Language:

امیر حبیب اللہ خاں والیٔ افغانستان

مرزا قادیانی نے جب جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا تو اس نے اپنی اس جھوٹی نبوت کی تبلیغ کا سلسلہ افغانستان تک بھی پہنچایا، چنانچہ کچھ لوگ اس کے دامِ فریب میں آ گئے۔ ان میں دو اشخاص عبدالرحمن اور عبداللطیف سرفہرست ہیں۔ جنھوں نے وہاں پر قادیانیت کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ انگریز کے لیے جاسوسی بھی شروع کر دی۔ عبدالرحمن خان کو امیر عبدالرحمن کے دور حکومت میں ارتداد کے جرم میں ہلاک کیا گیا۔ جبکہ عبداللطیف کو 1903ء میں امیر حبیب اللہ خاں کے دور میں ارتداد کے جرم میں سنگسار کیا گیا۔ عبداللطیف قادیان کا باشندہ تھا اور کچھ مدت تک قادیان میں مرزا قادیانی کی صحبت میں رہ کر قادیانیت اختیار کرنے پر مرتد ہو گیا تھا۔ چنانچہ اس کو کفریہ عقائد کی بنا پر موت کی سزا سنائی گئی۔ اسے کمر تک زمین میں زندہ گاڑ دیا گیا اور اس کے بعد پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ یہی حال بعد میں نعمت اللہ خاں قادیانی مبلغ کا ہوا۔ جب مرزا قادیانی کو معلوم ہوا کہ والیٔ افغانستان کے حکم سے میرے ماننے والوں کو قتل کیا جا رہا ہے تو اس نے والیٔ افغانستان کو ایک لمبا چوڑا احتجاجی خط لکھا جس کے جواب میں والیٔ افغانستان نے صرف ایک جملہ لکھا جو فارسی میں تھا۔ وہ یہ کہ

ایں جابیا (یعنی، اس جگہ آئو)

جب یہ جواب مرزا قادیانی کو پہنچا تو اس نے خاموشی اختیار کر لی۔ مرزا قادیانی کو اس جواب کا مفہوم بخوبی سمجھ آ گیا تھا کہ اگر میں افغانستان گیا تو میرا حال بھی میرے مبلغین جیسا ہوگا۔