Language:

ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی اورپاکستان

بہت سے مسلمان قادیانیوں کے بارے میں رواداری اور فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ چنانچہ یہی مظاہرہ ڈاکٹرعبدالسلام قادیانی کے بارے میں بھی کیا گیا۔ بعض حضرات کا استدلال یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کا عقیدہ ومذہب کچھ بھی ہو بہر حال وہ پاکستانی ہیں۔ او ر ان کو نوبل انعام کا اعزاز ملنا پاکستان ور اہل پاکستان کے لئے بہرصورت لائق فخر ہے۔ چنانچہ ہمارے ملک کی ایک معروف سیاسی شخصیت نے روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے کالم ’’مشاہدات و تاثرات‘‘ میں اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے تحریر فرمایا:

’’مسلک ان کا کچھ بھی ہو لیکن پاکستان کے رشتے سے عالمی سطح پر ان کی سائنسی مہارت کا جو اعتراف ہوا ہے اس سے قدرتاً ہم سب کو خوشی ہونی چاہیے۔ علم، علم ہے اس پر نہ کسی عقیدہ اور مذہب کی چھاپ لگائی جاسکتی ہے نہ مشرق و مغرب کی، یہ تو روشنی اور ہوا کی طرح پوری انسانیت کا مشترک ورثہ ہے۔‘‘               

  (جنگ کراچی 14مئی1981ء )قادیانی ہفت روزہ ’’لاہور‘‘ میں ایک مراسلہ ’’جاہل مولویوں نے سائنس دشمنی میں پاکستان کے عزت ووقار کو بھی خاک میں رولنا شروع کردیا ہے۔‘‘کے عنوان سے چھپااس میں سے یہ عبارت ملاحظہ فرمائیے:’’اگر مولویوں کا یہ فتویٰ مان بھی لیا جائے ۔ کہ ڈاکٹر عبدالسلام کافر ہے تو پھر مولویوںکو یہ احساس توہونا چاہیے۔ کہ وہ کافربھی اول و آخر پاکستانی ہے اور س کو ملنے والا اعزاز اصل میں پاکستان کو ملنے والا اعزاز ہے۔‘‘

(ہفت روزہ لاہور11 نومبر1979ء صفحہ4)

ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی واقعی پاکستانی ہے۔ لیکن اس کی نظر میں خود پاکستان کی کیا عزت و حرمت ہے؟ اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ وہ یحییٰ خان اور مسٹر بھٹو کے دور میں صدر پاکستان کا سائنسی مشیر تھا لیکن جب1974ء میں پاکستان قومی اسمبلی نے آئینی طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تو یہ صاحب احتجاجاً لندن جا بیٹھے اور جب مسٹر بھٹو نے اس کو ایک سائنس کانفرنس میں شرکت کی دعوت بھجوائی تو پاکستان کے بارے میں نہایت گندے اور توہین آمیز ریمارکس لکھ کر دعوت نامہ واپس بھیج دیا۔ہفت روزہ چٹان کا درج ذیل اقبال ملاحظہ فرمائی۔

’’مسٹر بھٹو کے دور میں ایک سائنسی کانفرنسی ہورہی تھی۔کانفرنس میں شرکت کے لئے ڈاکٹر سلام کودعوت نامہ بھیجا گیایہ ان دنوں کی بات ہے ۔ جب قومی اسمبلی نے آئین میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا تھا۔ یہ دعوت نامہ جب ڈاکٹر سلام کے پاس پہنچا تو انہوں نے مندرجہ ذیل ریمارکس کے ساتھ اسے وزیرِ اعظم سیکرٹریٹ کو بھیج دیا۔

            ترجمہ: میں اس لعنتی ملک پر قدم نہیں رکھنا چاہتا جب تک آئین میں کی گئی ترمیم واپس نہ لی جائے۔

مسٹر بھٹو نے جب یہ ریمارکس پڑھے تو غصے سے ان کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ انہوں نے اشتعال میں آکر اسی وقت اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سیکرٹری وقار احمد کو لکھا کہ ڈاکٹر سلام کو فی الفور برطرف کردیا جائے اور بلاتاخیر نوٹیفکیشن جاری کردیا جائے۔ وقاراحمد نے یہ دستاویز ریکارڈ میں فائل کرنے کے بجائے اپنی ذاتی تحویل میں لے لی تا کہ اس کے آثار مٹ جائیں وقار احمد بھی قادیانی تھے یہ کس طرح ممکن تھا کہ اتنی اہم دستاویز فائلوں میں محفوظ رہتی۔ ‘‘        

                          (ہفت روزہ ’’ چٹان‘‘ لاہور شمارہ 22 / جون 1986ء )

کیا ایسا شخص جو پاکستان کے بارے میں ایسے توہین آمیز اور ملعون الفاظ بکتا ہو اس کا اعزاز پاکستان اور اہل پاکستان کے لئے موجب مسرت اور لائق مسرت ہوسکتا ہے۔

اپریل 1984ء میں جنرل محمد ضیاء الحق نے امتناع قادیانیت آرڈ یننس جاری کیا۔ جس کی رو سے قادیانیوں کو مسلمان کہلانے اور شعائر اسلامی کا اظہار کرکے مسلمانوں کو دھوکا دینے پر پابندی عائد کردی گئی قادیانیوں کا نام نہاد ’’ بہادر خلیفہ ‘‘ اس آرڈ یننس کے نفاذ کے بعد راتوں رات بھاگ کر لندن جا بیٹھا۔ وہاں پاکستان اور اور اہل پاکستان کو ’’دشمن‘‘ کا خطاب دے کر ان کے خلاف جنگ کا بگل بجاتا رہا ۔ اور قادیانیوں کو پاکستان کے امن کو آگ لگانے کی تلقین کرتارہا ۔ قادیانیوں کا دوماہی پرچہ جو ’’ مشکوۃ‘‘ کے نام سے قادیان (انڈیا) سے شائع ہوتا ہے، اس میں ’’ پیغام امام جماعت کے نام ‘‘ کے عنوان سے مرزا طاہر قادیانی کا پیغام دنیا بھر کی جماعت ہائے احمدیہ کے نام شائع ہوا ہے۔ اس کے چندفقرے ملاحظہ فرمائیے:

’’ جس لڑائی کے میدان میں ’’ دشمن‘‘ نے ہمیں دھکیلا ہے یہ آخری جنگ نظر آتی ہے، اور انشاء اللہ ہمارے دشمنوں کو اس میں بری طرح شکست ہوگی ‘‘ (دو ماہی مشکوۃ قادیان صفحہ7)’’ دشمن سے ہماری جنگ کا یہ انتہائی اہم اور فیصلہ کن مقام ہے ‘‘(صفحہ 7)’’ یہ وہ آخری مقام ہے جہاں دشمن پہنچ چکا ہے۔ ‘‘ (صفحہ7)’’ تمام جماعت کو برقی رفتار کے ساتھ اس لڑائی میں شامل ہونا چاہئے۔ ‘‘(صفحہ 8)’’ یہ ایک لڑائی کا بگل ہے جو بجایا جاچکا ہے ۔ اس کی آواز ہمیں ہر طرف پھیلانی ہے۔ اور اس پیغام کو دنیا کے ہر کونے میں پہنچانا ہے۔ ‘‘ (صفحہ 8)’’ اور اسلام آباد (پاکستان) کے حکمران اس آواز کی گونج کو سن کر بے بس اور پسپا ہوجائیں۔ ‘‘ (صفحہ 8)صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کو للکارتے ہوئے یہ بہادر (لیکن بھگوڑا )قادیانی خلیفہ کہتا ہے:

’’ پس یہ نا پاک تحریک جو صدر ضیاء الحق کی کوکھ سے جنم لے رہی ہے اور وہ یہاں بھی ذمہ دار ہیں اس کے، اور قیامت کے دن بھی اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ اور نہ کوئی دنیا کی طاقت ان کو بچا سکے گی۔ اور نہ مذہب کی طاقت ان کو بچا سکے گی۔ کیونکہ آج انہوں نے خدا کی عزت و جلال پر حملہ کیا ہے۔ آج محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک نام کے تقدس پر وہ شخص حملہ کر بیٹھا ہے۔ ‘‘                                                                                   (صفحہ 13)

 مرزا طاہر جس ’’ ناپاک تحریک ‘‘ کی طرف اشارہ کررہا ہے اس سے مراد 1984 ء کا صدارتی آرڈیننس ہے جس کے تحت چونکہ مرزائی آئین کی رو سے غیر مسلم ہیں اس لئے نہ اسلام کے مقدس الفاظ کا استعمال کرسکتے ہیں اور نہ کسی طریقہ سے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرسکتے ہیں۔ اس کی ضرورت اس لیے ہوئی کہ قادیانیوں نے 73ء کے بعدآئین کی مخالفت کی یہ صورت نکالی کہ اپنی عبادت گاہوں پر، گھروں پر دکانوں پر ، گاڑیوں پر اور خود اپنے سینوں پر کلمہ طیبہ کے کتبے لگانے لگے۔ مسلمانوں کے لئے ان کا یہ طرز عمل چندوجہ سے ناقابل برداشت تھا۔

سوم: مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ ہے کہ وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کا مظہر ہونے کی وجہ سے (نعوذ بآللہ) خود ’’ محمد رسول اللہ‘‘ ہے۔ چنانچہ ایک غلطی کا ازالہ ‘‘ میں لکھتا ہے:’’محمد رسول اللہ والذین معہ اشدآء علی الکفار رحمابینھم ’’ اس وہی الٰہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی‘‘قادیانی، جب کلمہ طیبہ ’’لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ‘‘ پڑھتے ہیں تو لامحالہ ان کے ذہن میں مرزا کا یہ دعویٰ بھی ہوتا ہے۔ اس لئے وہ مرزا قادیانی کو کلمہ کے مفہوم میں داخل جانتے ہیں بلکہ اسے ’’ محمد رسول اللہ ‘‘ کا مصداق سمجھتے ہیں اور یہی سمجھ کر کلمہ پڑھتے ہیں چنانچہ مرزا بشیر احمد قادیانی نے لاہوری جماعت کا یہ سوال نقل کرکے کہ ’’ اگر مرزا نبی ہے تو تم اس کا کلمہ کیوں نہیں پڑھتے؟ ‘‘ اس کا یہ جواب دیا ہیـ’’علاوہ اس کے اگر ہم بفرض محال یہ بات مان بھی لیں کہ کلمہ شریف میں نبی کریمؐ کا اسم مبارک اس لئے رکھا گیا ہے کہ آپ آخری نبی ہیں توتب بھی کوئی حرج واقع نہیں اور ہم کو نئے کلمہ کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ مسیح موعود نبی کریمؐ سے کوئی الگ چیز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے صارو جودی و جودہ نیز من فرق بینی وبین المصطفے فما عرفنی وماریٰ اور یہ اس لئے ہیے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبین کو دنیا میں مبعوث کرے گا جیسا کہ آیت آخرین منھم سے ظاہر ہے پس مسیح موعود خود محمدصلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ ہے جو اشاعت اسلام کے لئے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے اس لئے ہم کوکسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں ہاںا گر محمدؐ رسول اللہ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرورت پیش آتی ۔ ‘‘

( کلمہ ’’ الفضل صفحہ 158۔ مولفہ مرزا بشیر احمد قادیانی مندرجہ ریویو آف رینیجنز قادیان مارچ واپریل 1915ء )

پس چونکہ مرزا غلام احمد قادیانی کا یہ دعویٰ ہے کہ خدا نے اسے ’’ محمد رسول اللہ ’’ بنایا ہے اور چونکہ قادیانی اس کے اس کفریہ دعویٰ کی تصدیق کرتے ہیں۔ اور چونکہ وہ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے مفہوم میں مرزا قادیانی کو داخل مانتے ہیں۔ اور محمد رسول اللہ سے مرزا قادیانی مراد لیتے ہیں، اس سے معمولی عقل و فہم کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ وہ کلمہ طیبہ کا بیج لگا کر توہین رسالت کے مرتکب ہوتے ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقوں کی مسجد ضرار کو گرانے، جلانے اور اسے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں تبدیل کرنے کا جو حکم دیا تھا اگر وہ صحیح ہے ( اور بلاشبہ صحیح ہے یقینا صحیح ہے، قطعاً صحیح ہے) تو قادیانی منافقوں کی وہ مسجد نما عارت جس پر کلمہ طیبہ کندہ ہوا سے منہدم کرنے، جلانے اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیوں غلط ہے؟ اور اس سے بھی کم تر یہ مطالبہ کہ مسجد ضرار کے ان چربوں پر کلمہ طیبہ نہ لکھا جائے، آخر کس منطق سے غلط ہے؟

الغرض پاکستان میں چونکہ قادیانیوں کا کفرونفاق کھل چکا ہے، ان کو کلمہ طیبہ کے مطابق کے کتبے لگا لگا کر مسلمانوں کو دھوکہ دینے، کلمہ طیبہ کی توہین کرنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و حرمت سے کھیلنے میں دشواریاں پیش آرہی ہیں، مسلمان ان کے غلیظ عقائد پر مطلع ہونے کے بعد ان کی مذبوجی حرکات کو برداشت نہیں کرتے اس لئے ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی ، پاکستان کی سرزمین کو نعوذ باللہ ’’لعنتی ملک‘‘ کہنے سے نہیں شرماتا، اور اس کا مرشد مرزا طاہر قادیانی پاکستان کے خلاف ’’ جنگ کا بگل‘‘ بجارہا ہے اور پاکستان میں افغانستان کے حالات پیدا کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔

’’ جماعت احمدیہ کے سربراہ مرزا طاہر احمد نے کہا کہ اگر اس خطہ میں ظلم جاری رہا (یعنی قادنیوں کو یہ اجازت نہ دی گئی کہ وہ کلمہ طیبہ کے کتبے لگ کر مسلمانوں کو دھوکہ دیتے رہیں۔ ناقل) تو ہوسکتا ہے کہ وہاں ایسے حالات پیدا ہوں جیسے افغانستان میں پیدا ہوئے۔                                (قادیانی اخبار ہفت روزہ ’’ لاہور ‘‘ صفحہ 13۔ 20 اپریل 1958ء )

اسی کے ساتھ وہ پورے عالم اسلام کو دعوت دے رہا ہے کہ پاکستان کے خلاف زہراگلنے کے کام میں قادیانیوں کے ساتھ شریک ہوجائے۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو :

            ’’ ہمیشہ تمہارا نام لعنت کے ساتھ یاد کیا جاتا رہے گا‘‘                                          

( قادیانی پرچہ دو ماہی مشکوۃ قادیان۔ مئی و جون 1958ء صفحہ 14)

ان تمام حقائق کق سامنے رکھ کر انصاف کیجئے کہ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کا نوبل انعام کسی پاکستانی کے لئے یا عالم اسلام کے کسی مسلمان کے لئے لائق فخر اور موجب مسرت ہوسکتا ہے؟