Language:

آغا شورش کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ

خطابت، صحافت، شاعری اور سیاست کے محاذ پر جناب آغاشورش کاشمیریؒ ایسا عبقری نظر نہیں آتا۔ ان کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جو بڑی بے خوفی اور استقامت سے حق کی سربلندی کے لیے باطل سے ٹکرا جاتے اور تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ آغا شورش کاشمیریؒ مجاہد ختم نبوت تھے۔ انھوں نے اپنی خداداد خطابت اور صحافت سے عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ کرتے ہوئے منکرین ختم نبوت قادیانیوں کی ناپاک سازشوں کا بھرپور محاسبہ کیا۔ وہ قادیانیت کو ایک مذہبی تحریک نہیں بلکہ سیاسی گماشتہ سمجھتے تھے۔ انھوں نے اپنی کتاب ’’عجمی اسرائیل‘‘ میں فتنۂ قادیانیت کو ایک سامراجی مہرہ ثابت کیا اور ان کے مذموم عقائد و عزائم سے حکمرانوں کو بروقت خبردار کیا۔ آپ تحفظ ختم نبوت کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کرتے۔ ایک دفعہ چٹان پریس کی ضبطی پر موچی دروازے میں خطاب کرتے ہوئے آپ نے کہا: ’’عیوب خان! محمد عربیصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے تحفظ کی پاداش میں تم نے میرا پریس ضبط کیا ہے، جائو دوسرا پریس بھی ضبط کر لو، تم نے کمینگی کا مظاہرہ کیا ہے، میں تو اس مسئلہ کی خاطر اپنی جان کی بازی لگانے کا تہیہ کیے ہوئے ہوں۔‘‘

ایک دفعہ قادیانیت کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:

’’قادیان، مرزائیت کی جائے پیدائش، ربوہ اعصابی مرکز، تل ابیب تربیتی مرکز، لندن پناہ گاہ، ماسکو استاد اور واشنگٹن اس کا بینک ہے۔‘‘

جناب زیڈ اے سلہری بیان کرتے ہیں کہ بیماری کے آخری دنوں میں جب ہم آغا شورش کاشمیریؒ سے ملنے ہسپتال گئے تو انھوں نے دوران ملاقات انتہائی رقت آمیز آواز میں کہا: ’’سلہری صاحب! آپ گواہ رہنا کہ میں مسلمان ہوں۔ لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ۔ میں نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق ہوں۔ تحفظ ختم نبوت میری زندگی کا مشن ہے۔‘‘ اللہ کی شان آغا صاحب اسی روز رات 11 بجے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ کئی ہفتوں بعد وہ اپنے دیرینہ رفیق صلاح الدین کے خواب میں تشریف لائے اور کہا: ’’صلاح الدین! قبر اور حشر کے معاملات بہت سخت ہیں۔ اگر میرے نامۂ اعمال میں تحفظ ختم نبوت کا کام نہ ہوتا تو میری نجات نا ممکن تھی۔‘‘