدی و دین الحق۔ رب العالمین وہ شان والا ہے جس نے اپنے رسول علیہ السلام کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا۔ کبھی اپنے تعارف کے لیے فرمایا۔ قل ھواللہ احد (اے حبیب مکرم) آپ اپنی زبان پاک سے لوگوں کو کہہ دیں کہ اللہ ایک ہے۔

اللہ تعالیٰ، اہل ایمان کو آداب النبی سکھاتے ہوئے حکم دیتا ہے:اے ایمان والو! نہ بلند کیا کرو اپنی آوازوں کو (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم) کی آواز سے اور نہ زور سے آپ کے ساتھ بات کیا کرو جس طرح زور سے تم ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہو۔ (اس بے ادبی سے) کہیں ضائع نہ ہو جائیں تمھارے اعمال اور تمھیں خبر تک نہ ہو۔ (الحجرات : 2)

یہی وجہ ہے کہ خدائے رحمن و رحیم ان دریدہ دہنوں کو نہایت سخت الفاظ میں انتباہ کرتا ہے جو حضور نبی کریمؐ کی شان اقدس میں گستاخیوں کے ارتکاب کی جسارت کرتے، مقدس تعلیمات کا تمسخر اڑاتے، آپ کے مقام و مرتبہ کو گھٹانے کی مذموم سعی کرتے، ختم نبوت کا انکار کرتے، آپ کے عالی مقام اہل بیت کی تنقیص کرتے، آپ کے صحابہ کرامؓ کا مذاق اڑاتے یا آپ کے دلبر و دلدار شہرِ مدینہ منورہ کی توہین کرتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کی دنیوی و اخروی زندگی امن و سکون سے گزرے۔ ایسے بدبختوں پر قہر خداوندی ایسے نازل ہوتا ہے کہ ان کی زندگیاں نقش عبرت بن جاتی ہیں۔ ان کا سکون چھین لیا جاتا ہے، ان کے ہاں بہن بھائی اور باپ بیٹی ایسے مقدس رشتوں کا تقدس بھی ختم ہو جاتا ہے۔ خدا کی لعنت ہمہ وقت ان کے تعاقب میں رہتی ہے۔

قرآنِ کریم میں رسول کریمؐ کو ایذا دینے والے کو مستحق لعنت قرار دیا گیا ہے۔ اور دنیا و آخرت میں ذلیل کرنے والے درد ناک عذاب کی خبر دی گئی ہے۔ ایک بار ابولہب نے حضور اقدسؐ کی شان میں بکواس کرتے ہوئے کہا تھا ’’تبالک آپ تباہ ہو جائیں (نعوذباللہ) اللہ تعالیٰ نے اس گستاخی کا بدلہ اور انتقام لیتے ہوئے خود فر مایا: تبت یدا ابی لھب وتب:                    اور یہ الفاظ قرآنی وحی کی صورت میں قرآن مجید میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیئے گئے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورۃ القلم 10تا13 میں بدنام زمانہ گستاخِ رسول ولید بن مغیرہ کے 9بڑے عیب گنوانے کے بعد ایک بڑی حقیقت کا پردہ چاک کرتے ہوئے اسے ’’زنیم‘‘ یعنی ’’حرام زادہ۔حرامی‘‘ قرار دیتے ہیں۔

حکیم الامت، مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبال کا اپنا بیان ہے:’’ذاتی طور پر میں اس تحریک (قادیانی جماعت) سے اس وقت بیزار ہوا جب ایک نئی نبوت، بانی اسلام کی نبوت سے اعلیٰ تر نبوت کا دعویٰ کیا گیا اور تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیا گیا۔ بعد میں یہ بیزاری بغاوت کی حد تک پہنچ گئی، جب میں نے تحریک کے ایک رکن کو اپنے کانوں سے آنحضرتؐ کے متعلق نازیبا کلمات کہتے سنا۔‘‘ (سن رائز کے جواب میں)

قادیانی اپنے ہر مخالف کی موت پر نہ صرف خوشی کے شادیانے بجاتے ہیں بلکہ گوئبلز پروپیگنڈہ کے تحت خوب نمک مرچ لگا کر اس کی کردار کشی کرتے اور ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ چونکہ اس شخص نے ہمارے ’’حضرت‘‘ اور مشن کی مخالفت کی تھی، اس لیے اسے عبرتناک انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ ایک گھٹیا سوچ ہے جو صرف قادیانیوں کا خاصا ہے۔ اس سلسلہ میں سابق وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو آج تک قادیانیوں کے منفی پروپیگنڈے کا مسلسل نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ جناب بھٹو کے عہدِ حکومت میں ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے 7ستمبر 1974ء کو متفقہ طور پر قادیانیوں کو ان کے کفریہ عقائد و عزائم کی بناء پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا۔ اور یوں ایک 90سالہ دیرینہ مسئلہ کا کافی و شافی آئینی حل سامنے آیا۔ اسی طرح جب کبھی قادیانی اخبارات و رسائل میں صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کا ذکر آتا ہے تو ہر چھوٹا بڑا قادیانی ان کی المناک شہادت پر اپنے شیطانی طنز اور تضحیک کے تیر چلا کر خوش ہوتا ہے۔

قادیانیوں کو آئین میں غیر مسلم اقلیت قرار دلانے والے جناب ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر قادیانیوں نے جشن منایا اور مٹھائیاں تقسیم کیں اور اپنے جھوٹے مدعی نبوت اور انگریز کے خود کاشتہ پودے مرزا قادیانی علیہ ماعلیہ کی کتابوں کو کھنگالنا شروع کر دیا کہ شائد کوئی ایسا لفظ مل جائے جسے وہ الہام بنا کر جناب بھٹو پر چسپاں کرسکیں، طویل تلاش و بسیار کے بعد مرزا قادیانی کی ایک نام نہاد وحی ملی کہ:’’ایک شخص کی موت کی نسبت خدا تعالیٰ نے اعداد تہجی میں مجھے خبر دی جس کا ماحصل یہ ہے کہ (کلب یموت علیٰ کلب) یعنی وہ کتا ہے اور کتے کے عدد پر مرے گا۔ جو 52 سال پر دلالت کر رہے ہیں یعنی اس کی عمر 52 سال سے تجاوز نہیں کرے گی جب 52 سال کے اندر قدم دھرے گا۔ تب اسی سال کے اندر اندر راہی ملک بقاء ہوگا۔‘‘ (ازالہ اوھام ص187، مندرجہ روحانی خزائن جلد3صفحہ 190 از مرزا قادیانی)

اس خود ساختہ اور من گھڑت الہام کو سچا ثابت کرنے کے لیے کتے کے اعداد نکالے جو 52بنتے ہیں اور پھر اسے جناب بھٹو مرحوم پر چسپاں کر دیا گیا کہ چونکہ بھٹو صاحب کو 52 سال کی عمر میں پھانسی ہوئی اور مرزا قادیانی کا یہ الہام بھٹو صاحب کے بارے میں ہے۔ (استغفراللہ)

قادیانیوں کا بھٹو کے خلاف فیصلہ کے بارے میں جو نقطہ نظر تھا، وہ مشہور قادیانی چوہدری ظفر اللہ خاں کے ایک انٹرویو کی صورت میں ’’سیاسی اتار چڑھائو از منیر احمد منیر‘‘ میں شائع ہوچکا ہے جس میں اس نے بھٹو صاحب کے بارے میں اسی قسم کی بکواس کی ہے۔ حالانکہ بھٹو مرحوم نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر وہ تاریخی کارنامہ سرانجام دیا کہ رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔ ان کی یہ شاندار خدمت تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے اور اس معاملے میں ہم انہیں ملک و ملت کا محسن گردانتے ہیں۔17مئی 1977ء سے 4اپریل 1979ء تک کرنل رفیع الدین نے سنٹرل جیل راولپنڈی میں مارشل لاء انتظامیہ کی جانب سے سپیشل سیکورٹی سپرنٹنڈنٹ کے فرائض سرانجام دیئے جہاں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو رکھا گیا تھا۔ انہوں نے اسی عرصۂ ملازمت کے مشاہدات، تجربات اور محسوسات پر مبنی ایک کتاب ’’بھٹو کے آخری 323 دن‘‘ لکھی جس میں وہ لکھتے ہیں:

’’احمدیہ مسئلہ ایک ایسا مسئلہ تھا جس پر بھٹو صاحب نے کئی بار کچھ نہ کچھ کہا۔ ایک دفعہ کہنے لگے، رفیع! یہ لوگ چاہتے تھے کہ ہم ان کو پاکستان میں وہ مرتبہ دیں جو یہودیوں کو امریکہ میں حاصل ہے۔ یعنی ہماری ہر پالیسی ان کی مرضی کے مطابق چلے۔ ایک بار بھٹو نے کہا کہ قومی اسمبلی نے ان کو غیر مسلم قرار دیا ہے اس میں میرا کیا قصور ہے۔ ایک دن اچانک مجھ سے پوچھا کہ کرنل رفیع! کیا قادیانی آج کل یہ کہہ رہے ہیں کہ میری موجودہ مصیبتیں ان کے خلیفہ کی بددعا کا نتیجہ ہیں کہ میں کال کوٹھڑی میں پڑا ہوا ہوں۔ ایک مرتبہ کہنے لگے کہ ’’بھئی اگر ان کے اعتقاد کو دیکھا جائے تو وہ تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری پیغمبر ہی نہیں مانتے اور اگر وہ مجھے ہی اپنے آپ کو غیر مسلم قرار دینے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں تو کوئی بات نہیں۔ پھر کہنے لگے میں تو بڑا گناہگار ہوں اور کیا معلوم کہ میرا یہ عمل ہی میرے گناہوں کی تلافی کر جائے اور اللہ میرے تمام گناہ اس نیک عمل کی بدولت معاف کر دے۔‘‘ بھٹو صاحب کی باتوں سے، میں یہ اندازہ لگایا کرتا تھا کہ شاید ان کو گناہ وغیرہ کا کوئی خاص احساس نہ تھا لیکن اس دن مجھے محسوس ہوا کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔‘‘

صدر محمد ضیاء الحق نے اپنے دور حکومت میں قادیانیوں کو شعائر اسلامی استعمال کرنے سے باز رکھنے کے لیے 26اپریل 1984ء کو ایک صدارتی آرڈیننس نمبر20جاری کیا جس کی رو سے کوئی قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتا اور نہ ہی اپنے مذہب کو بطور اسلام پیش کرسکتا ہے اور نہ ہی اپنے مذہب کی تبلیغ کرسکتا ہے۔ قادیانیوں نے اس آرڈیننس کو ’’حقوق انسانی‘‘ کے منافی سمجھا اور اس کے خلاف پوری دنیا میں شور مچایا۔ تمام اسلام دشمن طاقتیں بالخصوص بھارت اور مغربی میڈیا ان کی حمایت میں کھل کر سامنے آگیا لیکن مسلمانانِ پاکستان کی بلند ہمتی اور اسلامی جذبوں سے سرشار ملی یکجہتی کی بدولت قادیانی پوری دنیا میں ذلیل و رسوا ہوئے۔ بالآخر قادیانیوں نے اس آرڈیننس کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا جہاں ان کی رٹ درخواست خارج کرتے ہوئے جج صاحبان نے متفقہ طور پر اس آرڈیننس کو درست قرار دیا اور قادیانیوں کے بارے میں اپنے تاریخی فیصلہ لکھا:

’’قادیانی امت مسلمہ کا حصہ نہیں ہیں۔ اس بات کو خود ان کا اپنا طرز عمل خوب واضح کرتا ہے۔ ان کے نزدیک تمام مسلمان کافر ہیں۔ وہ ایک الگ امت ہیں۔ یہ متناقض ہے کہ انہوں نے امت مسلمہ کی جگہ لے لی ہے اور مسلمانوں کو اس امت سے خارج قرار دیا ہے۔ مسلمان انہیں امت مسلمہ سے خارج قرار دیتے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو اس امت سے خارج سمجھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ دونوں ایک ہی امت میں سے نہیں ہوسکتے۔ یہ سوال کہ امت مسلمہ کے افراد کون ہیں؟ برطانوی ہندوستان میں کسی ادارے کے موجود نہ ہونے کی بنا پر حل نہ ہوسکا، لیکن اسلامی ریاست میں اس موضوع کو طے کرنے کے لیے ادارے موجود ہیں اور اس لیے اب کوئی مشکل درپیش نہیں ہے۔‘‘

ایک اہم بات جس کا تذکرہ کرنا بے حد ضروری ہے اور یہ ایک آفاقی صداقت بھی ہے کہ کسی بھی قادیانی کی موت سکون اور اطمینان کے عالم میں نہیں ہوتی بلکہ وہ انتہائی کرب، پریشانی اور اول فول بکتے ہوئے سوئے جہنم روانہ ہوتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ موت کے وقت خدائی لعنت کی وجہ سے ہر قادیانی کا چہرہ مسخ ہو جاتا ہے اور شکل اتنی ڈرائونی، گھنائونی اور بھیانک ہو جاتی ہے کہ دیکھنے والا وحشت محسوس کرتا ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ جب بھی کوئی اہم قادیانی مرتا ہے تو قادیانی اخبارات و رسائل اس کے بچپن، لڑکپن، جوانی اور مرنے تک کے تمام اہم واقعات کی تصاویر بڑے اہتمام سے شائع کرتے ہیں۔ مثلاً کسی کی گود میں کھیلتے ہوئے، سکول جاتے ہوئے، امتحان میں کامیابی کے موقع پر، کوئی گیم کھیلتے ہوئے، تقریر کرتے ہوئے، پکنک مناتے ہوئے، کھانا کھاتے ہوئے، اخبار پڑھتے ہوئے یا تیراکی کرتے ہوئے، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آج تک کسی ایک بھی قادیانی کی لاش والی تصویر شائع نہیں ہوئی جس سے معلوم ہوسکے کہ اس کا چہرہ بوقتِ مرگ صحیح و سالم ہے۔ یہی وہ اہم بات ہے جسے قادیانی قیادت خود اپنے پیروکاروں سے بھی چھپاتی ہے۔ اس کی صرف ایک مثال پیش خدمت ہے۔

قادیانی جماعت کا چوتھا خلیفہ مرزا طاہر 19اپریل 2003ء کو مختلف عوارض کا شکار ہو کر نہایت عبرتناک حالت میں جہنم واصل ہوا۔ خدائی عذاب کی گرفت میں آنے کی وجہ سے اس کا چہرہ بری طرح بگڑ گیا۔ لہٰذا قادیانی قیادت نے حسب معمول فیصلہ کیا کہ پیروکاروں کو مرزا طاہر کا منہ نہ دکھایا جائے۔ چنانچہ ایک اور تابوت خریدا گیا۔ یہ تابوت ایلومینیم کا تھا جس میں لاش والا تابوت ڈال کر سیل کر دیا گیا۔ قادیانی عقیدت مند آتے اور بند تابوت کی زیارت کرکے چلے جاتے۔ قادیانی ٹیلی ویژن چینل ایم ٹی اے نے مرزا طاہر کی آخری رسومات کو براہ راست ٹیلی کاسٹ کیا اور ہر منظر واضح دکھایا مگر مرزا طاہر کا چہرہ آخری وقت تک نہ دکھایا۔ اس طرح قادیانی ماہنامہ خالد نے اپریل 2004ء میں مرزا طاہر پر خاص شمارہ شائع کیا جس میں مرزا طاہر کے بچپن سے لے کر بیمار ہونے تک 15بلیک اینڈ وائٹ اور 112 رنگین تصاویر پر مشتمل کل 127تصویریں شائع کیں۔ مگر دوران بیماری اور مرنے کے بعد اس کی لاش کی ایک تصویر بھی شائع نہیں کی۔ احتیاط کا یہ عالم تھا کہ کسی بھی قادیانی کو مرزا طاہر کی قبر پر مٹی ڈالنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔

جن لوگوں نے میری کتب کا مطالعہ کیا ہے، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ میں دو جمع دو چار کا قائل ہوں۔ میں نے ہمیشہ جھوٹ کا مقابلہ سچ سے کیا ہے۔ جس شخص کے پاس سچائی کی دلیل موجود ہو، اسے جھوٹ بولنے کا کیا فائدہ؟