Language:

قادیانی طلسم ہوشربا کی چند جھلکیاں – شفیق مرزا

28 مئی 2010ء کو جب پاکستان بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں یوم تکبیر منا رہا تھا عین اس روز لاہور میں دو قادیانی عبادت گاہوں پر دہشت گردوں کا اچانک حملہ بے حد افسوسناک اور وطن عزیز کے امیج کو قوموں کی برادری میں داغدار کرنے کی ایک ایسی کوشش تھی جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔۔۔۔ لیکن اس سانحہ کی آڑ میں قادیانیوں نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول کر اخبارات و جرائد میں قومی اسمبلی میں گیارہ روز کی طویل آزادانہ بحث کے بعد کی جانے والی آئینی ترامیم کے خلاف مکروہ پروپیگنڈے کا طوفان کھڑا کر کے انہیں دستور پاکستان ہی سے نکال باہر کرنے کی جو سعی مذموم شروع کر دی اور اس کام کو آگے بڑھانے کے لئے نام نہاد لبرل ترقی پسند دانشوروں اور امریکی آشیربادسے چلنے والی اباحیت پسند این جی اوز کو اپنے ساتھ ملا کر نہ صرف اپنے حق میں مظاہرے کرانے کا اہتمام کیا بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی کے خاندان غلاماں کے مرجھائے ہوئے ایک فرد کو خضاب و خندہ سے مرصع کر کے ٹی وی چینلوں سے جس انداز میں پاکستانی عوام سے خطاب کرنے کا موقع فراہم کیا اور انہوں نے جس طرح اپنے آبائی عقائد کو چھپاتے ہوئے اپنی امت کو ’’مسلمان‘‘ ثابت کرنے کے لئے تلبیس سے کام لیا۔ اس سے گو ئبلز تو کیا اس کے آبائو اجداد کی روحیں بھی شرمسار ہو کر رہ گئیں اور ہر پاکستانی مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کہیں یہ سارا ڈرامہ بھی قادیانی مفادات کو تقویت دینے کے لئے ہی تو سٹیج نہیں کیا گیا تھا کیونکہ اسے جس طریقے سے قادیانیت کی تبلیغ کے لئے استعمال کیا گیا اس سے تو یوں لگتا تھا جیسے قادیانیوں کو اس بات کا کھلا لائسنس دے دیا گیا ہے کہ وہ اپنی ارتدادی سرگرمیوں کو ازسر نو تیز کر کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو اس زور سے اپنے حق میں استعمال کریں کہ اس سیلاب بلا خیز میں سب کچھ بہہ کر رہ جائے۔ زرداری حکومت کی دینی حسیات سے محرومی کی وجہ سے اگر کسی قادیانی ذہن میں یہ خناسیت موجود ہے کہ وہ اس نادر موقع سے فائدہ اٹھا سکتا ہے تو اسے فی الفور اس سے نجات حاصل کر لینی چاہئے کیونکہ پاکستان میں بسنے والے مٹھی بھر سیکولر عناصر ہی کیا امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اور بھارت سب مل کر بھی آئین پاکستان سے یہ ترامیم ختم نہیں کرا سکتے کیونکہ انہیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ اگر اس نے ایسی کوئی ناپاک جسارت کی تو پھر چناب نگر کے دوزخی مقبرے میں قادیانیت کی گلی سڑی ہڈیاں بھی محفوظ نہیں رہیں گی۔ لیکن اگر فرض محال کے طور پر مان بھی لیا جائے کہ وہ ایسا کرنے میں کبھی کامیاب ہو سکتے ہیں تو پھر بھی ان کے امت مسلمہ میں شامل ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں کیونکہ قرآن حکیم دو ٹوک الفاظ میں حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو آخری نبی، دین اسلام کو آخری دین اور فرقان حمید کو آخری کتاب قرار دے چکا ہے۔ اس لئے مرزا غلام احمد کی امت اس کے اضغاث و احلام کو جمع کر کے اور انہیں مجموعہ الہامات شمار کر کے ’’تذکرہ‘‘ کے نام سے خواہ کتنی بھی کتابیں شائع کر ڈالے۔ وہ ایسی ہزار کوششوں کے باوجود اسے زمرہ انبیاء میں شامل نہیں کر سکتی کیونکہ جب قرآن مجید نہایت واضح الفاظ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خاتم النبین قرار دے چکا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی زبان فیض ترجمان سے بنفس نفیس لا نبی بعدی کہہ کر اس کی یہ تشریح کر چکے ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں تو پھر کسی ظلی بروزی، غیر تشریعی یا ایک پہلو سے امتی اور ایک پہلو سے نبی ہونے کے کسی دعویدار کی کوئی گنجائش ہی موجود نہیں اور جو کوئی بھی اپنی مسخ شدہ ذہنیت کے تحت ان اصطلاحات سے مسلمانوں کو فریب دے کر انہیں مدینے کی روح پرور فضائوں سے نکال کر چناب نگر کی بنجر، ویران اور شور زدہ زمین کے سپرد کرنا چاہتا ہے، اسے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر مسلمانوں نے اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود اسود عنسی اور مسلیمہ کذاب کی ’’نبوت‘‘ کو پرکاہ کی حیثیت نہیں دی تو وہ مسلیمہ قادیان سے بھی اس سے مختلف سلوک نہیں کرے گی اور قادیانی خود یہ سوچ لیں کہ اگر امریکہ و برطانیہ کی تمام تر حمایت کے باوجود وہ پاکستان اور جنوبی افریقہ میں ریاستی و عدالتی سطح پر غیر مسلم قرار پا جانے کے بعد انڈونیشیا، ملائشیا اور بنگلہ دیش میں بھی اسی حشر سے دوچار ہونے والے ہیں تو پھر انہیں خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ جو پودا اپنی جنم بھومی سے اکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے، کسی دوسری زمین پر اس کا پھولنا پھلنا تو درکنار، پھوٹنے کا مرحلہ بھی نہیں آتا۔ اس لئے کہ جعلسازی بہرحال جعلسازی ہوتی ہے اور اس کی حقیقت ایک نہ ایک روز ضرور کھل کر رہتی ہے۔ قادیانیت کے لئے اپنے ذہنوں میں نرم گوشہ رکھنے والوں کو یہ بھی غور کرنا چاہئے کہ اگر فوج اور پولیس کی جعلی وردی پہن کر اپنے آپ کو ان اداروں سے منسوب کرنے والا ریاستی عتاب سے نہیں بچ سکتا تو ظلی بروزی اور غیر تشریعی نبوت کا لبادہ اوڑھ کر اپنے آپ کو صف انبیاء میں کھڑا کرنے والا غضب الٰہی سے کیسے بچ سکتا ہے؟

1857ء کی جنگ آزادی کوغدر، مفسدہ اور انگریز سے برسرپیکار مجاہدین کو حرام زادہ تک لکھتے ہوئے بھی کوئی عار اس کے قلب و ذہن کے قریب تک پھٹکنے کی جرأت نہیں کرتی تھی۔ اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ جو شخص  ’’تاج و تخت ہند قیصر کو مبارک ہو مدام       ان کی شاہی میں، میں پاتا ہوں رفاہ روزگار‘‘   کا ورد کرتے ہوئے تحفۂ قیصریہ اور ستارۂ قیصرہ ایسے ’’قصیدے‘‘ لکھ کر اہل فرنگ کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے اور ان کے لیے رحمدل اور مہربان حکومت کے الفاظ استعمال کرنے میں کوئی باک محسوس نہ کرتا ہو اور ان کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے جہاد کو منسوخ اور حرام قرار دے کر اپنے آپ کو غیر تشریعی نہیں بلکہ باقاعدہ صاحب شریعت انبیا کی صف میں شامل کرنے کی ناپاک جدوجہد کرنے میں مصروف ہو، اس کے بارے میں یہ کیسے گمان کیا جاسکتا ہے کہ وہ انگریز کی غلامی سے سرتابی کی جرأت کرکے عوام کو آزادی کا درس دے گا؟ قرآنِ کریم کے فرمان کے مطابق تو نبی کا بنیادی کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ ان کے ذہنوں کو جکڑ کر رکھنے والے تمام طوق و سلاسل کو توڑ کر انہیں آزادی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ لیکن قادیان کا یہ نام نہاد نبی بڑا عجیب ہے کہ وہ لوگوں کو آزادی کی جانب دعوت دینے کی بجائے ان کو غلامی کی تلقین کرنے میں عافیت محسوس کر رہا ہے۔ اس نوع کے غلام ابن غلام قومی آزادی کی تحریکوں کے لیے جتنا بڑا خطرہ ہیں، ان کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ سب ظاہر و باہر ہے۔

ہمارے بعض سیکولر کالم نگار کہتے ہیں کہ 1965ء کی جنگ میں تو قادیانی جرنیلوں نے بڑی قربانی دی تھیں اور اختر ملک نے اکھنور تک پہنچ کر بہت بڑا معرکہ سر کر لیا تھا۔ تاریخ سے ناواقف ان لکھاریوں کو اس بات کا علم نہیں کہ ایوب خاں اور ذوالفقار علی بھٹو دونوں کو اپنے دام ہمرنگ زمیں پھنسا کر کشمیر میں مداخلت کار بھجوانے پر آمادہ کرنے والے بھی قادیانی ہی تھے اور اپنے’’متنبی کی تعلیمات سے بھی ان کے انحراف کرنے کا سبب یہی تھا کہ وہ سب مرزا غلام احمد کے ایک ’’کشف‘‘ کو پورا کرنے کے لئے کشمیر کی گلی سے ہو کر قادیان جانے کی تمنا اپنے دل میں بسائے بیٹھے تھے اور اس جنگ کا ہی یہ ثمر تھا کہ پاکستان اپنی ترقی کی منزل سے 50 برس پیچھے چلا گیا اور آج قادیانی نہ صرف اسرائیل میں اپنا مشن چلا رہے ہیں بلکہ بھارت میں بھی نئی دہلی کے حکمرانوں سے نت نئی مراعات لے رہے ہیں لیکن افغانستان، کشمیر اور فلسطین تینوں جگہوں پر چلنے والی قومی آزادی کی تحریکوں کے وہ مخالف ہیں اور مسئلہ کشمیر اور فلسطین دونوں کو الجھانے میں انہوں نے جو کردار ادا کیا ہے اس کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ میاں افتخار الدین نے اسمبلی کے فلور پر اپنے تاریخی خطاب میں کہا تھا کہ ظفر اللہ خاں نے اپنی بے معنی اور طویل تر تقریروں سے مسئلہ فلسطین کو الجھا کر رکھ دیا اور یہی بات برنگ دگر کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ ظفر اللہ خاں نے مسئلہ فلسطین کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی کمی نہیں کی، اسے کرنا بھی یہی کچھ تھا کیونکہ جو شخص قومی آزادی کی لذت سے ہی آشنا نہیں، وہ آزادی اور جہاد کی قدر و قیمت کیا جانے، اسی پس منظر میں یاد آیا کہ ایک دفعہ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں ایک فلسطینی نوجوان سے میری اس موضوع پر بات ہو رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم اپنے ملک میں قادیانیوں کو کس نظر سے دیکھتے ہو تو اس نے کہا کہ ہم قومی آزادی کے ان دشمنوں کو یہودیوں سے بدتر سمجھتے ہیں کہ وہ کھلے دشمن ہیں اور یہ چھپے منافق ،جو مشرق اوسط میں آتے ہی اس لئے ہیں کہ جاسوسی کر کے اپنے آقایان ولی نعمت کا حق نمک ادا کر سکیں اور وہ یہ فریضہ اپنی مذہبی ذمہ داری سمجھ کر ادا کرتے ہیں، اس لئے ان پر اعتبار کرنا ممکن نہیں۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم ایک مرتبہ جب امریکہ کے دورے پر گئے تو امریکی حکام سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بات چیت کے دوران سی آئی اے کے ذمہ داران نے ان کے سامنے ایسے ایسے انکشافات کئے کہ جنرل مرحوم انگشت بدنداں ہو کر رہ گئے۔ واپس آ کر انہوں نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ سب کچھ ڈاکٹر عبدالسلام کا کیا دھرا تھا جنہوں نے ڈایاگرام تک امریکہ کے حوالے کر دیئے تھے۔ جس پر اسے فوری طور پر چلتا کر دیا گیا تو اس نے اٹلی میں ایک جدید سائنسی ادارہ بنا کر اس میں دھڑا دھڑ قادیانیوں کو بھرتی کر لیا تاکہ وہ دآشتہ آید بکار کے طو ر پر آئندہ کی ضروریات کے کام آئیں۔

سیاسی، سفارتی اور مذہبی محاذ پر قادیانیوں کی یہ قلا بازیاں مسلسل جاری ہیں اور مرزا غلام احمد کی ’’تدریجی نبوت‘‘ سے لے کر اب تک اس کی مثالیں جگہ جگہ بکھری نظر آتی ہیں۔ بہت کم قادیانیوں کو اس بات کا علم ہے کہ مرزا ناصر احمد نے ایک بار ترنگ میں آ کر منڈی بہاء الدین کی قادیانی عبادت گاہ میں یہ ویاکھیان بھی دے دیا تھا کہ آخری زمانے میں جس نے آنا تھا، وہ مرزا غلام احمد کی صورت میں آ چکا ہے اور اب اس کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اس زمانے میں منڈی بہاء الدین میں مقیم قادیانی مربی مجھ سے خاصی کھلی ڈلی گفتگو کر لیتے تھے۔ کہنے لگے کہ اس موقع پر میرے دل میں فوراً یہ خیال آیا کہ’’ حضرت صاحب‘‘ سے کہوں کہ اگر یہی کچھ کرنا تھا اور نبوت کو ’’حضرت مسیح موعود‘‘ پر ہی ختم کرنا تھا تو پھر ’’اجرائے نبوت‘‘ کا پنگا لینے کی ضرورت تھی نہ خاتم النبین کے معنی آخری نبی کی بجائے نبیوں کی مہر کر کے نبوت کی ٹکسال کھولنے کا کوئی فائدہ۔ لیکن میں اپنی گزارہ الائونس والی ملازمت کے چلے جانے کے خوف سے دبک کر بیٹھا رہا کہ اس عمر میں کوئی دوسری ملازمت مل سکتی ہے نہ نئے تعلقات ہی بنائے جا سکتے ہیں لیکن یہی بات دوسرے کئی حاضرین کے لئے بھی تعجب کا باعث بنی اور انہوں نے وہاں پر موجود ’’مورکھ احمدیت‘‘ مولوی دوست محمد شاہد کو آڑ ے ہاتھوں لیا جو اس ناگہانی صورتحال سے بڑی مشکل سے جان چھڑا کر بھاگے۔ اس قسم کے مضحکہ خیز تماشوںسے قادیانی امت کی پوری تاریخ بھری پڑی ہے لیکن اس کے باوجود وہ سوچنے سمجھنے کے لئے تیار نہیں۔۔۔ اس کا اندازہ اس امر سے ہو سکتا ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے معراج جسمانی کو تو خلاف عقل قرار دیتے ہوئے اسے ایک خواب، رویا اور کشف سمجھتے ہیں لیکن مرزا غلام احمد کے سرخی کے چھینٹوں والے ’’کشف‘‘ کو حقیقی خیال کرتے ہیں اور اس اجمال کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ مرزا غلام احمد نے خوابیدگی کی حالت میں یہ منظر دیکھا کہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور کوئی فائل دستخطوں کے لئے پیش کر رہا ہے جس پر ذات باری نے اپنے دستخط کرنے کے لئے قلم اٹھا کر اسے سرخ روشنائی سے بھری ہوئی دوات میں ڈبویا تو اس کی نب پر بہت زیادہ مواد لگ گیا جو چھڑکا گیا تو اس کے چھینٹے عالم بیداری میں بھی مرزا غلام احمد کی چادر پر پڑے ہوئے تھے۔ بعد میں یہ چادر اس کے ایک ’’صحابی‘‘ عبداللہ سنوری نے لے لی جو آج بھی قادیانی امت نے سنبھال کر رکھی ہوئی ہے اور کوئی قادیانی یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا معراج مبارک اگر بقول ان کے ایک خواب تھا تو خواب پر تو کوئی احمق بھی اعتراض نہیں کر سکتا، زبان و بیان کے ماہر اکابرین قریش جن میں سے ہر فرد انسان ہونے کے ناتے خواب دیکھتا تھا، وہ اس پر کیسے معترض ہو سکتے تھے؟ اعتراض تو وہ کسی غیر معمولی اور خارق عادت واقعہ پر ہی کر سکتے تھے۔ پیغمبرگردوں رکاب صلی اللہ علیہ وسلمکے اس معجزاتی سفر کو قادیانی ماننے کے لئے تیار نہیں مگر مرزا غلام احمد کے سرخی کے چھینٹوں والے خواب کو حقیقت پر محمول کرنے کو وہ نہ صرف ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں بلکہ انہیں اس میں کوئی بات خلاف عقل بھی نظر نہیں آتی۔ مرزا غلام احمد نے اپنی پہلی بیگم حرمت بی بی کی بے حرمتی کرنے کے بعد اسے ایک معلقہ کی طرح چھوڑ دینے کے بعد اپنے ہی خاندان کی ایک رشتہ دار لڑکی محمدی بیگم سے نکاح کے لئے جتنی جدوجہد کی، جس قدر آہیں بھریں، جس قدر پیشگوئیاں کیں اور اس آسمانی نکاح کو زمین پر وقوع پذیر کرنے کے لئے جو کچھ کیا، وہ اس شخص کی اخلاقی حالت، نفسیات اور سماجی شعور پر ایک افسوسناک تبصرہ ہے لیکن ان ساری کوششوں کے باوجود وہ مرزا غلام احمد کے ہاتھ نہ آ سکی اور قادیانی امت کے ناظر اصلاح و ارشاد قاضی نذیر آنجہانی کو مجبوراً اس کی یہ تاویل کرنا پڑی کہ یہ حضرت صاحب کی اجتہادی غلطی تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الی السماء کے بارے میں مرزا غلام احمد وہی عقیدہ رکھتا تھا جو جمہور مسلمانوں کا ہے اور اس کا اظہار اس نے اپنی متعدد کتب میں اتنے زور اور تواتر سے کیا ہے کہ اس کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ لیکن پھر جب مرزا غلام احمد کے دل میں خود ’’منصب نبوت‘‘ پر براجمان ہونے کی خواہش انگڑائیاں لینے لگی اور حقیقۃ الوحی میں ایک سو سے زائد دس روپے کی آمد کے بارے میں ہونے والے ’’الہامات‘‘ نے ان کی معاش کو بھی خاصا مضبوط کردیا تو پھر انہوں نے فوراً اپنا پینترا بدل کر وفات مسیح کا اعلان کرنا شروع کردیا اور کہا کہ میں کیا کروں خدا کی طرف سے بارش کی طرح نازل ہونے والی وحی نے مجھے اپنے پرانے موقف پر قائم نہیں رہنے دیا اور اب قادیانی اجرائے نبوت سے بھی کہیں زیادہ، وفات مسیح کا راگ الاپ رہے ہیں کہ اگر اصل مسیح یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی امت مسلمہ کے معتقدات میں ایک مرکزی حیثیت کی حامل رہے گی تو پھر مرزا غلام احمد قادیانی کو مثیل مسیح بنانے کے لیے نہ قادیان کا جعلی منارۃ المسیح کام دے گا اور نہ ہی قادیان دمشق بن سکے گا۔ آخر قادیانی کب تک یہ اجتہادی غلطیاں کرتے چلے جائیں گے۔ میں نے تو ان چند سطور میں قادیانی طلسم ہوشربا کی چند جھلکیاں آپ کو دکھائی ہیں۔ تاہم اگر آپ ان بھول بھلیوں کی ذرا تفصیل سے سیر کرنا چاہتے ہیں تو برادرمحمد متین خالد کی کتاب ’’ثبوت حاضر ہیں‘‘ کا مطالعہ کریں۔