Language:

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبی تسلیم کرنے والے – حضرت مولانامحمد سرفرازخان

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

            نصوص قطعیہ ، احادیث صحیحہ متواترہ اور اجما ع امت سے مسئلہ ختم نبوت کا اتنا اور ایسا قطعی ثبوت ہے کہ اس میں تامل کرنے والا بھی کافر ہے بلکہ صحیح اور صریح احادیث کی رو سے مدعی نبوت اور اس کو نبی ماننے والے واجب القتل ہیںمگر یہ قتل صرف اسلامی حکومت کاکام ہے نہ کہ رعایا اور افراد کا۔حضرت عبداﷲ بن مسعور رضی اﷲ تعالیٰ (المتوفی ۳۲ھ)سے روایت ہے :

قال قد جاء ابن النواحۃ وابن اثال رسولین للمسیلمۃ الی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فقال لھما رسول اﷲصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تشھد ان انی رسول اﷲ ؟فقال نشھد ان مسیلمۃ رسول اﷲ فقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آمنت باﷲ ورسلہ لو کنت قاتلاً رسولاً لقتلتکم قال عبداﷲ فمصت السنۃ بان الرسل لاتقتل

 فاماابن اثال فکفاناہ اﷲ واماابن النواحہ فلم یزل فی نفسی حتی امکننی اﷲ تعالیٰ منہ۔

            (ابوداؤدالطیالسی صفحہ۳۴واللفظلہ،ومستدرک جلد۳صفحہ۵۳،قال الحاکمؒ والذہبیؒ صحیح و مشکوۃجلد۲صفحہ ۳۴۷و مسند احمدجلد۱صفحہ۳۹۰و نحوہ فی الدارمی صفحہ ۳۳۲ طبع ہند)

حضرت ابن مسعو د رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ مسیلمہ کذاب کے دو سفیر عبداﷲ بن نواحہ اوراسامہ بن اثال انحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر ہوئے ۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا کہ تم دونوں اس کی گواہی دیتے ہو کہ میں اﷲ کارسول ہوں ؟ انہوں نے کہا کہ ہم یہ گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ اﷲ کا رسول ہے (معاذ اﷲ تعالیٰ )۔آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے فر مایا کہ میں اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا اگر میں کسی قاصد کو قتل کر تا تو تمھیں قتل کر دیتا ۔ حضرت ابن مسعو د رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ بین الاقوامی دستور اور سنت یوں جاری ہے کہ سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا رہا ۔ ابن اثال کا معاملہ تو اﷲ نے خود ہی اس کی کفایت کر دی ( اسمہ بن اثال بعد کو مسلمان ہو گئے تھے ۔ البدایۃو النہایۃ، جلد ۶صفحہ ۵۲) اور ابن نواحہ کا معاملہ میرے دل میں کھٹکتا رہا یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے اس کی قدرت دی اور میں نے اسے قتل کروایا۔

ابوداؤد جلد۲ صفحہ۲۴  اورمستدرک جلد ۳ صفحہ۵۲ میں ایک اور سند سے بھی یہ روایت مروی ہے۔جو اس حدیث کی صرف متابع اور شاہد ہے۔

            اس صحیح روایت سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اﷲتعالی علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبی تسلیم کرنے والاواجب القتلہے ۔رکاوٹ صرف یہ پیش آئی کہ اس وقت اسامہؓ بن اثال اور عبداﷲ بن نواحہ سفیر تھے اور سنت اور اس وقت کے بین الاقوامی دستور کے مطا بق سفرا ء کو قتل نہیں کیا جاتا تھا تا کہ پیغام رسانی میں کسی قسم کی کوئی کمی اور کوتا ہی باقی نہ رہ جائے ۔ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جب حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کوفہ کے گورنر تھے تو عبداﷲ بن نواحہ ان کے قابو آگیا اور وہ اپنے اس باطل عقیدے سے باز نہ آیا اور توبہ کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔حضرت ابن مسعود رضی اﷲ عنہ نے حضرت قرظہ بن کعب کو حکم دیا کہ ابن نواحہ کی گر دن اُڑا دے چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا ۔                                                                                                                        ( مستدرک جلد ۲ صفحہ ۵۳قال الحاکم و الذہبیؒ صحیح )

            اور حضرت ابن مسعود رضی اﷲ عنہ نے اس مو قع پر ابن نواحہ سے خطاب کر تے ہوئے فرمایا کہ :

فانت الیوم لست برسول فامر قرظۃ بن کعب فضرب عنقہ فی السوق ثم قال من ارادان ینظر الیٰ ابن النواحۃقتیلاً بالسوق ۔                  (ابو دائو د جلد۲ صفحہ۲۴)

آج کے دن تو تُوقاصد نہیں ہے پھرانہوںنے حضرت قرظہؓ بن کعب کو حکم دیا۔ اور انہوں نے کوفہ کے بازار میں ابن نواحہ کی گردن اُڑا دی ۔پھر فر مایا کہ جو شخص ابن نواحہ کو بازارمیں مقتول دیکھنا چاہتا ہے تو دیکھ لے۔

 فاماابن اثال فکفاناہ اﷲ وامابن النواحہفلم            یزل فی نفسی حتی امکننی اﷲ تعالیٰ منہ۔

              (ابوداؤدالطیالسی صفحہ۳۴واللفظلہ،ومستدرک جلد۳ صفحہ۵۳،قال الحاکم ؒ والذہبیؒ صحیح و مشکوۃجلد۲صفحہ ۳۴۷و مسند احمدجلد۱صفحہ۳۹۰و نحوہ فی الدارمی صفحہ ۳۳۲ طبع ہند)