• Home
  • >
  • Articles
  • >
  • کادیانی فتنہ کیوں ایجاد کیا گیا
Language:

کادیانی فتنہ کیوں ایجاد کیا گیا

1857ء کی جنگ آزادی میں انگریزی استعمار اپنے تمام مظالم، جبر و استبداد کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں کے جذبہ جہاد کے سامنے سپر انداز ہو گیا تھا۔ انگریزوں کی پریشانی کا اندازہ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر (W.W.Hunter) کی کتاب ’’ہندوستانی مسلمان‘‘ (THE INDIAN MUSALMANS) سے لگایا جا سکتا ہے۔

30 مئی 1871ء کو وائسرائے لارڈ میو نے جو کہ ڈزرائیلی حکومت کا آئرش سیکرٹری تھا، ایک مقامی سول ملازم ڈبلیو۔ ڈبلیو۔ ہنٹر کو اس سلگتے مسئلہ پر ایک رپورٹ تیار کرنے کو کہا:  ’’کیا مسلمان برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کے لیے اپنے ایمان کی وجہ سے مجبور ہیں؟‘‘ ہنٹر کو حقیقت حال تک رسائی کے لیے تمام خفیہ سرکاری دستاویزات کی جانچ پڑتال کی اجازت دے دی گئی۔ ہنٹر نے 1871ء میں ’’ہندوستانی مسلمان۔ کیا وہ اپنے ایمان کی وجہ سے شعوری طور پر ملکہ کے خلاف بغاوت کے لیے مجبور ہیں؟‘‘ کے عنوان سے اپنی رپورٹ شائع کی۔ اس نے اسلامی تعلیمات خصوصاً جہادی تصور، نزول مسیح و مہدی کے نظریات وغیرہ پر بحث کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا:

’’مسلمانوں کی موجودہ نسل اپنے معتقدات کی رو سے موجودہ صورتحال (جیسی کہ ہے) کو قبول کرنے کی پابند ہے، مگر قانون (قرآن) اور پیغمبروں (کے تصورات) کو دونوں طریقوں سے یعنی وفاداری اور بغاوت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کے مسلمان ہندوستان میں برطانوی راج کے لیے پہلے بھی خطرہ رہے ہیں اور آج بھی ہیں اور اس دعویٰ کی کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ یہ باغی اڈہ (شمال مغربی سرحد) جس کی پشت پناہی مغربی اطراف کے مسلمانوں کے جتھے کر رہے ہیں، کسی کی رہنمائی میں وہ قوت حاصل کرے گا جو ایشیائی قوموں کو اکٹھا اور قابو کر کے ایک وسیع محاربہ Crescentado کی شکل دے دے۔‘‘                                   (The Indian Musalmans by W.W.Hunter)

اس کے علاوہ وہ مزید لکھتا ہے:

’’ہماری مسلمان رعایا سے کسی بھی پرُجوش وفاداری کی توقع رکھنا عبث ہے۔ تمام قرآن مسلمانوں کے بطور فاتح نہ کہ مفتوح کے طور پر تصورات سے لبریز ہے۔ مسلمانانِ ہند ہندوستان میں برطانوی راج کے لیے ہمیشہ کا خطرہ ہو سکتے ہیں۔‘‘                                                                                                      (The Indian Musalmans by W.W.Hunter)

سابق برطانوی وزیر اعظم ولیم ایورٹ گلیڈ سٹون (William Ewart Gladstone) نے اپنے ہاتھ میں قرآن مجید لہرا کر برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:’’جب تک یہ قرآن مسلمانوں کے ہاتھوں یا ان کے قلوب و اذہان میں موجود رہے گا، اس کے تصور جہاد کی وجہ سے یورپ، اسلامی مشرق پر اولاً تو اپنا غلبہ و تسلط قائم نہیں کرسکتا اور اگر قائم کر لے تو وہ اسے برقرار رکھنے میں زیادہ دیر تک کامیاب نہیں رہ سکتا۔ حتیٰ کہ خود یورپ کا اپنا وجود بھی اسلام کی جانب سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔‘‘                      (اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یورپی سازشیں از علامہ جلال العالم)

اس سے پہلے انگلستان گورنمنٹ نے 1869ء کے اوائل میں برٹش پارلیمنٹ کے ممبروں، برطانوی اخبارات کے ایڈیٹروں اور چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد سرولیم کی زیر قیادت ہندوستان میں بھیجا تاکہ اس بات کا کھوج لگایا جا سکے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو کس طرح رام کیا جا سکتا ہے؟ ہندوستانی عوام اور بالخصوص مسلمانوں میں، وفاداری کیونکر پیدا کی جا سکتی ہے؟ برطانوی وفد ایک سال ہندوستان میں رہا اور حالات کا جائزہ لیا۔ اسی سال وائٹ ہال لندن میں اس وفد کا اجلاس ہوا، جس میں ہندوستانی مشنریز کے اہم پادری بھی تھے۔ کمیشن کے سربراہ سرولیم نے بتایا:

            ’’مذہبی نقطہ نظر سے مسلمان کسی دوسری قوم کی حکومت کے زیر سایہ نہیں رہ سکتے۔ ایسے حالات میں وہ جہاد کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ جوش کسی وقت بھی انھیں ہمارے خلاف ابھار سکتا ہے۔‘‘

اس وفد نے “The Arrival of British Empire in India” (ہندوستان میں برطانوی سلطنت کی آمد) کے عنوان سے دو رپورٹیں لکھیں، جس میں انھوں نے لکھا: ’’ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی اور مذہبی پیشوائوں کی اندھا دھند پیروکار ہے۔ اگر کوئی ایسا شخص مل جائے جو الہامی سند پیش کرے تو ایسے شخص کو حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھا کر اس سے برطانوی مفادات کے لیے مفید کام لیا جا سکتا ہے۔‘‘

انگلستانی وفد کی رپورٹ ملاحظہ فرمائیں:

 

REPORT OF MISSIONARY FATHERS

Majority of the population of the country blindly follow their “Peers” their spiritual leaders. If at this stage, we succeed in finding out some who would be ready to declare himself a Zilli Nabi (apostolic prophet) then the large number of people shall rally round him. But for this purpose, it is very difficult to persuade some one from the Muslim masses. If this problem is solved, the prophethood of such a person can flourish under the patronage of the Government. We have already overpowered the native governments mainly pursuing a policy of seeking help from the traitors. That was a different stage, for at that time, the traitors were from the military point of view. But now when we have sway over every nook of the country and there is peace and order every where we ought to undertake measures which might create internal unrest among the country.”

 (Extract from the Printed Report. India Office Library, London)

ترجمہ: ’’ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے پیروں اور روحانی رہنمائوں کی اندھی تقلید کرتی ہے۔ اگر اس موقع پر ہمیں کوئی ایسا شخص مل جائے، جو ظلی نبوت (حواری نبی) کا اعلان کر کے، اپنے گرد پیروکاروں کو اکٹھا کرے لیکن اس مقصد کے لیے اس کو عوام کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا، اس شخص کی نبوت کو حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھا کر برطانوی حکومت کے لیے مفید کام لیا جا سکتا ہے۔ ہم نے مقامی حکومتوں کو پہلے ہی ایسی ہدایات دی ہوئی ہیں کہ غداروں سے معاونت حاصل کی جائے، اس وقت مسلح غداری ہوئی تھی اور صورت حال اور تھی، لیکن اب ہم نے ہندوستان کے طول و عرض میں ایسے انتظامات کر لیے ہیں، ملک میں ہر طرف امن و امان ہے۔ ملک کی اندرونی بدامنی سے نمٹنے کے لیے ایسے اقدامات کیے جا چکے ہیں جو ملک میں اندرونی بدامنی پیدا کریں گے۔‘‘   

(مطبوعہ رپورٹ سے ایک اقتباس: انڈیا آفس لائبریری، لندن)

رپورٹ کو مدنظر رکھ کر تاج برطانیہ کے حکم پر ایسے موزوں اور باعتبار شخص کی تلاش شروع ہوئی، جو برطانوی حکومت کے استحکام اور عملداری کے تحفظات میں الہامات کا ڈھونگ رچا سکے، جس کے نزدیک تاج برطانیہ کے مراسلات، وحی کا درجہ رکھتے ہوں، جو ملکہ معظمہ کے لیے رطب اللسان ہو، برطانوی حکومت کی قصیدہ گوئی اور مدح سرائی جس کی نبوت کا دیباچہ ہو۔ برطانوی شہ دماغوں نے ہندوستان میں ایسے شخص کے انتخاب کے لیے ہدایات جاری کیں۔ پنجاب کے گورنر نے اس کام کی ڈیوٹی ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کے ذمہ لگائی۔ چنانچہ ’’برطانوی معیار‘‘ کے مطابق نبی کی تلاش کا کام شروع ہوا۔ آخرکار قرعہ فال قادیان ضلع گورداسپور کے رہائشی مرزا غلام احمد قادیانی کے نام نکلا۔

            ’’برطانوی ہند کی سنٹرل انٹیلی جنس کی روایت کے مطابق ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ نے چار اشخاص کو انٹرویو کے لیے طلب کیا۔ ان میں سے مرزا غلام احمد قادیانی نبوت کے لیے نامزد کیا گیا۔‘‘

(تحریک ختم نبوت از آغا شورش کاشمیریؒ)

مرزا قادیانی، منیمی سے نبوت تک کیسے پہنچا؟ اس مختصر مگر دلچسپ کہانی کو جناب ابومدثرہ اپنے الفاظ میں یوں لکھتے ہیں:

’’مرزا غلام احمد کی ابتدائی زندگی کے حالات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے معمولی سی دینی تعلیم حاصل کی۔ آپ کے والد نے سکھوں کے عہد میں چھن جانے والی جاگیروں کی بازیابی کے لیے مقدمات قائم کر رکھے تھے اور انگریز کے تعاون سے ان پر دوبارہ قابض ہونے کی فکر میں 1864ء میں آپ نے انگریز سے مل ملا کر آپ کو سیالکوٹ کی کچہری میں اہلمد (منشی) کی ملازمت دلوا دی۔ اس دوران آپ نے یورپی مشنریوں اور بعض انگریز افسران سے تعلقات پیدا کیے اور مذہبی مباحث کی آڑ میں باہمی میل جول کو بڑھایا۔

1868ء کے لگ بھگ سیالکوٹ میں ایک عرب محمد صالح وارد ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس حرمین شریفین کے بعض مفتیان کرام کا ایک فتویٰ تھا، جس میں ہندوستان کو دارالحرب ثابت کیا گیا تھا۔ انگریز کے مخبروں نے آپ کو اعتماد میں لے کر گرفتار کرا دیا۔ آپ پر دوالزامات عائد کیے گئے۔ ایک امیگریشن ایکٹ کی خلاف ورزی اور دوسرے برطانوی حکومت کے خلاف جاسوسی کرنا تھا۔ سیالکوٹ کچہری کے یہودی ڈپٹی کمشنر پارکنسن (Parkinson) نے تفتیش کا آغاز کیا۔ وہ ان تمام لوگوں کو گرفتار کرنا چاہتا تھا، جن سے نووارد عرب کا رابطہ تھا۔ دوران تفتیش ایک ایسے آدمی کی ضرورت پڑی، جو عربی کے مترجم کے طور پر کام کر سکے۔ (مجدد اعظم صفحہ 42 از ڈاکٹر بشارت احمد لاہوری قادیانی) یہ خدمت مرزا غلام احمد قادیانی نے ادا کی اور عرب دشمن اور برطانیہ نوازی کی وہ مثال پیش کی کہ پارکنسن آپ کا گرویدہ ہو گیا۔

ایک اور واقعہ جسے مرزا قادیانی کی زندگی میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے، وہ پادری بٹلر ایم۔ اے کی لندن واپسی ہے۔ یہ پادری برطانوی انٹیلی جنس کا ایک اہم رکن تھا اور مبلغ کے روپ میں کام کررہا تھا۔ مرزا صاحب نے مذہبی بحث کی آڑ میں ان سے طویل ملاقاتیں کیں اور برطانوی راج کے قیام کے لیے اپنی ہر قسم کی خدمات پیش کیں۔ 1868ء میں بٹلر ولایت جانے سے پہلے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ خفیہ بات چیت ہوئی اور معاملات کو حتمی صورت دی گئی۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے صاحبزادے مرزا محمود اپنی تصنیف ’’سیرت مسیح موعود‘‘ میں لکھتے ہیں:

            ’’ریورنڈ بٹلر ایم۔ اے، جو سیالکوٹ مشن میں کام کرتے تھے اور جن سے حضرت مرزا صاحب کے بہت سے مباحثات ہوتے رہتے تھے، جب ولایت واپس جانے لگے تو خود کچہری میں آپ کے پاس ملنے کے لیے چلے آئے اور جب ڈپٹی کمشنر صاحب نے پوچھا، کس طرح تشریف لائے تو ریورنڈ مذکور نے کہا، صرف مرزا صاحب کی ملاقات

 کے لیے! اور جہاں آپ بیٹھے تھے، وہیں سیدھے چلے گئے اور کچھ دیر بیٹھ کر واپس چلے گئے۔‘‘

(سیرت مسیح موعود از مرزا بشیر الدین محمود صفحہ 12)

ایک خطبے میں مرزا محمود نے اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

            ’’اس وقت پادریوں کا بہت رعب تھا لیکن جب سیالکوٹ کا انچارج مشنری ولایت جانے لگا تو حضرت صاحب کو ملنے کے لیے خود کچہری آیا۔ ڈپٹی کمشنر اسے دیکھ کر اس کے استقبال کے لیے آیا اور دریافت کیا کہ آپ کس طرح تشریف لائے۔ کوئی کام ہو تو ارشاد فرمائیں مگر اس نے کہا، میں صرف آپ کے اس منشی سے ملنے آیا ہوں۔ یہ ثبوت

 ہے اس امر کا کہ آپ کے مخالف بھی تسلیم کرتے تھے کہ یہ ایک ایسا جوہر ہے جو قابل قدر ہے۔‘‘

(روزنامہ ’’الفضل‘‘ قادیان، 24 اپریل 1934ء)

اسی سال 1868ء میں مرزا قادیانی بغیر کسی معقول ظاہری وجہ کے اہلمد کی نوکری سے استعفیٰ دے کر قادیان چلا گیا اور تصنیف و تالیف کے کام میں لگ گیا۔‘‘                                                                                                      (قادیان سے اسرائیل تک از ابو مدثرہ)

عالمی تحریک صیہونیت، برطانوی سیاست میں یہودیوں کا دخل، خصوصاً ان کا وزرائے اعظم کے عہدے تک پہنچنا، اسلامیان عالم کی سیاسی و معاشی زبوں حالی، ہندوستانی مسلمانوں کی حصول آزادی کے لیے جدوجہد اور انگریز کے سیاسی اور مذہبی تخریب کاری کے لیے خطرناک عزائم، جو علی الترتیب ہنٹر رپورٹ اور مشنری فادرز رپورٹ سے عیاں ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک غدار خاندان کے فرد مرزا غلام احمد قادیانی کا یہودی افسروں اور جاسوس مشنری اداروں کے سربراہوں سے روابط اور ان کا پارکنسن کی شہ اور بٹلر کی اشیرباد پر نوکری چھوڑ کر نام نہاد اصلاحی تحریک کا آغاز کرنا… یہ سب واقعات اس عظیم سیاسی سازش کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو مذہبی روپ دھار کر ’’احمدیت‘‘ کی صورت میں منظر عام پر آئی۔