Language:

آپ بیتی – ڈاکٹر وحید عشرت

میں ریلوے میں بطور ٹکٹ کلکٹر ملازم تھا اور مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ ریلوے اسٹیشن شیخوپورہ پر میری تعیناتی تھی اور میں نے گورنمنٹ کالج شیخوپورہ میں داخلہ لے رکھا تھا جہاں مخلوط تعلیم تھی۔ 1967ء کی ایک دوپہر کو میں گیٹ پر ڈیوٹی دے رہا تھا کہ ایک نہایت خوبصورت لڑکی میرے پاس آئی ۔ اس نے کالا برقعہ پہن رکھا تھا۔ اس نے کہا ’’وحید تم یہاں کیسے؟ تم تو کالج میں ہمارے ساتھ پڑھتے ہو۔ میں نے بتایا ہاں میں کالج میں بھی پڑھتا ہوں اور شام کو اور رات کو ریلوے میں ٹکٹ کلکٹر کی ملازمت بھی کرتا ہوں۔ وہ کہنے لگی مجھے سانگلہ ہل جانا ہے۔ میرا نام بشریٰ ہے اور یہ میری بہن گل۔ آپ کالج میگزین کے ایڈیٹر اور کالج کی تقریبات اور حلقہ افکار مشرق میں بڑے نمایاں ہوتے ہیں۔ کئی مرتبہ خواہش ہوئی کہ آپ سے ملوں مگر جھجکتی رہی۔ میں بھی سانگلہ ہل میں ڈسپنسر ہوں اور ساتھ ہی پڑھتی ہوں۔ کل کالج میں ملوں گی۔ کبھی سانگلہ ہل آئونا۔ وہاں میرے پاس الگ کوارٹرہے اور ہاں گاڑی میں کتنی دیر ہے۔ میں نے کہا کہ نصف گھنٹہ ہے۔ اس نے کہا میں ویٹنگ روم میں بیٹھتی ہوں۔ فارغ ہوجائو تو آجانا۔ کوئی دس منٹ بعد اس کی بہن گل آئی اور اس نے کہا کہ باجی کہہ رہی ہے ، چائے ٹھنڈی ہورہی ہے۔چائے ۔میں نے پوچھا ۔اس نے کہا ہاں۔ باجی نے سٹال سے چائے، سموسے اور برفی منگوائی ہے۔ میں ویٹنگ روم میں داخل ہوا تو اس نے برقعہ اتار رکھا تھا اور ہلکے رنگ کی گلابی شلوار قمیض پہن رکھی تھی۔ ڈوپٹہ بھی اس طرح تھا جو اس کے حسن کو مزید نکھار رہا تھا۔ میرے داخل ہوتے ہی وہ دروازے تک آئی اور مجھے کرسی پیش کرتے ہوئے کہا۔ میزبانی تو آپ کو کرنی چاہیے تھی مگر یہ شرف بھی میں حاصل کررہی ہوں۔ دوستوں اور کلاس فیلوز سے کیا پردہ۔ ویسے بھی مجھے اٹیلیکچول لوگ اور لکھنے والے بہت اچھے لگتے ہیں۔ اس نے چائے کی پیالی میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا، میرے منہ سے ہوں ہاں کے سوا کچھ نہ نکلا۔ میں اس کے حسن کا شاید اسیر ہوچکا تھ۔برفی کھائونا اور  یہ دیکھو اس اسٹیشن کے سموسے کتنے خستہ ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ٹرین آگئی ، میں ٹکٹ اکٹھے کرنے گیٹ کی طرف بڑھ گیا اور وہ برقعہ اوڑھ کر ہاتھ کے اشارے سے سلام کرتی، مسکراتی ٹرین کی طرف بڑھ گئی۔

میری خالہ چونکہ سانگلہ ہل میں رہتی ہیں اور سانگلہ ہل میں جاتابھی رہتا تھا۔ چنانچہ ایک دن گرمیوں کی دوپہر کو کوئی ڈیڑھ بجے میں سانگلہ پہنچا تو پیاس کے مارے میرا برا حال تھا۔ ہسپتا ل اسٹیشن کے بالکل قریب تھا اور میرے خالو کی دوکان بھی قریب تھی۔ راستے میں تھا کہ میں نے سوچا کہ چلو بشریٰ کے ہاںسے پانی پی کر چلتے ہیں۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے آواز آئی کون؟ میں نے کہا وحید۔ ٹھہرو! میں نہا رہی ہوں۔ ابھی دروازہ کھولتی ہوں۔ ایک منٹ بھی توقف نہ ہوا تھاکہ اس دروازہ کھول دیا۔ اس کے بالوں سے پانی کے قطرے گررہے تھے اور ہلکے نیلے رنگ کی لون کی قمیض اس کے جسم سے چپکی ہوئی تھی۔ ایک ہاتھ میں تولیہ اور دوسرے ہاتھ میں ڈوپٹہ۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ باہر بڑی گرمی ہے۔ اندر آجائواور پھر وہ کمرے میں چلی آئی اور میں بھی اس کے پیچھے پیچھے چلا گیاسنگ مر مر کی مورتی کے سحر سے میں بے حال تھا۔ بائیس سال کی عمر اور اس کی اٹھارہ سالہ جوانی۔ وہ بالوں کو تولیے سے خشک کرتے ہوئے میرے پہلو میں بیٹھ گئی اور گل کو اس نے اشارہ کیا کہ بازار سے دودھ اور بوتل لے آئو۔ بڑی گرمی ہے۔ کہنے لگی تم اور عارف وقار (وقار انبالوی کا بیٹا جو ہمارے ساتھ سینئر طالب علم تھا) سارے کالج میں بڑے نمایاں ہو۔ میری شدید خواہش تھی کہ تم سے ملو۔ بڑا اچھا کیا کہ میرے گھر کو رونق بخشی۔ شام تک یہیں ٹھہریں گے اور اکٹھے ہی شیخوپورہ چلیں گے۔ اپنے خالو کو پھر مل لینا۔ میں کوئی جواب نہ دے پایا۔ کچھ توقف سے پھر کہنے لگی کہ مرزا صاحب کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔ میں نے کہا مرزا ریاض صاحب دیکھنے میں اچھے استاد ہیں۔ ایم اے فلسفہ ہیں۔ اچھے افسانے لکھتے ہیں۔ شعروں کی تشریح بہت عمدہ کرتے ہیں۔ اس نے کرب سے پہلو بدلتے ہوئے کہا۔ میں پروفیسر مرزا ریاض کے بارے میں کب دریافت کرررہی ہوں۔ جان، مرزا غلام احمد قادیانی کے بارے میں پوچھ رہی ہوں۔۔۔ میں یک دم سٹپٹا گیا۔ اس کے حسن کا سارا نشہ ہرن ہوگیا اور میںا ٹھ کھڑا ہوا۔’’اوئے توں مرزائن ایں‘‘ لاحول ولا قوت‘‘ اور تیزی سے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ ’’سنو! سنو ، میری بات تو سنو وہ دروازے تک میرے پیچھے بھاگتی ہوئی آئی۔ میں نے دروازہ کھولا۔ سامنے سے گل دودھ اور بوتل لے کر داخل ہورہی تھی۔ مجھے اس نے جاتے ہوئے حیرانی سے دیکھا۔ مگر میں کھٹاک سے دروازہ بندکر کے کفر اوراسلام کے درمیان دیوار کھڑی کرچکا تھا۔ میں گھبراہٹ میں خالو کی طرف بھی نہ گیا اور اسٹیشن پر جا کر واپس ٹرین کے ذریعے شیخوپورہ آگیا۔ مجھے حضرت یوسف علیہ السلام بہت یاد آئے مگر بشریٰ زلیخا نہیں، ایک ڈائن لگی۔

قادیانیوں نے ہمیشہ تحریص کے جال پھیلائے اس وقت بھی میں ایک ایسے نوجوان کو جانتا ہوں جو ایک بنک میں ملازم ہے۔ چودھری ظفر (قادیانی) اور شیخ عبدا لماجد اس پر ڈورے ڈالتے رہتے ہیں کہ تمہیں کسی فارن بنک میں جگہ دیں گے۔ وہ اپنے کیرئیر کے لئے کسی امیر لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ ایسے ہی کئی نوجوان ان کے جال کا رزق ہیں۔ چودھری ظفر اور عبدالماجد قادیانی اسے کہتے رہتے ہیں کہ ہر جگہ ہمارے اپنے آدمی ہیں۔ وہ سب کچھ مجھے بتاتا رہتا ہے اور میں جب اسے کفر اور اسلام میں ایک کے انتخاب کا کہتا ہوں تو وہ کہتا ہے کہ میں نے دل سے قادیانی تھوڑا ہونا ہے تو میں اسے کہتا ہوں کہ ذرا جال میں پھنس کر دیکھو۔ یہ وہ کمبل ہے جسے تم چھوڑنا چاہوگے۔ مگر وہ تمہیں نہیں چھوڑے گا۔ اسی تذبذب میں وہ ابھی تک اس جال میں نہیں پھنسا۔

قادیانیوں کی عورتوں کے ذریعے پھانسنے کی متعدد مثالیں ہیں۔ جن میں ایک سول جج چودھری سردار کی بھی ہے۔ جسے پروفیسر قاضی اسلم نے شعبہ فلسفہ جامعہ پنجاب لاہور میں طالب علمی کے زمانے میں اس کی غربت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پھانسا۔ اسے فرسٹ ڈویژن دلائی، نوکری دلائی اور شادی کرائی۔ ایرک سپرین کو پھانسا اوروہ اعجاز سپرین بن گیا۔ راحت ملک جو کبھی قادیانی تھا۔ اس نے اپنی کتاب ’’ربوہ کا مذہبی آمر‘‘ میں بشیرالدین محمود اور قادیانی گورگوں کی ہولناکیوں کو بے نقاب کیا ہے جو لوگ اخلاقی طور پر اتنے پست ہوں تو ایک پست ذہنیت انسان کی ہی پیروی کرسکتے ہیں۔