Language:

جھوٹی پیش گوئیاں تیسری پیش گوئی موت مکہ میں ہوگی یا مدینہ میں

مرزا قادیانی نے اپنے ایک خدائی الہام میں اپنی موت کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا:

(1)                ’’ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں۔‘‘

                                                                                                                                                                                                                                          (تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات طبع چہارم صفحہ 503 از مرزا قادیانی)

ہر مسلمان اپنے دل میں یہ شدید خواہش رکھتا ہے کہ اسے زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ حج یا عمرہ کی صورت میں مکہ مکرمہ یا مدینہ طیبہ کی زیارت نصیب ہو جائے اور پھر اس سے بڑھ کر اس کی یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ اسے ان مقدس شہروں میں موت کی سعادت حاصل ہو جائے۔ حضرت عمرفاروق ؓ کی یہ دعا بہت مشہور ہے کہ ’’اے اللہ! مجھے اپنے راستہ میں شہادت عطا فرما اور اپنے رسولؐ کے شہر میں موت عطا فرما۔‘‘ حضرت ابن عمرؓ، حضور نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی نقل کرتے ہیں کہ ’’جو شخص اس کی طاقت رکھتا ہو کہ مدینہ طیبہ میں مرے، اسے چاہیے کہ وہیں مرے، اس لیے کہ میں اس شخص کا سفارشی ہوں گاجو مدینہ میں مرے گا۔‘‘ دوسری حدیث میں ہے کہ ’’میں اس کا گواہ بنوں گا۔‘‘ علمائے کرام نے لکھا ہے کہ اس شفاعت سے مراد خاص قسم کی شفاعت ہے۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں حضور خاتم النبیینﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’قیامت میں سب سے پہلے میری قبر شق ہوگی، میں اس میں سے نکلوں گا پھر ابوبکرؓ اپنی قبر سے نکلیں گے پھر عمرؓ۔ پھر میں جنت البقیع میں جائوں گا اور وہاں جتنے مدفون ہیں، ان سب کو اپنے ساتھ لوں گا۔ پھر مکہ مکرمہ کے قبرستان والوں کا انتظار کروں گا، وہ مکہ اور مدینہ کے درمیان آ کر مجھ سے ملیں گے۔‘‘

آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی جھوٹا مدعی نبوت تھا۔ اس نے پیش گوئی کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا ہے کہ اے مرزا قادیانی تُو مکہ میں مرے گا یا مدینہ میں۔ یعنی (نعوذ باللہ) مرزا قادیانی کے خدا کو بھی صحیح طرح معلوم نہ تھا کہ مرزا قادیانی مکہ میں مرے گا یا مدینہ میں؟ مرزا قادیانی کی یہ پیش گوئی سراسر غلط اور عبرتناک ثابت ہوئی۔ مرزا قادیانی برانڈرتھ روڈ لاہور کی احمدیہ بلڈنگ میں 26 مئی 1908ء کو مرا اور لاش ریل گاڑی پر قادیان بھجوائی گئی۔ جب مرزا قادیانی کی لاش لاہور ریلوے اسٹیشن لے جانے کے لیے احمدیہ بلڈنگ سے باہر نکالی گئی تو زندہ دلانِ لاہور نے اس کا بڑا ’’شاندار استقبال‘‘ کیا۔ یعنی راستے بھر مرزا قادیانی کے جنازے پر اس قدر غلاظتیں اور پاخانے پھینکے گئے کہ اس کی لاش بڑی مشکل سے ریلوے سٹیشن تک پہنچ سکی۔

مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ میں موت تو درکنار مرزا قادیانی کو ساری زندگی ان مقدس مقامات میں قدم رکھنے کی توفیق تک نہ ہوئی۔ جب کبھی مرزا قادیانی سے پوچھا جاتا کہ آپ حج کرنے کیوں نہیں جاتے؟ تو مرزا قادیانی طرح طرح کی تاویلات کرتا۔ کبھی کہتا کہ صحت ٹھیک نہیں ہے (جبکہ محمدی بیگم سے شادی کرنے کے لیے آخر عمر تک سر توڑ کوشش کرتا رہا) کبھی کہا گیا کہ اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے (جبکہ مخالفین کو 10، 10 ہزار روپے کا چیلنج دیتا) کبھی کہتا کہ میری جان کو خطرہ ہے (درآں حالیکہ اس کا کہنا تھا خدا کے مرسلین کسی سے نہیں ڈرا کرتے) سچی بات یہ ہے اللہ تعالیٰ کو منظور ہی نہ تھا کہ مرزا قادیانی حرمین شریفین کی حدود میں داخل ہو۔ حضور نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس شخص کے پاس اتنا خرچہ ہو اور سواری کا انتظام ہو کہ بیت اللہ شریف جا سکے اور پھر حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں اس بات میں کہ وہ یہودی ہو کر مر جائے یا نصرانی ہو کر۔‘‘ اب اس کا فیصلہ قادیانی خود کریں کہ باوجود وسائل ہونے کے مرز قادیانی نے حج نہیں کیا، لہٰذا وہ کس حیثیت سے مرا؟

قادیانیوں کا اس پیش گوئی کے متعلق یہ کہنا کہ اس سے مراد مکی فتح یا مدنی فتح ہو گی، کائنات کا سب سے بڑا دجل اور جھوٹ ہے۔ دنیا کی کسی لغت میں موت کا معنی فتح نہیں ہے۔ اگر موت کا معنی فتح ہے تو سب قادیانی زہر کھا کر مر جائیں تاکہ سب کی فتح ہو جائے۔ بہرحال مرزا قادیانی کی پیش گوئی کے برعکس اس کی موت لاہور میں اور قبر قادیان میں… اس کے جھوٹا ہونے کی ایک ایسی ناقابل تردید شہادت ہے جو ہمیشہ قادیانیوں کو ذلت و رسوائی سے دوچار کرتی رہے گی۔ باقی رہا قادیانیوں کا بے تُکی تاویلات کرنا، تو اس سلسلہ میں مرزا قادیانی کا کہنا ہے:

(2)                ’’اگر ان تمام الفاظ کی تاویل کی جائے گی تو پھر پیشگوئی کچھ بھی نہ رہے گی بلکہ مخالف کے نزدیک ایک باعث تمسخر ہوگا کیونکہ پیشگوئی کی تمام شوکت اور اس کا اثر اپنے ظاہر الفاظ کے ساتھ ہوتا ہے اور پیشگوئی کرنے والے کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ لوگ ان علامتوں کو یاد رکھیں اور انہی کو مدعی صادق کا معیار ٹھہرائیں۔ مگر تاویل میں تو وہ سارے نشان مقرر کردہ گم ہو جاتے ہیں اور یہ امر مقبول اور مسلم ہے

                 کہ نصوص کو ہمیشہ ان کے ظاہر پر حمل کرنا چاہیے اور ہر ایک لفظ کی تاویل مخالف کو تسکین نہیں دے سکتی کیونکہ اس طرح تو کوئی مقدمہ فیصلہ ہی نہیں ہو سکتا۔‘‘                (تحفہ گولڑویہ صفحہ 75 مندرجہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 161 از مرزا قادیانی)

قادیانی اپنے ’’مسیح موعود‘‘ کے مقرر کردہ صرف اس ایک نہایت معقول معیار ہی کو مدِنظر رکھ لیں تو قبولِ اسلام کے سوا ان کے پاس کوئی آپشن نہیں رہے گی کہ مرزا قادیانی کی پیش گوئیوں کے ’’عظیم الشان‘‘ ڈھیر میں ایک بھی پیش گوئی ایسی نہیں ہے جسے تاویل کی سان پر نہ چڑھایا گیا ہو۔