Language:

انگریز نے مرزا کادیانی کو کیوں چنا

  1.  انگریز کو ایسے مکار مگر اپنے ساتھ وفادار شخص کی ضرورت تھی جو نبوت کاجھوٹا دعویٰ کر کے مسلمانوں کوانگریز گورنمنٹ کی اطاعت کا درس دے اور جہاد کو حرام کہے اور یہ سب کچھ اﷲ کا حکم بتا کر مسلمانوں میں پھیلائے۔اس کام کے لئے مرزا غلام احمد قادیانی ہر لحاظ سے انگریز حکومت کی خدمت اور برطانوی مفادات کے تحفظ کے لیے موزوں اور قابل اعتماد شخص تھا کیونکہ اس کا خاندان شروع ہی سے برطانوی سامراج کی خدمت اور کاسہ لیسی میں مشہور تھا۔ مرزا قادیانی کے با پ مرزا غلام مرتضیٰ نے 1857ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کے خلاف 50 گھوڑے مع سواروں کے انگریزوں کی مدد کے لیے دیے تھے، جبکہ مرزا قادیانی کا بھائی مرزا غلام قادر معروف سفاک اور ظالم جنرل نکلسن کی فوج میں شامل رہا تھا اور اس نے مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے تھے۔

     انگریزوں کی وفاداری اور تابعداری کا مرزا قادیانی ا پنی تحریروں میں اعتراف کرتا ہے اس کی چند مثالیں مرزا قادیانی کی کتابوں سے درج ذیل ہیں :

    خاندانی خدمات

    (1)        ’’میں ایک ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ کا پکا خیر خواہ ہے۔ میرا والدمیرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیر خواہ آدمی تھا، جن کو دربار گورنری میں کرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ رئیسانِ پنجاب میں ہے، اور 1857ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریزی کو مدد دی تھی۔ یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانہ غدر کے وقت سرکار انگریزی کی امداد میں دئیے تھے۔ ان خدمات کی وجہ سے جو چٹھیات خوشنودی حکام ان کو ملی تھیں، مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہوگئیں مگر تین چٹھیات جومدت سے چھپ چکی ہیں، ان کی نقلیں حاشیہ میں درج کی گئی ہیں۔ پھر میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی میرزا غلام قادر خدمات سرکاری میں مصروف رہا۔ اور جب تموں کے گزر پر مفسدوں کا سرکار انگریزی کی فوج سے مقابلہ ہوا تو سرکارانگریزی کی طرف سے لڑائی میں شریک تھا۔‘‘

    (کتاب البریہ صفحہ 3 تا 6 مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 4 تا 6 از مرزا قادیانی)

    قدیم خیر خواہ خاندان

    (2)        ’’ یہ عاجز گورنمنٹ کے اس قدیم خیر خواہ خاندان میں سے ہے جس کی خیر خواہی کا گورنمنٹ کے عالی مرتبہ حکام نے اعتراف کیا ہے اور اپنی چٹھیوں سے گواہی دی ہے کہ وہ خاندان ابتدائی انگریزی عملداری سے آج تک خیر خواہی گورنمنٹ عالیہ میں برابر سرگرم رہا ہے۔ میرے والد مرحوم میرزا غلام مرتضیٰ اس محسن گورنمنٹ کے ایسے مشہور خیر خواہ اور دلی جاں نثار تھے کہ وہ تمام حکام جو اُن کے وقت میں اس ضلع میں آئے، سب کے سب اس بات کے گواہ ہیں کہ انہوں نے میرے والد موصوف کو ضرورت کے وقتوں میں گورنمنٹ کی خدمت کرنے میں کیسا پایا۔ اور اس بات کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ انہوں نے 1857ء کے مفسدہ کے وقت اپنی تھوڑی حیثیت کے ساتھ پچاس گھوڑے معہ پچاس نوجوانوں کے اس محسن گورنمنٹ کی امداد کے لیے دیئے اور ہر وقت امداد اور خدمت کے لیے کمر بستہ رہے یہاں تک کہ اس دنیا سے گذر گئے۔ والد مرحوم گورنمنٹ عالیہ کی نظر میں ایک معزز اور ہر دلعزیز رئیس تھے جن کو دربار گورنری میں کُرسی ملتی تھی۔‘‘                          (تریاق القلوب صفحہ 359 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 488,487 از مرزا قادیانی)

    والد کی خدمات

    (3)        ’’میرا باپ مرزا غلام مرتضیٰ اس نواح میں ایک نیک نام رئیس تھا اور گورنمنٹ کے اعلیٰ افسروں نے پرزور تحریروں کے ساتھ لکھا کہ وہ اس گورنمنٹ کا سچا مخلص اور وفادار ہے۔ اور میرے والد صاحب کو دربارِ گورنری میں کرسی ملتی تھی اور ہمیشہ اعلیٰ حکام عزت کی نگاہ سے ان کو دیکھتے تھے اور اخلاقِ کریمانہ کی وجہ سے حکامِ ضلع اور قسمت کبھی کبھی ان کے مکان پر ملاقات کے لیے بھی آتے تھے کیونکہ انگریزی افسروں کی نظر میں وہ ایک وفادار رئیس تھے۔ اور میں یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ ان کی اس خدمت کو کبھی نہیں بھولے گی کہ انہوں نے 1857ء کے ایک نازک وقت میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر پچاس گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کر اور پچاس سوار اپنے عزیزوں اور دوستوں میں سے مہیا کرکے گورنمنٹ کی امداد کے لیے دئیے تھے۔ چنانچہ ان سواروں میں سے کئی عزیزوں نے ہندوستان میں مردانہ دار لڑائی مفسدوں سے کرکے اپنی جانیں دیں۔ اور میرا بھائی مرزا غلام قادر مرحوم تموں کے پتن کی لڑائی میں شریک تھا اور بڑی جاں فشانی سے مدد دی۔ غرض اسی طرح میرے ان بزرگوں نے اپنے خون سے، اپنے مال سے، اپنی جان، اپنی متواتر خدمتوں سے، اپنی وفاداری کو گورنمنٹ کی نظر میں ثابت کیا۔ سو انہیں خدمات کی وجہ سے میں یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ عالیہ ہمارے خاندان کو معمولی رعایا میں سے نہیں سمجھے گی اور اس کے اس حق کو کبھی ضائع نہیں کرے گی جو بڑے فتنے کے وقت میں ثابت ہوچکا ہے۔‘‘                                               

    (کشف الغطاء صفحہ 4، مندرجہ روحانی خزائن جلد14 صفحہ 180 از مرزا قادیانی)

    مرزا قادیانی کاباپ، بھائی اور وہ خود

    (4)        ’’ پس خلاصہ کلام یہ ہے کہ میرا باپ سرکار انگریزی کے مراحم کا ہمیشہ امیدوار رہا اور عندالضرورت خدمتیں بجا لاتا رہا، یہاں تک کہ سرکار انگریزی نے اپنی خوشنودی کی چٹھیات سے اس کو معزز کیا اور ہر ایک وقت اپنے عطائوں کے ساتھ اس کو خاص فرمایا اور اس کی غمخواری فرمائی اور اس کی رعایت رکھی اور اس کو اپنے خیر خواہوں اور مخلصوں میں سے سمجھا۔ پھر جب میرا باپ وفات پا گیا تب ان خصلتوں میں اس کا قائم مقام میرا بھائی ہوا جس کا نام مرزا غلام قادر تھا اور سرکار انگریزی کی عنایات ایسی ہی اس کے شامل حال ہو گئیں جیسی کہ میرے باپ کے شامل حال تھیں اور میرا بھائی چند سال بعد اپنے والد کے فوت ہو گیا پھر ان دونوں کی وفات کے بعد میں ان کے نقش قدم پر چلا اور ان کی سیرتوں کی پیروی کی اور ان کے زمانہ کو یاد کیا۔‘‘      

    (نورالحق حصہ اوّل صفحہ 27، 28 مندرجہ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 37، 38 از مرزا قادیانی)

    باپ بڑا یا بیٹا؟

    (5)        ’’میں اس بات کا فیصلہ نہیں کرسکتا کہ اس گورنمنٹ محسنہ انگریزی کی خیرخواہی اور ہمدردی میں مجھے زیادتی ہے یا میرے والد مرحوم کو۔ بیس برس کی مدت سے مَیں اپنے دلی جوش سے ایسی کتابیں زبان فارسی اور عربی اور اردو اور انگریزی میں شائع کر رہا ہوں جن میں بار بار یہ لکھا گیا ہے کہ مسلمانوں پر یہ فرض ہے جس کے ترک سے وہ خدا تعالیٰ کے گنہگار ہوں گے کہ اس گورنمنٹ کے سچے خیرخواہ اور دلی جان نثار ہوجائیں اور جہاد اور خونی مہدی کے انتظار وغیرہ بیہودہ خیالات سے جو قرآن شریف سے ہرگز ثابت نہیں ہوسکتے، دست بردار ہوجائیں۔‘‘

                                                                       (مجموعہ اشتہارات جلد دوم، صفحہ 355 طبع جدید، از مرزا قادیانی)

    قادیانی بزرگوں کا کارنامہ

    (6)        ’’الم یفکر اننا ذریۃ اباء الفذوا اعمارھم فی خدمات ھذہ الدولۃ۔‘‘

    ترجمہ:   ’’کیا گورنمنٹ اتنا غور نہیں کرتی کہ ہم انہی بزرگوں کی اولاد ہیں۔ جنھوں نے اپنی عمریں حکومت برطانیہ کی خدمت میں صرف کر دیں۔‘‘                                                       (انجام آتھم صفحہ 283 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 283 از مرزا قادیانی)

    قدیم خدمت گزار

    (7)        ’’اور گورنمنٹ پر پوشیدہ نہیں کہ ہم قدیم سے اُس کی خدمت کرنے والے اور اُس کے ناصح اور خیر خواہوں میں سے ہیں اور ہر ایک وقت پر دِلی عزم سے ہم حاضر ہوتے رہے ہیں۔ اور میرا باپ گورنمنٹ کے نزدیک صاحب مرتبہ اور قابل تحسین تھا اور اس سرکار میں ہماری خدمات نمایاں ہیں اور میں گمان نہیں کرتا کہ یہ گورنمنٹ کبھی ان خدمات کو بھلا دے گی۔ اور میرا والد میرزا غلام مرتضیٰ ابن میرزا عطا محمد رئیس قادیان اس گورنمنٹ کے خیرخواہوں اور مخلصوں میں سے تھا اور اس کے نزدیک صاحب مرتبہ تھا اور صدر نشین بالین عزت سمجھا گیا تھا اور یہ گورنمنٹ اس کو خوب پہچانتی تھی اور ہم پر کبھی کوئی بدگمانی نہیں ہوئی بلکہ ہمارا اخلاص تمام لوگوں کی نظروں میں ثابت ہوگیا اور حکام پر کھل گیا۔ اور سرکار انگریزی اپنے ان حکام سے دریافت کر لیوے جو ہماری طرف آئے اور ہم میں رہے اور ہم نے ان کی آنکھوں کے سامنے کیسی زندگی بسر کی اور کس طرح ہم ہر یک خدمت میں سبقت کرنے والوں کے گروہ میں رہے۔‘‘      

                                     (نور الحق صفحہ 36، 37 مندرجہ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 36، 37 از مرزا قادیانی)

     بزرگوں سے زیادہ خدمات

    (8)        ’’میں بذات خود سترہ برس سے سرکار انگریزی کی ایک ایسی خدمت میں مشغول ہوں کہ درحقیقت وہ ایک ایسی خیر خواہی گورنمنٹ عالیہ کی مجھ سے ظہور میں آئی ہے کہ میرے بزرگوں سے زیادہ ہے اور وہ یہ کہ میں نے بیسیوں کتابیں عربی اور فارسی اور اُردو میں اس غرض سے تالیف کی ہیں کہ اس گورنمنٹ محسنہ سے ہرگز جہاد درست نہیں بلکہ سچے دل سے اطاعت کرنا ہر ایک مسلمان کا فرض ہے۔ چنانچہ میں نے یہ کتابیں بصرف زر کثیر چھاپ کر بلاد اسلام میں پہنچائی ہیں اور میں جانتا ہوں کہ ان کتابوں کا بہت سا اثر اس ملک پر بھی پڑا ہے اور جو لوگ میرے ساتھ مریدی کا تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ایک ایسی جماعت تیار ہوتی جاتی ہے کہ جن کے دل اس گورنمنٹ کی سچی خیر خواہی سے لبالب ہیں‘‘

                                                                (مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 66، 67 طبع جدید، از مرزا قادیانی)

     خود کاشتہ پودا

    (9)        ’’سرکار دولتمدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جاں نثار خاندان ثابت کرچکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیر خواہ اور خدمت گزار ہیں، اس خودکاشتہ پودا کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اورمیری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔ ہمارے خاندان نے سرکار انگریزی کی راہ میں اپنے خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا اور نہ اب فرق ہے۔ لہٰذا ہمارا حق ہے کہ ہم خدمات گذشتہ کے لحاظ سے سرکار دولتمدار کی پوری عنایات اور خصوصیت توجہ کی درخواست کریں تا ہر ایک شخص بے وجہ ہماری آبرو ریزی کے لیے دلیری نہ کرسکے۔‘‘

                                                                   (مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 198 طبع جدید، از مرزا قادیانی)

    ہم اور ہماری اولاد پر فرض

    (10)      ’’ہم پر اور ہماری ذریت پر یہ فرض ہو گیا کہ اس مبارک گورنمنٹ برطانیہ کے ہمیشہ شکر گزار رہیں۔‘‘   

    (ازالہ اوہام ص 132 ، خزائن جلد 3 صفحہ 166 از مرزا )

                مرزا قادیانی کی مندرجہ بالا تحریریں اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ انگریز نے مرزا قادیانی کو کیوں منتخب کیا ۔