Language:

آیت خاتم النبیین کی تفسیر

”ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین وکان اللہ بکل شئی علیما ۔” (سورئہ احزاب:40)
ترجمہ: ”محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے ختم پر ہے اورا للہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔”
تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو منصبِ نبوت پر فائز نہیں کیا جائیگا۔
خاتم النبیین کی نبوی تفسیر
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں۔”(ابودائود ، ترمذی )اس حدیث شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ ”خاتم النبیین” کی تفسیر ”لانبی بعدی” کے ساتھ خود فرمادی ہے۔اسی لئے حافظ ابن کثیررحمة اللہ علیہ اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت چند احادیث نقل کرنے کے بعد آٹھ سطر پر مشتمل ایک نہایت ایمان افروز ارشاد فرماتے ہیں۔ چند جملے آپ بھی پڑھ لیجئے۔ ” اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث متواتر کے ذریعہ خبر دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تاکہ لوگوں کو معلوم رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس نے بھی اس مقام (یعنی نبوت) کا دعویٰ کیا وہ بہت جھوٹا’ بہت بڑا افترا پرداز’ بڑا ہی مکار اور فریبی’ خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہوگا’ اگرچہ وہ خوارق عادات اور شعبدہ بازی دکھائے اور مختلف قسم کے جادو اور طلسماتی کرشموں کا مظاہرہ کرے۔” (تفسیر ابن کثیررحمة اللہ علیہ جلد3 صفحہ494)
خاتم النبیین کی تفسیر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم و تابعین رحمة اللہ علیہم کا مسئلہ ختم نبوت سے متعلق مؤقف کیلئے یہاں پر صرف دوصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی آرأ مبارکہ درج کی جاتی ہیں۔
حضرت قتادہ رحمة اللہ علیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت کی تفسیر میں فرمایا” اور لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اور خاتم النبیین یعنی آخرالنبیین ہیں۔” (ابن جریر صفحہ 16جلد 22)
حضرت حسن رحمة اللہ علیہ سے آیت خاتم النبیین کے بارہ میں یہ تفسیر نقل کی گئی ہے کہ” اللہ تعالیٰ نے تمام انبی کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان رسولوں میں سے جو اللہ کی طرف سے مبعوث ہوئے آخری ٹھہرے۔” (درّ منثور صفحہ204 جلد5)کیا اس جیسی صراحتوں کے بعد بھی کسی شک یا تاویل کی گنجائش ہے؟ اور بروزی یا ظلی کی تاویل چل سکتی ہے؟
خاتم النبیین اور اجماع امت
1) حجة الاسلام امام غزالی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:”بے شک امت نے بالاجماع اس لفظ (خاتم النبیین) سے یہ سمجھا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ رسول، اور اس پر اجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل و تخصیص نہیں اور اس کا منکر یقینااجماع امت کا منکر ہے۔” (الاقتصاد فی الاعتقاد صفحہ 123)
2) علامہ سید محمود آلوسی تفسیر روح المعانی میں زیر آیت خاتم النبیین لکھتے ہیں:اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا ایسی حقیقت ہے جس پر قرآن ناطق ہے، احادیث نبویہ نے جس کو واشگاف طور پر بیان فرمایا ہے اور امت نے جس پر اجماع کیا ہے، پس جو شخص اس کے خلاف کا مدعی ہو اس کو کافر قرار دیا جائے گا اور اگر وہ اس پر اصرار کرے تو اس کو قتل کیا جائے گا۔” (روح المعانی ص 39 ج 22)
3) امام حافظ ابن کثیر رحمة اللہ علیہ اس آیت کے ذیل میں اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں ”یہ آیت اس مسئلہ میں نص ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیںتو رسول بدرجہ اولیٰ نہیں ہوسکتا، کیونکہ مقام نبوت مقام رسالت سے عام ہے۔ کیونکہ ہر رسول نبی ہوتا ہے اور ہر نبی رسول نہیں ہوتا او ر اس مسئلہ پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر احادیث وارد ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی جماعت سے مروی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر صفحہ493 ، جلد3)
4) امام قرطبی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ”خاتم النبیین کے یہ الفاظ تمام قدیم و جدید علماء کے امت کے نزدیک کامل عموم پر ہیں۔ جو نص قطعی کے ساتھ تقاضا کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں۔ (تفسیر قرطبی صفحہ196 جلد14)
پس عقیدئہ ختم نبوت جس طرح قرآن کریم کے نصوص قطعیہ سے ثابت ہے اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث متواترہ سے بھی ثابت ہے اور ہر دور میں امت کا اس پر اجماع و اتفاق چلا آیا ہے۔
خاتم النبیین اور اصحاب لغت
خاتم النبیین ”ت” کی زبریازیر سے ہو قرآن و حدیث کی تصریحات اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ و تابعین رحمة اللہ علیہ کی تفاسیر اور ائمہ سلف رحمة اللہ علیہ کی شہادتوں سے بھی قطع نظر کرلی جائے اور فیصلہ صرف لغت عرب پر رکھ دیا جائے تب بھی لغت عرب یہ فیصلہ دیتی ہے کہ آیت مذکورہ کی پہلی قرت پر دو معنی ہوسکتے ہیں، آخرالنبیین اور نبیوں کے ختم کرنے والے، اور دوسری قرت پر ایک معنی ہوسکتے ہیں یعنی آخر النبیین۔ لیکن اگر حاصل معنی پر غور کیا جائے تو دونوں کا خلاصہ صرف ایک ہی نکلتا ہے اور بہ لحاظ مراد کہا جاسکتا ہے کہ دونوں قرتوں پر آیت کے معنی لغتاً یہی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب انبی علیہم السلام کے آخر ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکوئی نبی پیدا نہیں ہوسکتا۔
خاتم النبیین کی قادیانی تفسیر:
مرزا قادیانی میں آیت خاتم النبیین کی مختلف ادوار میں تین مختلف تفسیریں کی ہیں۔
١۔ پہلا دور1901ء سے پہلے:
اس دور میں مرزا قادیانی ختم نبوت کا قائل تھااور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی مدعی نبوت کو کافر ، کاذب اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا تھا۔ملاحظہ فرمایئے آیت مذکورہ کا ترجمہ مرزا قادیانی کے قلم سے۔
ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولٰکن رسول اللہ و خاتم النبیینo
” محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں ۔مگر وہ رسول ہے۔اور ختم کرنے والا ہے نبیوں کا”
(ازالہ اوہام صفحہ 614روحانی خزائن جلد 3صفحہ431از مرزا قادیانی)
دوسرا دور1901ء اور بعد:
1901ء میں مرزا قادیانی نے “ایک غلطی کا ازالہ “لکھی اور خود نبوت کا دعویٰ کر دیا۔اور آیت خاتم النبیین میں یہ تاویل کی کہ اگرچہ خاتم النبیین کا مطلب تو وہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ مگر خودآپ صلی اللہ علیہ وسلم کادوبارہ اس دنیا میں آنا منافی نہیں۔ملا خطہ فرمایئے
”لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم النبیین میں ایسا گم ہو کہ ببا عث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اسی کا نام پا لیا ہواور صاف آئینہ کی طرح محمدیۖکا چہرہ اس میں انعکاس ہو گیا ہوتو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہلائے گا۔ کیونکہ وہ محمدہے گو ظلی طور پریپس باوجوزاس شخص کے دعوےٰ نبوت کے جس کا نام ظلی طور پر محمدۖ اور احمدۖ رکھا گیا پھر بھی سیدنا محمدۖ خاتم النبیین ہی رہاکیونکہ یہ محمدۖ ثانی(مرزا قادیانی -ناقل) اسی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر اور اسی کا نام ہے”۔ (ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 5روحانی خزائن جلد 18صفحہ209از مرزا قادیانی)
اس جگہ مرزا قادیانی خاتم النبیین کے معنی تو وہی لیتا ہے جو سب مسلمان سمجھتے ہیں لیکن اپنا نبی ہونا اس کے منافی نہیں جانتا کیونکہ (معاذ اللہ)مرزا قادیانی اپنے آپکو عین محمد و احمد کہتا ہے جو اسکی شکل میں دوبارہ دنیا میں آئے۔
تیسرا دور قبل از وفات:
مرزا قادیانی نے اپنی وفات سے ایک سال قبل 1907ء میں”حقیقة الوحی”نامی کتاب لکھی اور آیت خاتم النبیین کا ایک اور نیا اور اچھوتا مفہوم بنایا۔
1)”اللہ جلشانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب خاتم بنایا۔ یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین ٹھرایعنی آ پ کی پیروی کمالات نبوت بخشی ہے۔اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے۔” (حقیقة الوحی صفحہ97 روحانی خزائن جلد22صفحہ100از مرزا قادیانی)
یعنی خاتم النبیین کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ نے نبوت کی مہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی اور اس مہر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جسے چاہیں نبی بنا سکتے ہیں۔
2)”اور بجز اسکے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے امتی ہونا لازمی ہے”
(حقیقة الوحی صفحہ 28مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 30از مرزا قادیانی)