Language:

ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل انعام کیوں دیا گیا؟حصہ دوم

1979ء میں دو امریکن سائنس دانوں کے ساتھ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کو بھی فزکس کے شعبہ میں مسٹر نوبل کے وصیت کردہ سودی انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔ (اور اس شعبہ کا حصہ ان تینوں میں تقسیم ہوا) یقینا اس سے بھی یہودی قادیانی لابی کے تہہ در تہہ مفادات وابستہ ہونگے۔ یہودی قادیانی مفادات متحد ہیں، قادیانیت، یہودیت و صیہونیت کی سب سے بڑی حلیف ہے، اور عالمی سطح پر پروپیگنڈا کرنے اور مسلمانوں کے خلاف زہرا گلنے میں دونوں ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔

مسٹر نوبل کے وصیت کردہ سودی انعام کے ذریعہ اسلام کی سند حاصل کرنے کے بعدڈ اکٹر عبدالسلام قادیانی نے خرد جال کی طرح اسلامی ممالک کا دورہ کیا ہے اور جگہ جگہ ’’اسلامی سائنس فاؤنڈیشن‘‘ قائم کرنے کا نعرہ بلند کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس سے یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ اس زمانہ میں مسلمانوں کا سب سے بڑا خیر خواہ اور ہمدرد عبدالسلام قادیانی ہے۔ چنانچہ اسلامی ممالک نے ’’اسلامی سائنس فاؤنڈیشن‘‘ کے نعرے سے مسحور ہوکر اس کی منظوری دے دی، روزنامہ نوائے وقت لکھتا ہے۔

            ’’ نوبل پرائز حاصل کرنے والے پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام نے 1973ء میں ایک تجویز پیش کی تھی کہ مسلمان ممالک کو مل کر ایک اسلامی سائنس فاؤنڈیشن قائم کرنی چاہئے۔ گزشتہ ہفتہ جدہ میں ایک کانفرنس ہوئی جس میں اس ادارے کے قیام کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا۔ یوں تو اسلامی سربراہ کانفرنس نے فروری1974ء میں ہی ڈاکٹر عبدالسلام کی تجویز کی منظوری دے دی تھی۔ مگر اس پر عملدر آمد کرنے کا فیصلہ اب ہوا ہے۔ جدہ کی جس کانفرس نے فاؤنڈیشن کے قیام کو عملی صورت دینے کا فیصلہ کیا ہے اس میںد وسرے اسلامی ملکوں کے سائنس دانوں کے علاوہ ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل پرائز حاصل کرنے پر مبارکباد دی اور اسے اسلامی دنیا کے لئے قابل فخر کارنامہ قراردیا۔ ‘‘          

                                                                        (روزنامہ نوائے وقت اداریہ مورخہ 18/ نومبر 1979ء )

ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کی حجاز کی مقدس سرزمین میں پذیرائی ہوئی تو اس نے اپنے سحر آفرین نعرے کو مزید بلند آہنگی سے دہرانا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ 5 / کروڑ ڈالر کی خطیر رقم اسلامی ممالک سے منظور کراکے دم لیا۔

            قادیانی اخبار ’’الفضل ربوہ‘‘ میں ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کا انٹرویو شائع ہوا جس ڈاکٹر عبدالسلام نے کہا:

’’ یہ اچھی سمت میں ایک حرکت ہوئی ہے۔ میں اس سے بہت خوش ہوں درحقیقت ابتدائی تجویز موجودہ صورت سے بہت اعلیٰ تھی۔ میں نے 1974ء میں مسٹر بھٹو کو اس پر آمادہ کرلیاتھا کہ ایک بلین ڈالر کے سرمایہ سے ایک فاؤنڈیشن قائم کیا جائے اور سر براہی کانفرنس نے اسے تسلیم کرلیاتھا۔ لیکن اس کے بعد اس بارے میں کچھ نہیں ہوا۔ اس کے بعد 1981ء میں جنرل ضیاء الحق اس پر راضی ہوگئے کہ اس معاملہ کو طائف سربراہ کانفرنس میں اٹھائیں۔ فاؤنڈیشن قائم کردیا گیا۔ اب مجھے پتہ چلا ہے کہ دراصل جو رقم اب تک فاؤنڈیشن کو ملی ہے وہ صرف چھ ملین ڈالر میں آپ مجھ سے اتفاق کریں گے مسلمان حکومتیں اس سے زیادہ دے سکتی ہے۔ ‘‘

                                                                               (روزنامہ ’’الفضل ربوہ ‘‘ 8 اکتوبر 1984ء )

خطیرہ رقم وصول کرنے کے بعد بھی ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کو مسلم ممالک کے رویہ سے شکایت رہی اور وہ ان سے مایوسی کا اظہار کرتا رہا۔ چنانچہ روزنامہ جنگ لندن لکھتا ہیــ:’’نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام سائنس فاؤنڈیشن قائم کریں گے۔ اسلامی کانفرنس نے ایک ارب ڈالر کے بجائے 5 کروڑ ڈالر کی منظوری دی ہے۔ ‘‘

            ’’جدہ (جنگ فارن کم) ڈیسک۔ نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام اسلامی ملکوں میں سائنس کے فروغ کے لئے فائونڈیشن قائم کریں گے تاکہ اسلامی ممالک کے باصلاحیت سائنس دان اپنے علم میں اضافہ کرسکیں، گلف ٹائمز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر اسلام نے کہا کہ اسلامی ملکوں میں سائنسی علوم کے فروغ کے لئے ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے۔ ڈاکٹر سلام نے ٹرسٹی اٹلی میں نظریاتی طبیعات کا بین الاقوامی مرکز قائم کیا ہے جس کے وہ ڈائریکٹر ہیں۔ اس مرکز سے ایک ہزار سائنسدان طبیعات کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سلام کے مرکزکو بین الاقوامی ایٹمی ادارے اور یونیسکو کا بھی تعاون حاصل ہے۔ ڈاکٹر سلام نے بتایا کہ فائونڈیشن غیر سیاسی ادارہ ہوگا اور اسے مسلم ممالک کے سائنسدان چلائیں گے۔ اس کے علاوہ اسے اسلامی کانفرنس کا تنظیم سے منسلک کردیاجائے گا تاہم ڈاکٹر سلام نے اس پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ مجوزہ فائونڈیشن کیلئے انہوں نے ایک ارب ڈالر کی تجویز رکھی تھی لیکن اسلامی کانفرنس نے اس کے لئے5کروڑ ڈالر کی منظوری دی۔‘‘                                                             (جنگ لند ن8 /اگست1958ء )

اور روزنامہ نوائے وقت کراچی لکھتا ہے:’’ڈاکٹرعبدالسلام کو اسلامی طبیعاتی فائونڈیشن کے قیام میں مالی دشواریاں کا سامنا۔‘‘

            ’’نیو یارک 10 اگست (ا پ پ) نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام نے کہا ہے کہ اسلامی ممالک میں بین الاقوامی سائنس میں بالکل الگ تھلگ ہیں اور انہیں سائنس کی ترقی طریقہ معلوم نہیں انہوں نے کہا کہ وہ سائنس کے فروغ اور ترقی کے لئے الگ فائونڈیشن قائم کرنا چاہتے ہیں۔

اسلامی کانفرنس نے اس منصوبہ کی توثیق کی ہے کہ ڈاکٹر سلام کے تجویز کردہ ایک ارب ڈالر کی بجائے مسلم کانفرنس نے5کروڑ ڈالر کی منظوری دی ہے اور ایک سال میں صرف 60لاکھ ڈالرجاری کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے ڈاکٹر سلام مایوس نظر آتے ہیں۔                                                                               (نوائے وقت کراچی 11اگست1958ء )

            مایوسی کا یہ اظہار مسلم ممالک کو غیر ت دلانے اور مطلوبہ رقم پر انہیں برانگیختہ کرنے کے لئے تھا۔ بالآخر’’جویندہ یابندہ‘‘ کے مصداق ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی ، مسلم ممالک سے اپنی مطلوبہ رقم وصول کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ چنانچہ قادیانی اخبار  ہفت روزہ ’’لاہور‘‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ:

            ’’ڈاکٹر عبدالسلام نے مشرق وسطی کے تیل پیدا کرنے والے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اس خطہ ارض میں سائنسی علوم کے فروغ کے لئے ایک سائنس فائونڈیشن کا قیام عمل میںلائیں۔……… انہوں نے مشورۃً تجویز پیش کی کہ اس فائونڈیشن کی تشکیل میں ابتدائی طور پر ایک بلین ڈالر صرف کرنے چاہئیں جو مسلم طلبہ کو ایسی سائنسی تعلیم کے حصول میں امداد دیں گے۔اس فائونڈیشن کو اسلامی دنیا کے ممتاز و معروف سائنسدان چلائیں۔

            ’’ڈاکٹر سلام نے دنیائے اسلام میں سائنسی علوم کے فروغ کے سلسلہ میں کویت کے رول کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ کویت کی سائنس فائونڈیشن اور کویت یونیورسٹی نے انہیں بڑی دریا دلی سے اتنے فنڈز دئیے ہیں۔‘‘

                                                                      (قادیانی  ہفت روزہ’’ لاہور ‘‘2 اگست1982ء صفحہ5)

            غور فرمائیے کہ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی ، ابتدائی مرحلہ میں اسلامی ممالک سے لے کر ساٹھ لاکھ ڈالر ہضم کرجاتا ہے۔ دل میں باغ باغ ہوگا کہ اتنی خطیر رقم مجھے مسلمان نوجوانوں کو قادیانی بنانے کے لئے بلاشرکت غیرے مل گئی لیکن عیاری و مکاری کا کمال دیکھو کہ زر طلبی کی ہوس ’’ہل من مزید‘‘ پکارتی ہے اور وہ اسلامی ممالک کو غیرت دلانے کے لئے ان کی سردمہری و نالائقی اور بے توجہی کامسلسل پروپیگنڈہ کرتا رہتا ہے۔ اور ان کے سامنے پانچ کروڑ ڈالر کا ہدف دہراتا رہتا ہے تاآنکہ اسے مطلوبہ رقم میسرآجاتی ہے۔

یاد رہے کہ قادیانی امت کو ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی پر فخر ہے کہ وہ جہاں جاتا ہے قادیانیت کی تبلیغ ضرورکرتا ہے’’انہوں نے دین (قادیانیت) کو دنیا پر ہمیشہ مقدم رکھا، اور سائنسدانوں اور بڑے بڑے لوگوں تک احمدیت کا پیغام پہنچا شاہ سویڈن کو نوبل انعام حاصل کرنے کے دنوں میں قرآن کریم (کا قادیانی ترجمہ) اور حضرت مسیح موعود(مرزا غلام احمد قادیانی) کے اقتباسات کا انگریزی ترجمہ پہنچا کر آئے۔ اسی طرح شاہ حسن مراکش میں (قادیانی) لٹریچر دے کر آئے۔‘‘                                                                                                                                                                      (کتابچہ ’’ڈاکٹر عبدالسلام‘‘ ۔ از محمود مجیب اصغر صفحہ56)

            قارئین نے ایسے بہت سے واقعات سن رکھے ہوں گے کہ روپیہ پیسہ عورت، دوا، علاج اور تعلیم کا لالچ دے کر غریب خاندانوں کو عیسائی یا قادیانی بنا لیا گیا۔ اگر دس ہزار سے ایک خاندان کا ایمان خریدا جاسکتا ہے تو ذرا حساب لگا کر دیکھئے کہ جس شخص کو اربوں روپے کی رقم تھما دی گئی وہ کتنے نوجوانوں اور کتنے خاندانوں کو اس کے ذریعے قادیانی بنانے کی کوشش کرے گا؟ حیف صد حیف کہ…………’’میاں کی جوتی میاں کے سر‘‘کے مصداق مسلمانوں ہی کے روپے سے مسلمانوں کو کافرومرتد بنایا جارہا ہے اور مسلمان اس کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔