Language:

قادیانیوں سے ہمہ جہت بائیکاٹ و مقاطعہ کا معاملہ حصہ دوم – شاہ عالم گورکپوری نائب ناظم ہند دارالعلوم دیوبند

 قادیانیت بنام احمدیت کوئی مذہب نہیں بلکہ انگریزوں اور یہودیوں کی اس کالی سیاست کو لفظ مذہب سے تعبیر کرنا نہ صرف یہ لفظ ’’ مذہب ‘ ‘ کی توہین ہے بلکہ اس لفظ کے تحت جمہوری ممالک میں جو قوانین اور عزت و احترام کے جو حقوق محفوظ ہیں اُن کا حقدار ماننے کی فحش غلطی بھی کرنا ہے ۔ یہ بحث الگ ہے کہ کوئی مذہب حق ہے یا باطل ، لیکن مطلق لفظ مذہب کے ساتھ ایک طر ح کی پاکیزگی اور تقدس ضرور وابستہ ہے اور اس لفظ کے تحت آنے والے ہر گروہ و فرد کو جمہوری و غیر جمہوری ممالک نے کچھ نہ کچھ حقوق بھی دیئے ہیں ۔ ان حقائق کے پیش نظر تقاضا اس کا ہے کہ چونکہ قادیانیت کا فتنہ ہونا ہی اس کا اصل دائرہ و حقیقت ہے اس لئے قادیانی فتنہ سے خود اسی کے دائرے میں بنام ’’ قادیانی فتنہ ‘‘ ہی نمٹا جائے نہ کہ بنام’’ قادیانی مذہب‘‘ ۔کیوںکہ فتنہ اور فتنہ انگیزوں کا نہ حقوق انسانی کے تحت کوئی حق ہوتا ہے نہ ملکی قوانین کے تحت کوئی حق دیا جاتا ہے ۔ اگر کوئی حکومت فتنہ کے تئیں عزت و احترام کا کوئی حق محفوظ کرے تو دنیا میں کسی پر اس کی پابندی لازم نہیں ۔بلکہ خلاف ورزی لازم ہے ۔

قادیانیت کے فتنہ ہونے اور اس کے کفر و زندقہ کے فیصلے پر سو سال سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے ماضی میں پارلیمنٹری اور عدالتی سطحوں پر بھی بارہا اس کے اعلانا ت ہوچکے ہیں ۔اب قادیانی فتنہ کے خلاف ، تعلیمی ، رفاہی ، سماجی ،سیاسی، اقتصادی اور ترقیاتی تقاضوں کے دیگر میدانوں میں اپنے اندر عزم و حوصلہ پیدا کرنا چاہئے ، مسلمانوں کو اپنے اصل پلیٹ فارم پر رہتے ہوئے اپنے حقوق محفوظ کرنے کا مطالبہ کرنا چاہئے ۔قادیانی اگر حیلہ سازی کے طور پر( جیسا کہ کوئی بپتا پڑنے پر وہ کرتے ہیں )اپنی پوزیشن بدل کر مسلم معاشرے میں شامل ہونے یا کرنے ، یا خود کو مسلمان کہنے ، روزی روٹی سے لیکر مٹی قبرستان تک کسی بھی معاملے میں مسلمانوں کے ساتھ شریک ہونے یا رہنے کی بات کرتے ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ اپنے سابقہ فیصلوں کے مطابق مسلمانوں کے حقوق پر غاصبانہ حملہ کرنے کے مرتکب ہیں ۔ اس صورت میں مظلوم مسلمانوں کو اپنے حقوق کی حفاظت کا اخلاقی اور ملکی دونوں سطح پر حق حاصل ہے۔ حکومت وقت سے مطالبہ کیاجائے کہ وہ قادیانیوں کوخود اپنے فیصلے اور دائرے میں رہنے کا پابند بنائے ۔

یہاںایک بات ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ صدیوں پرانا اور فیصل شدہ تکفیری مسئلہ اور مواد آج جدید نسل اور ناواقفوں کو واقف کرانے کے لئے اگر منظر عام پر لایاجاتا ہے تو قادیانی ،عوام میں یہ مغالطہ پیدا کرتے ہیں کہ علماء نے پہلے فلاں کو کافر کہا، پھر فلاں کو کافر کہا اور اب قادیانیوں کو کافر قرار دینے میں لگے ہیں ۔ کبھی آپس میں اور کبھی اپنے مخالف کو کافر قرار دینا ان علماء کا مشغلہ بن چکا ہے لہذا قادیانیوں کو کافر کہا تو کوئی نئی بات نہیں ہے ۔

اس مغالطے کا جواب دینے کے لئے اِس تاریخی حقیقت پر نظر ڈالئے کہ مرزا قادیانی کے اسباب کفر اختیار کرنے سے پہلے ،علماء دین نے خود پہل کرکے اس کو کافر قرار دیا ہو یا اپنی ذات کی بیعت لینے اور مسلمانوں سے علیحدہ جماعت بنانے سے پہلے ،کسی عالم دین نے مسلم معاشرے سے اس کو علیحدہ قرار دینے میں پہل کی ہو،کوئی قادیانی اس کی مستند تاریخ پیش نہیں کرسکتا ۔

 اپنے جنم داتا انگریزبہادروں کی’’ کالی سیاست‘‘ کو الہامی زبان دینے کا آغاز مرزا نے ۱۸۸۰؁ء سے پہلے ہی کر رکھا تھا ، اس پر احمدیت کا مکھوٹا اس نے تقریباً ایک دہائی بعد ۱۸۸۹ئ؁ میں تجویز کیا ،اس کے بعد تیسرے مرحلے میں جاکر اُس مکھوٹے کے تحت اس نے مذہبی جراثیم بتدریج پیدا کرنے شروع کئے ۔اس درمیان غور فرمائیے کہ مرزا قادیانی، الہام سازی اور الہام بازی کا کھیل پوری خر مستی کے ساتھ تقریر و تحریر کے میدان میں فرنگی حکومت کے زیر سایہ تن تنہا بغیر کسی نام کے کھیلتا رہا ۔ایک دہائی سے زائد عرصہ تک عام لوگ تو کیا ، اس کے قریبی دوست بھی اُس کی حقیقت اور اُس کے رخ و مزاج کو سمجھ ہی نہ پائے تھے ۔حالات سے گہرے واقف کار مقامی علماء نے بے لگام دیکھ کر اُس کی ناک میں شریعت کی نکیل ڈالنے ضرور چاہے لیکن بیشتر اکابر نے توقف کا ہی دامن تھامے رکھا تھا ۔ بالآخر اپنی تقریر و تحریر میں اسباب کفر کھل کراختیار کرکے جب مرزا نے اسلام سے نکل جانے کی پہل کی تو علماء اسلام نے بھی اسلام سے اُس کے نکل جانے کی تائید کی اور اُس کو اسلام کا منکر و کافر مان لیا۔ پھر جب مسلمانوں سے الگ جماعت بناکر بیعت کرنے والوں کو مسلمانوں سے الگ رہنے اور کرنے کا اعلان مرزا نے کیا تو علماء اسلام نے اس کو بھی مان لیا گویا مرزا نے جب کسی کام میں پہل کی تو علماء اسلام نے اس کی تائید و توثیق کردی ۔علما ء اسلام نے کسی بھی کام میں پہل کب کی جو قادیانی گماشتے علماء اسلام کے سر ، کافر قرار دینے اور بائیکاٹ کرنے کا ٹھیکرا پھوڑتے پھرتے ہیں ۔احمدیت کے مکھوٹے پر اسلام کا لیبل لگاکر وہ توخود اصل اسلام سے نکلے ہوئے ہیں پھر اس کو علماء کی جانب ’’ نکالنے ‘‘کی نسبت کرکے لوگوں کی آنکھوں میں دھول کب تک جھونکتے پھریںگے!

علاوہ ازیں اس پر بھی غور کیا جائے کہ اسلام میں داخل مکاتب فکر، دیوبندی بریلوی غیر مقلد وغیرہ اگر آپس میں تکفیر بازی کرتے ہیں اور غلط فہمی یا دلائل کی بنیاد پر کسی کو اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں تو ان کی یہ بنیاد تو مسلّم ہے کہ وہ اسلام میں داخل ہیں کسی کے نکالنے سے کوئی نکلا یا نہیں یہ تو بعد کا مسئلہ ہے ۔جو دلائل کے قبول و عدم قبول، قوت و ضعف و غیرہ پر موقوف ہے ۔لیکن قادیانیوں کا مسئلہ تو بالکل اس سے جدا گانہ ہے وہ اسلام میں داخل کب رہے جو عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے اسلامی فرقوں پر خود کو قیاس کرتے پھرتے ہیں ۔

یہ تو ایسا ہے کہ ایک مکان کے چار واجبی حقدار ہوں ،جو آپس میں حصہ دار ی پرجھگڑ رہے ہوں، اُن میں کوئی ایک، دوسرے کو حقدار و حصہ دار نہ مانے اور یہ کہے کہ فلاں دلیل کی بنیاد پر اب تم اس مکان سے خارج ہوجا ؤ، کیوں کہ اب تمھارا اس میں حصہ نہیں رہا ۔اسی درمیان کوئی راہزن اور ڈاکو ، مکان میں جبراً داخل ہوکر اُن کے جھگڑے میں خود کو شریک کرلے اوراپنی حصہ داری کا بھی دعوی شروع کردے کہ صاحب آپس میں تم سب لڑرہے ہو لہٰذا اب مکان کا مالک میں ہوں ، اور دلیل یہ دینی شروع کردے کہ فلاں نے فلاں کو کہا کہ مکان کی حصہ داری سے خارج ہے ۔ ہر ایک ،ایک دوسرے کو اسی طرح کہتا ہے لہٰذا ہمارے متعلق بھی مکان کی حصہ داری سے خارج ہونے کا اُن سب کا فیصلہ غلط ٹھہرا اور اس طور پر میں مالک مکان ٹھہرا ۔تو کیا اس راہزن کی دلیل مان لی جائے گی ؟ یا سب سے پہلا سوال یہ ہوگا تمھاری پوزیشن تو چور ڈاکو کی ہے ،حصہ داری اور ملکیت کی بات تو بہت دور کی ہے ،حقدار ہونے کی تو تمھارے اندر اہلیت بھی نہیں، تمھارا تو اس مکان میں داخلہ بھی جرم ہے۔ تم کدھر سے آئے ہو اور کیسی بات کرتے ہو ۔۔

بالکل یہی معاملہ ایمان اور اسلام کے ڈاکو قادیانیوں کا ہے کہ اسلام کا ٹھیکہ دار یا حصہ دار ہونے کی بات تو بہت دور کی ہے وہ تو واجبی حقدار ہونے کی اپنے اندر اہلیت بھی نہیں رکھتے ،تقسیم ہند سے قبل تک خود ہی مسلمانوں سے الگ پارسیوں، یہودیوں کی طرح مستقل اقلیت ہونے کا اپنے جنم داتاؤں( انگریزی حکومت ) سے مطالبہ کرتے رہے ہیںبلکہ مردم شماری میں بھی اپنا اندراج الگ کراتے رہے ہیں ۔آج انگریزوں کی کالی سیاست پر احمدیت کا مکھوٹا چڑھالینے اور مسلمانوں کی زبوں حالی کا فائدہ اٹھاکر اس مکھوٹے کو مذہب میں شمار کرانے اور’’ احمدی اسلام ‘‘ کا تلبیسی بینر لگالینے سے سیاست کا بدبودار اور نجس مادہ پاک کب ہوجائے گا کہ وہ خود کو اسلام کے دائرے میں شامل جماعتوں پر  قیاس کرتے ہیں ۔بلکہ حق و انصاف کی رو سے تو اُن کا یہ قیاس کرنا بھی جرم اور دجل و تلبیس ہے !

آج جب مرزائیوں پر خدا کی وسیع وعریض زمین تنگ ہوتی جارہی ہے تو دفع الوقتی کے طور پر کہیں یہود و نصاریٰ کی طاقت کے سہارے کہیں جمہوریت کی آڑ لے کر اور کہیں انسانی حقوق کی دہائی دے کرتو کہیں عوام و خواص کو مغالطہ دے کرقوم یہود کی طرح ذلت و نکبت کی ہر مار سہنے کے لئے تو آمادہ ہیں لیکن ان حقائق پر غور کرنے اور ان کو تسلیم کرکے اپنی اصلاح کرنے اور آخرت کی فکر کرنے پر آمادہ نہیں ہیں ۔ اسی کو کہتے ہیں کفر کی ضلالت میں قلب و دماغ کا مسخ ہوجانا اور یہی ہے مرزائیت،قادیانیت ۔

ان حقائق کی روشنی میں مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کراچی کے استفسار پر حضرت مولانامفتی ولی حسن صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا فتوی جو اسلامی دلائل کا پہلو لئے ہوئے قرآن و احادیث او ر شرعی دلائل و براہین پر مشتمل ہے، حرف بحرف درست اور دور حاضر میں رہنمائی کے قابل ہے اور مسلمانوں کے لئے واجب التعمیل بھی ۔ امید کی جاتی ہے کہ حسب سابق انشاء اﷲدور حاضر کے لئے بھی اس کی اشاعت عوام و خواص کے لئے مفید ہوگی ۔