Language:

کادیانیت علما ٔکرام کی نظر میں حصہ دوم

علمائے کرام نے فتنہ قادیانیت کے خلاف بھرپور کام کیا ۔ اس فتنہ کے بارے میں علمائے کرام کے ایمان افروز مشاہدات و تاثرات اور انکشافات درج کئے جاتے ہیں۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمة اللہ علیہ:”قادیانی فتنہ کے سر اٹھاتے ہی جن علماء نے حق کا نعرہ بلند کیا اور جھوٹی نبوت سے برسرپیکار ہوگئے۔ ان اولین مجاہدین کی فہرست میں مولانا ثناء اللہ امرتسری کا اسم گرامی نہایت نمایاں ہے۔ مولانا کے تابڑ توڑ حملوں سے جعلی نبی بوکھلا اٹھا۔ اس مجاہد ختم نبوت نے تحریر و تقریر اور مناظرہ کے میدان میں قادیانت کو ذلیل و رسوا کیا اور آخرمولانا ہی سے ایک تحریری مباہلہ کے نتیجہ میں مرزا قادیانی ہیضہ کے موذی مرض میں مبتلا ہوکر جہنم واصل ہوگیا۔مرزا قادیانی نے مولانا ثناء اللہ امرتسری کو 15اپریل1907ء کو ایک مطبوعہ اشتہار کے ذریعہ اپنے مباہلہ کا چیلنج دیا جس کا عنوان تھا” مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ” اس میں مرزا قادیانی نے مولانا صاحب کو مخاطب کر کے لکھا۔”اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ آپ اکثر اوقات اپنے پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہلاک ہو جائوں گا مگر اے میرے کامل اور صادق خدا، اگر مولوی ثناء اللہ ان تہمتوں میں جو مجھ پرلگاتا ہے، حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی ان کو نابود کر مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون اور ہیضہ کے امراض مہلکہ سے”۔رب ذوالجلال کے باب عدل پر جھوٹے نبی نے خود ہی انصاف کی دستک دے دی۔ پھر کیا تھا، رب کائنات نے فیصلہ کردیا۔ مرزا قادیانی تقریباً ایک سال بعد اپنے منہ مانگے مرض ہیضہ میں مبتلا ہوا اور26مئی 1908 ء کو سوئے دوزخ روانہ ہوگیا جبکہ حق و صداقت کی علامت مولانا ثناء اللہ امرتسری مرزا قادیانی کی پرذلت موت کے بعد تقریباً 40 سال تک زندہ و تابندہ رہے اور قادیانیوں کے خلاف مسلسل جہاد میں مصروف رہے”۔
علامہ احسان الٰہی رحمة اللہ علیہ:”اسرائیل اور مرزائیت کا آپس میں گہرا رابطہ اور تعلق ہے اور مرزائیت اور اسرائیل اسلام دشمن قوتوں کی تخلیق اور سازش کا نتیجہ ہیں۔ مرزائیوں کے معتقدات مسلمانوں کے عقائد کے خلاف ہیں۔”
پروفیسر ساجد میر:”قادیانیوں نے اپنی مہم میں اخلاقی حدود کو بری طرح پامال کیا ہے۔ وہ جھوٹ بلکہ سفید جھوٹ بولنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ قادیانی قطعی طور پر خارج از اسلام ہیں۔ یہ دنیا بھر کے علماء کا متفقہ فیصلہ اور آئین پاکستان کا حصہ ہے”۔
”عقیدہ ختم نبوت قرآن مجید کی سو آیات سے ثابت ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے شروع ہی میںجہاں متقین کی صفات بیان فرمائی ہیں وہاں اس کا صراحةً ذکر فرمایا ہے۔ مسیلمہ کذاب اور ان کے پیروکار نہ صرف جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول مانتے تھے بلکہ تہجد گزار اور صوم و صلوة کے پابند تھے۔ ان کی ظاہری دینداری متاثر کرنے والی تھی۔ اس کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف کفر کا فتویٰ دیا اور حضرات صحابہ کرام نے ان کے خلاف جہاد میں سینکڑوں قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ختم نبوت کا مسئلہ تمام جہانوں کا مشترک مسئلہ ہے اور تمام مکاتب فکر کے مسلمانوں کو اس جدوجہد میں بھرپور حصہ لینا چاہئے”۔
حافظ عبدالقادر روپڑی:”مرزائیت مذہب کے قالب میں استعمار وسامراج کی آلہ کار تحریک ہے۔ مرزائیوں کا یہودیوں سے گٹھ جوڑ ہے اور اسرائیل میں ان کا باقاعدہ مشن قائم ہے۔ جہاں چوہدری ظفر اللہ قادیانی سابق وزیر خارجہ کام کرتا رہا ہے”۔
ابوالاعلیٰ مودودی:”مرزا قادیانی اور اس کی امت کا کفرو زندقہ ایک ثابت اور کھلی حقیقت ہے۔ پاکستان اور عالم اسلام کے لئے قادیانیت کا وجود ایک سرطان ہے لیکن بہت سے مسلمان بالخصوص پڑھے لکھے مسلمان افسوس ہے کہ اس خطرہ جان و ایمان سے آگاہ نہیں ہیں اور وہ قادیانی مسئلے کو محض فرقہ وارانہ اختلافات کا ایک ساخسانہ سمجھتے ہیں۔ ایسے مسلمان نہ قادیانی لٹریچر خود پڑھتے ہیں۔ نہ قادیانی ان تک اپنی صحیح عمر پہنچنے دیتے ہیں”۔
قاضی حسین احمد امیر جماعت اسلامی:”قادیانیت کے مکمل خاتمہ کے لئے تمام مکاتب فکر کے علماء کا اتحاد ناگریز ہے۔ قادیانی گروہ پاکستان کے خلاف مسلسل تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ اس جماعت کے افراد مسلح افواج ، نوکر شاہی اور صنعتی اداروں میں کلیدی عہدوں پر فائز ہیںجو طاغوتی طاقتوں کے سیاسی اور معاشی مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔ قادیانی آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ مرزائی چاہتے تھے کہ کوئی طاقت ان کو مسلمانوں کے نام پر اقتدار پر بٹھا دے، حکومت پاکستان ایرانی بہائیوں کی طرح پاکستان میں مرزائیوں کو خلاف قانون قرار دے۔ جن سیاسی جماعتوں میں قادیانی موجود ہیں، ان سے اتحاد کرنے سے ملک میں اسلامی انقلاب نہیں آسکتا”۔
سید اسعد گیلانی :”مرزائیت کوئی فرقہ نہیں بلکہ ایک نیا مذہب ہے۔ مرزائیت یا قادیانیت یا انکے اپنے الفاظ میں احمدیت حقیقت میں ”غلام احمدیت ” ہے۔ لیکن اختصار کی خاطر وہ اسے احمدیت کہتے ہیں۔ ایک نیا مذہب ہے۔ اس مذہب کا اپنا ایک تصور خدا ہے۔ وہ خدا جومرزائے قادیان سے قربت کر کے اسے حمل کردیتا ہے۔ ان کا اپنا ایک تصور رسالت ہے جس میں تمام قوموں کے موعود انبیاء کا اجتماع ہے۔ ان کا اپنا ایک تصور وحی ہے جو اردو، انگریزی، پنجابی، فارسی اور عربی کئی زبانوں میں نازل ہوئی ہے اور بے ربط اور بے مغز بھی ہوتی ہے۔ ان کا اپناایک تصور آخرت ہے جس میں وہ اپنی نبوت کی پیش گوئی قرآن سے تلاش کرتے ہیں۔ ان کا اپنا ایک تصویر ملائکہ ہے جو انسانی نفس پر اثر انداز ہونے والی اشیاء کی صورت میں ہے۔ ان کی اپنی ایک امت ہے۔ اس کے اپنے صحابہ، اپنے تابعی اور اپنے تبع تابعین ہیں۔یہ کوئی اسلام کے اندر ایک نیا فرقہ نہیں ہے بلکہ اسلام سے باہر ایک نیا ہندوستانی مذہب ہے۔
علامہ امین احسن اصلاحی صاحب:”میرے نزدیک قادیانی، اقلیت کے حقوق کے سزاوار تو نہیں تھے لیکن ہمارے ملک میں شرعی قوانین نافذ نہیں ہیں۔ اس وجہ سے بالفعل مسئلہ کا ممکن حل یہی تھا۔ یہ نرم سے نرم سلوک ہے جوان کے ساتھ کیا گیا ہے میں محسوس کرتا ہوںکہ قادیانی اس رعایت سے غلط فائدے اٹھانے کی کوشش کریں گے اور خاصااندیشہ اس امر کا بھی موجود ہے کہ بعض غلط اندیش لوگ اقلیت کے نام پر ان کی سرپرستی کریں۔ ان خطروں کے سد باب کی واحد شکل یہی ہے کہ مسلمان بیدار رہیں۔ اگرمسلمانوں نے اس معاملے میں غفلت کی تو اب قادیانیوں کوجو قانونی تحفظ حاصل ہوگیا ہے۔ اس کی آڑ میں وہ ہمارے مذہب اور ملک دونوں کو پہلے نسبت زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں”۔
مولانا فتح محمد امیر جماعت اسلامی پنجاب:”مرزائیت اس ملک کا بہت بڑا فتنہ ہے۔ اسے ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔ ختم نبوت پرتمام مسلمانوں کومتحد ہوجانا چاہئے”۔
میجر (ریٹائرڈ)محمد امین منہاس، مذہبی سکالر:”قادیانیوں کو شعائر اسلام استعمال کرنے کی اجازت نہیںدی جاسکتی۔ قادیانی جب کلمہ پڑھتے ہیں توان کا وہ مطلب نہیں ہوتا جوایک عام مسلمان کو ہوتا ہے۔ قادیانی جب کلمہ پڑھتے ہیں تو محمد سے مراد ”مرزا غلام احمد ”لیتے ہیں۔ یہ منافقین میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے کاذب کہا ہے۔ اللہ نے کفار اور منافقین کے خلاف جہاد کا حکم دیا ہے۔ اسلام دشمن طاقتوں نے اسلام اور فلسفہ جہاد سے خوفزدہ ہو کر مرزا غلام احمد قادیانی کو پلانٹ کیا، جس نے جہاد کو حرام قرار دیا۔ مسلمانوں اور کافروں کے بنیادی حقوق الگ الگ ہیں۔ بنیادی حقوق کے پردے میں قادیانیوں کو گھنائونا کھیل کھیلنے کی اجازت نہیں دی جاسکی۔ قادیانی کبھی قرآن و سنت کی بات نہیں کرتے، وہ صرف بنیادی حقوق کا موقف اختیار کرتے ہیں۔ ہم عیسائیوں، ہندوئوں سب کو اعتقاد کا حق دیتے ہیں مگر قادیانیوں کو یہ حق اس لیے نہیں دے سکتے کہ یہ اسلام کا لبادہ اوڑھتے اور شعائر اسلام کی آڑ میں قادیانیت پھیلاتے ہیں۔ قادیانی، بنیادی انسانی حقوق کے طور پر شعائر اسلام اپنانے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن کوئی بنیادی انسانی حقوق قابل قبول نہیں ، اگر وہ قرآن و سنت سے متصادم ہوں۔ قادیانیوں کوایک دن بھی مسلمان تصور نہیں کیا گیا”۔
پروفیسر خورشیداحمد:”قادیانیت کے متعلق میرا ہمیشہ سے خیال ہے کہ اسے شعوری طور پر وہی قبول کرسکتا ہے جو یا تو اچھا خاصا غبی ہو یا پھر اسے کوئی مفاد اس کی طرف لے جائے”۔
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مرحوم:”قادیانی مسئلہ جو ہمارے جسد ملی میں ناسورکی حیثیت رکھتاہے۔ ایک نئے اور پیچیدہ تر مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ یہ فتنہ اپنے سازشی کردار اور خاموشی لیکن انتہائی مہارت کے ساتھ جسد ملت میں سرطان کے پھوڑے کی طرح جڑیں جمانے کے اعتبار سے پوری ملت اسلامیہ کی تاریخ میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ نبوت کا جس کی بناء پر ان کے ماننے والے لوگوں کے نزدیک وہ سب لوگ کافر قرار پائے ، جنہوںنے ان کونہیں مانا اور پوری امت محمدیہ علی صا حبہ اسلام کے نزدیک ان لوگوں کے کفر و ارتداد میں ہرگز کوئی شک و شبہ نہیں ہے جنہوں نے کسی بھی حیثیت سے انہیں مان لیا۔ اب غلام احمد قادیانی اور ان کی ذریت صلبی و معنوی کی ”پختہ زناری” کاعالم تو یہ ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں اور ان کے حق میں لچر سے لچر زبان اور گھٹیا سے گھٹیا مذہبی گالیاں استعمال کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے۔ حتیٰ کہ اس نئی امت کاایک مشہور و معروف فرد (ظفر اللہ خاں قادیانی) اپنے محسن ومربی اور ربانی ریاست وسربراہ مملکت قائدِ اعظم محمد علی جناح ،جن کی نماز جنازہ پڑھنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیتاہے کہ ” مجھے خواہ ایک مسلمان ملک کاغیر مسلم وزیر قرار دے دیا جائے خواہ ایک غیر مسلم حکومت کا مسلمان وزیر” لیکن ہمارے دانشوروں اور سیاست دانوں کی ”رقت قلب” اور ”وسعت قلبی” کا عالم یہ ہے کہ قادیانیوں کوغیر مسلم اقلیت قرار دے کران کے جان و مال اور عزت وآبرو کو پورا تحفظ دینے اور انہیں عقیدہ وعبادات کے ضمن میں پوری آزادی دینے کے بعد صرف ان کی جارجانہ پیش قدمی کی روک تھام کیلئے کچھ ناگریز اقدام کئے جاتے ہیں تو ان کا جذبہ رحم اور داعیہ حمایت مظلوم جوش میں آجاتا ہے”۔