Language:

قادیانیوں سےمکمل بائیکاٹ پر دیوبندی متکبہ فکر کا موقف حصہ اول

بلاشبہ قرآن کریم کی وحی قطعی جناب رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی احادیث متواترہ قطعیہ اور امت محمدیہ کے قطعی اجماع سے ثابت ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ اس لئے حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا مدعی کافر اور دائرہ اسلام سے قطعاً خارج ہے اور جو شخص اس مدعی نبوت کی تصدیق کرے اور اسے مقتداء و پیشوا مانے وہ بھی کافر اور مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اس کفر اور ارتداد کے ساتھ اگر اس میں وجوہ مذکور فی السوّال میں سے ایک وجہ بھی موجود ہو تو قرآن کریم اور احادیث نبویہ صلی اﷲ علیہ وسلم اور فقہ اسلامی کے مطابق وہ اسلامی اخوت اور اسلامی ہمدردی کا ہرگز مستحق نہیں۔ مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس کے ساتھ سلام و کلام، نشست و برخاست اور لین دین وغیرہ تمام تعلقات ختم کردیں۔ کوئی ایسا تعلق یا رابطہ اس سے قائم کرنا جس سے اس کی عزت و احترام کا پہلو نکلتا ہو یا اس کو قوت وآسائش حاصل ہوتی ہو جائز نہیں۔ کفار محاربین اور اعداء اسلام سے ترک موالات کے بارے میں قرآن حکیم کی بے شمار آیات موجود ہیں۔ اسی طرح احادیث نبویہ اور فقہ میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔

یہ واضح رہے کہ کفار محاربین جو مسلمانوں سے برسر پیکار ہوں، انہیں ایذا پہنچاتے ہوں، اسلامی اصلاحات کو مسخ کر کے اسلام کا مذاق اڑاتے ہوں اور مار آستین بن کر مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو منتشر کرنے کے درپے ہوں۔ اسلام ان کے ساتھ سخت سے سخت معاملہ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ رواداری کی ان کافروں سے اجازت دی گئی ہے جو محارب اور موذی نہ ہوں۔ ورنہ کفار محاربین سے سخت معاملہ کرنے کا حکم ہے۔ علاوہ ازیں بسا اوقات اگر مسلمانوں سے کوئی قابل نفرت گناہ سرزد ہوجائے تو بطور تعزیر و تادیب ان کے ساتھ ترک تعلق اور سلام و کلام و نشست و برخاست ترک کرنے کا حکم شریعت مطہرہ اور سنت نبوی میں موجود ہے۔ چہ جائیکہ کفار محاربین کے ساتھ۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے تو اسلامی حکومت پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ان فتنہ پرداز مرتدین پر ’’ من بدل دینہ فاقتلوہ‘‘ کی شرعی تعزیر نافذ کر کے اس فتنہ کا قلع قمع کرے اور اسلام اور ملت اسلامیہ کو اس فتنہ کی یورش سے بچائے۔

چنانچہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین رضی اﷲ عنہم نے فتنہ پرداز موذیوں اور مرتدوں سے جو سلوک کیا وہ کسی سے مخفی نہیں اور بعد کے خلفاء اور سلاطین اسلام نے بھی کبھی اس فریضہ سے غفلت اور تساہل پسندی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ لیکن اگر مسلمان حکومت اس قسم کے لوگوں کو سزا دینے میں کوتاہی کرے یا اس سے توقع نہ ہو تو خود مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے۔تاکہ وہ بحیثیت جماعت اس قسم کی سزا کا فیصلہ کریں جو اس کے دائرہ اختیار میں ہو۔ الغرض ارتداد، محاربت، بغاوت، شرارت ، نفاق، ایذائ، مسلمانوں کے ساتھ سازش، یہودونصاریٰ وہنود کے ساتھ سازباز، ان سب وجوہ کے جمع ہوجانے سے بلاشبہ مذکورہ فی السوال فرد یا جماعت کے ساتھ مقاطعہ یا بائیکاٹ نہ صرف جائز ہے بلکہ واجب ہے، اگر مسلمانوں کی جماعت بہیئت اجتماعی اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے مقاطعہ یا بائیکاٹ جیسے ہلکے سے اقدام سے بھی کوتاہی کرے گی تو وہ عنداللہ مسئول ہوگی۔

یہ مقاطعہ یا بائیکاٹ ظلم نہیں بلکہ اسلامی عدل و انصاف کے عین مطابق ہے۔کیونکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو ان کی محاربت اور ایذاء رسانی سے محفوظ کیا جائے۔ اور ان کی اجتماعیت کو ارتداد و نفاق کے دستبرد سے بچایا جائے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ خود ان محاربین کے لئے بھی اس میں یہ حکمت مضمر ہے کہ و ہ اس سزا یا تادیب سے متاثر ہو کر اصلاح پذیر ہوں اور کفرو نفاق کو چھوڑ کر ایمان و اسلام قبول کریں۔ اس طرح آخرت کے عذاب اور ابدی جہنم سے ان کو نجات مل جائے، ورنہ اگر مسلمانوں کی ہئیت اجتماعیہ ان کے خلاف کوئی تادیبی اقدام نہ کرے تو وہ اپنی موجودہ حالت کو مستحسن سمجھ کر اس پر مصر رہیں گے اور اس طرح ابدی عذاب کے مستحق ہوں گے۔

رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچ کر ابتداء ً یہی طریقہ اختیار فرمایا تھا کہ کفار مکہ کے قافلوں پر حملہ کر کے ان کے اموال پر قبضہ کیا جائے تاکہ مال اور ثروت سے ان کو جو طاقت اور شوکت حاصل ہے وہ ختم ہوجائے۔ جس کے بل بوتے پر وہ مسلمانوںکو ایذاء پہنچاتے ہیں اور مقابلہ کرتے ہیں اور مختلف سازشیں کرتے ہیں۔ قتل نفس اور جہاد بالسیف کے حکم سے پہلے مقاطعہ اور دشمنوں کو اقتصادی طور پر مفلوج کرنے کی یہ تدبیر اس لئے اختیار کی گئی تھی تاکہ اس سے ان کی جنگی صلاحیت ختم ہوجائے اور وہ اسلام کے مقابلہ میں آکر کفر کی موت نہ مریں۔ گویا اس اقدام کا مقصد یہ تھا کہ ان کے اموال پر قبضہ کر کے ان کی جانوں کو بچایا جائے۔ کیونکہ اموال پر قبضہ ان کی جان لینے سے زیادہ بہتر تھا۔

علاوہ ازیں اس تدبیر میں یہ حکمت و مصلحت بھی تھی کہ کفار مکہ کے لئے غوروفکر کا ایک اور موقع فراہم کیا جائے  تا کہ وہ ایمان کی نعمت سے سرفراز ہو کر ابدی نعمتوں کے مستحق بن سکیں اور عذاب اخروی سے نجات پاسکیں۔لیکن جب اس تدبیر سے کفارو مشرکین کے عناد کی اصلاح نہ ہوئی تو ان کے شروفساد سے زمین کو پاک کرنے کے لئے اﷲ تعالیٰ کی جانب سے جہاد بالسیف کا حکم بھیج دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے قریش کے تجارتی قافلہ کے بجائے ان کی عسکری تنظیم سے مسلمانوں کا مقابلہ کرادیا۔رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ابتدائی تدبیر سے امت مسلمہ کو یہ ہدایت ضرور ملتی ہے کہ خاص قسم کے حالات میں جہاد بالسیف پر عمل نہ ہوسکے تو اس سے اقل درجہ کا اقدام یہ ہے کہ کفار محاربین سے نہ صرف اقتصادی بائیکاٹ کیا جائے بلکہ ان کے اموال پر قبضہ تک کیا جاسکتا ہے مگر ظاہر ہے کہ عام مسلمان نہ تو جہاد بالسیف پر قادر ہیں نہ ا نہیں اموال پر قبضہ کی اجازت ہے۔اندریں صورت ان کے اختیار میں جو چیز ہے وہ یہ ہے کہ ان موذی کا فروں سے ہر قسم کے تعلقات ختم کر کے ان کو معاشرہ سے جدا کردیا جائے ۔

            بدن انسانی کا جو حصہ اس درجہ گل سٹرجائے کہ اس کی وجہ سے تمام بدن کو نقصان کا خطرہ لاحق ہواور جان خطرہ میں ہو تو اس ناسور کو جسم سے پیوستہ رکھنا دانش مندی نہیں ۔بلکہ اسے کاٹ دینا ہی عین مصلحت و حکمت ہے ۔تمام عقلاء اور حکماء واطباء کااسی پر عمل واتفاق ہے اور پھر جب یہ موذی کفار مسلمانوں کا خون چوس چوس کر پل رہے ہوں اورطاقتوربن کر مسلمانوں ہی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کررہے ہوں تو ان سے خریدوفرخت اور لین دین میں مکمل مقاطعہ کرنا اسلام اور ملت اسلامیہ کے وجودوبقاء کے لئے ایک ناگزیر ملی فریضہ بن جاتا ہے ۔آج بھی اس متمدن دنیا میں مقاطعہ یا اقتصادی نا کہ بندی کو ایک اہم دفاعی مورچہ سمجھا جاتا ہے اور اس کو سیاسی حربہ کے طور پر استعمال کیا جاتاہے ۔مگر مسلمانوں کے لئے یہ کوئی سیاسی حربہ نہیں۔بلکہ اسوہ نبی ،سنت رسول اور ایک مقدس مذہبی فریضہ ہے۔اسلام کی غیرت ایک لمحہ کے لئے یہ برداشت نہیں کرتی کہ اسلام اور ملت اسلامیہ کے دشمنوں سے کسی نوعیت کاکوئی تعلق اور رابطہ باقی رکھاجائے ۔

            اب ہم آیات قرآنیہ ،احادیث نبویہ اور فقہاء امت اسلامیہ کے وہ نقول پیش کرتے ہیں جن سے اس مقاطعہ کا حکم واضح ہوتا ہے ۔

 1۔         ’’ان إذا سمعتم اٰیٰت اﷲ یکفربھا ویستھزأ بھافلا تقعدوامعھم۔‘‘                                                                 (سورۃ نساء :آیت 140)

            ترجمہ …..  ’’اور جب سنوتم کہ اﷲ کی آیتوںکا انکار کیا جارہا ہے اور ان کا مذاق اُڑایا جارہاہے تو ان کے ساتھ نشست وبرخاست ترک کردو۔‘‘

2۔            ’’وإذا رأیت الذین یخوضون فی اٰیٰتنافاعرض عنھم ۔‘‘                                                                        (سورۃ انعام ، آیت8 6)

            ترجمہ   ’’او رجب تم دیکھوان لوگوں کو جومذاق اُڑاتے ہیں ہماری آیتوں کا توان سے کنارہ کشی اختیار کرلو۔‘‘

اس آیت کے ذیل میں حافظ الحدیث امام ابوبکر الجصاص الرازی لکھتے ہیں کہ :         ’’وھذایدل علی أن علیناترک مجالسۃ الملحدین وسائر الکفار  عند إظھارھم الکفر والشرک ومالا یجوز علی اللّٰہ تعالیٰ إذا لم یمکنّا إنکارہ… الخ۔

ترجمہ… ’’یہ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ہم (مسلمانوں) پرضروری ہے کہ ملاحدہ اور سارے کافروں سے ان کے کفرو شرک، اور اللہ تعالیٰ پرناجائز باتیں کہنے کی روک نہ کر سکیں تو ان کے ساتھ نشست و برخاست ترک کردیں۔‘‘

3          ترجمہ:   ’’ا ے ایمان والو!تم یہودو نصاری کو اپنا دوست مت بنائو‘‘۔

امام ابو بکر الجصاص لکھتے ہیں کہ : ’’وفی ہذہ الآیۃ دلالۃ علی أن الکافر لا یکون ولیاً للمسلم لا فی التصرف ولا فی النصرۃ۔ ویدلّ علی وجوب البراء ۃ من الکفار والعداوۃ لھم، لأن الولایۃ ضد العداوۃ، فاذا أمرنا بمعاداۃ  الیھود والنصاری لکفرھم فغیرھم من الکفار بمنزلتھم ویدلّ علی أن الکفر  کلہ ملّۃ  واحدۃ۔                                                                                                                                         (احکام القرآن 2،444)

ترجمہ:   ’’اس آیت میں اس امر پر دلالت ہے کہ کافر مسلمانوں کا ولی(دوست) نہیں ہوسکتا۔ نہ تو معاملات میں اور نہ امدادو تعاون میں۔ اور اس سے یہ امر بھی واضح ہوتا ہے کہ کافروں سے برأت اختیار کرنا اور ان سے عداوت رکھنا واجب ہے کیونکہ ولایت عداوت کی ضد ہے اور جب ہم کو یہودو نصاریٰ سے ان کے کفر کی وجہ سے عداوت رکھنے کا حکم ہے۔ دوسرے کافر بھی انہیں کے حکم میں ہیں سارے کافر ایک ہی ملت ہیں۔‘‘

4۔          سورۃ ممتحنہ کا موضوع ہی کفار سے قطع تعلق کی تاکید ہے۔ اس سورۃ میں بہت سختی کے ساتھ کفار کی دوستی اور تعلق سے ممانعت کی گئی ہے۔ اگرچہ رشتہ دار قرابت دار ہوں اور فرمایا کہ قیامت کے دن تمہارے یہ رشتے کام نہیں آئیں گے۔ اور یہ کہ جو لوگ آئندہ کفار سے دوستی اور تعلق رکھیں گے، وہ راہ حق سے بھٹکے ہوئے اور ظالم شمار ہوں گے۔

5۔          ’’لاتجد  قوما یومنون باللّٰہ والیوم الاٰخر یوآدّون من حادّ اللّٰہ ورسولہ ولو کانوا ابآء ھم أوابناء ھم اواخوانھم او عشیرتھم۔ ‘‘

                                                                                                                                               (سورۃ مجادلہ، آیت22)

ترجمہ:   ’’تم نہ پائو گے کسی قوم کو جو یقین رکھتے ہوں۔ اللہ پر اور آخرت پر کہ دوستی کریں ایسوں سے جو مخالف ہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے۔ خواہ ان کے باپ ہوں، بیٹے ہوں، بھائی ہوں یا خاندان والے ہوں۔‘‘

آگے چل کر اس آیت کریمہ میں ان مسلمانوں کو جو باوجود قرابت داری کے محارب کافروں سے دوستانہ تعلقات ختم کردیتے ہیں۔ سچا مومن کہا گیا ہے۔ انہیں جنت اور رضوان الٰہی کی بشارت سنا دی گئی ہے اور ان کو ’’حزب اللہ‘‘ کے لقب سے سرفراز فرمایا گیا ہے۔ جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ خدا اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں سے دوستی رکھنا کسی مومن کا کام نہیں ہوسکتا۔

بطور مثال ان چند آیات کاتذکرہ کیا گیا ہے۔ ورنہ بے شمار آیات کریمہ اس مضمون کی موجود ہ ہیں۔                                         (جاری ہے)