Language:

ڈاکٹر عبد السلام ،سائنس فائونڈیشن اور قادیانی مقاصد

مسٹر نوبل کے وصیت کردہ سودی انعام نوبل پرائز کے حوالے سے قادیانیوں نے جو فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی ان میں ایک یہ بھی تھا کہ مسلم ممالک کے پیسے سے ’’اسلامی فائونڈیشن‘‘ کے نام پر ’’قادیانی فائونڈیشن‘‘ قائم کیا جائے ۔ ایسا لگتا تھا کہ ’’اسلامی سائنس فائونڈیشن‘‘ کے ذریعہ یہودی، قادیانی لابی ابھی بہت کچھ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اور ان کے مقاصد کہیں گہرے ہیں۔ ذیل میں چند نکات پیش کئے جاتے ہیں۔ ہر وہ شخص جو عالم اسلام سے خیر خواہی و ہمدردی رکھتا ہے ا س کا فرض ہے کہ ان امکانات کو نظر انداز نہ کرے۔ بلکہ ان پر عقل و دانائی کے ساتھ غور کرے۔

(1)        علامہ ڈاکٹر اقبال مرحوم نے پنڈت نہرو کے نام اپنے خط میں تحریر فرمایا تھا:’’قادیانی اسلام اور وطن دونوں کے غدار ہیں‘‘علامہ اقبال مرحوم کا یہ تجزیہ ان کے برسہا برس کے تجربہ کا خلاصہ اور نچوڑ ہے جسے انہوں نے ایک فقرے میں قلمبند کردیا۔ ہر وہ شخص جسے قادیانی ذہنیت کا مطالعہ کرنے کی فرصت میسرآئی ہو۔ یا جسے قادیانیوں سے کبھی سابقہ پڑا ہو اسے اعلیٰ وجہہ البصیرت اس کا یقین ہوجائے گا کہ قادیانی، اسلام کے، مسلمانوں کے اور اسلامی مملکت کے غدار ہیں جس طرح کوئی مسلمان کسی یہودی پر اعتماد نہیں کرسکتا۔ نہ اسے ملت اسلامیہ کا مخلص سمجھ سکتا ہے۔ اسی طرح کوئی مسلمان کسی قادیانی کو ملت اسلامیہ کا ہمدرد اور بہی خواہ تسلیم نہیں کرسکتا۔

قادیانی، طاغونی قوتوں کے جاسوس:قادیانیوں کی اسلام اور مسلمانوںسے غداری کا یہ عالم ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی’’انگریزوں کی پولیٹیکل خیر خواہی‘‘ کی غرض سے مسلمانوں کی مخبری کیا کرتا تھا۔مرزا قادیانی کے اشتہارات کا جو مجموعہ تین جلدوں میں قادیانیوں سے اپنے مرکز ربوہ سے شائع کیا ہے۔اس کی دوسری جلد کے صفحہ 227-228پر اشتہار نمبر145درج ہے جس کا کچھ حصہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔

’’قابل توجہ گورنمنٹ از طرف مہتمم کاروبار تجویز تعطیل جمعہ

مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب:’’چونکہ قرین مصلحت ہے کہ سرکار انگریزی کی خیر خواہی کیلئے ایسے نافہم مسلمانوں کے نام بھی نقشہ جات میں درج کئے جائیں جو درپردہ اپنے دلوں میں برٹش انڈیا کو دارالحرب قرار دیتے ہیں۔لہٰذا یہ نقشہ اسی غرض کے لئے تجویز کیا گیا تاکہ اس میں ان ناحق شناس لوگوں کے نام محفوظ رہیں کہ جو ایسے باغیانہ سرشت کے آدمی ہیں ، اگرچہ گورنمنٹ کی خوش قسمتی سے برٹش انڈیا میں مسلمانوں میں ایسے آدمی بہت ہی تھوڑے ہیں جو ایسے مفسدانہ عقیدہ کو اپنے دل میں پوشیدہ رکھتے ہوں لیکن چونکہ اس امتحان کے وقت بڑی آسانی سے ایسے لوگ معلوم ہوسکتے ہیں۔جن کے نہایت مخفی ارادے گورنمنٹ کے برخلاف ہیں۔ اس لئے ہم نے اپنی گورنمنٹ کی پولیٹیکل خیر خواہی کی نیت سے اس مبارک تقریب پرچاہا کہ جہاں تک ممکن ہو ان شریر لوگوں کے نام ضبط کئے جائیں جو اپنے عقیدہ سے اپنی مفسدانہ حالت کو ثابت کرتے ہیں۔‘‘

یہ ذہن میں رہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی ، ایسے حریت پسند مسلمانوں کے کوائف اپنی جماعت کے ذریعہ ہی جمع کراتا ہوگا ، گویا غلام احمد قادیانی کی نگرانی میں قادیانی جماعت کی پوری ٹیم اسی کام میں لگی ہوئی تھی کہ ہندوستان کے آزادی پسند مسلمانوں کی فہرستیں بنا بناکر انگریزکے خفیہ محکمہ کو بھیجی جائیں ۔ وہ دن اور آج کا دن ، قادیانی جماعت مسلمانوں کی جاسوسی کے اسی مقدس فریضہ میں لگی ہوئی ہے کہ مسلمانوں سے گھل مل کر اپنے آپ کو مسلمانوں کا خیر خواہ ثابت کیا جائے۔ اور باطن میں ان کے راز اعدائے اسلام کو پہنچائے جائیں۔قادیانی اور یہودی لابی کے درمیان وجہ الفت بھی یہی اسلام دشمنی ہے۔اسرائیل میں کوئی مذہبی مشن کام نہیں کرسکتا اور کسی اسلامی مشن کے قیام کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن قادیانی مشن وہاں اطمینان سے کام کررہا ہے اور اسرائیل کامکمل اعتماد اسے حاصل ہے۔قادیانی، مسلمانوں کے بھیس میں مسلمان ممالک، خصوصاً پاکستان میں اہم ترین مناصب اور حساس عہدوں پر براجمان ہیں۔ اس لئے اسلامی ممالک کا کوئی راز ان سے چھپا ہوا نہیں۔

ادھر ایک عرصہ سے اسلامی ممالک اپنی ایٹمی صلاحیتوں کو بہتر بنانے اور انہیں پر امن مقاصد کے لئے استعمال کرنے میں کوشاں تھے۔ مغربی دنیا اور یہودی لابی کے لئے اسلامی دنیا کی یہ تگ ودو موجب تشویش تھی۔ اسلامی ممالک کی سائنسی بیداری کو کنٹرول کرنے کی بہترین صورت یہی ہو سکتی تھی کہ ’’اسلامی سائنس فائونڈیشن‘‘ کا نعرہ ایک ایسے شخص سے لگوایا جائے جو یہودی لابی کا حلیف اور رازدار ہو۔ اس نعرہ کے ذریعہ اسے اسلامی ممالک کا محسن اور ہیروباور کرایا جائے۔ ایسی شخصیت ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی سے زیادہ موزوں اور کون ہوسکتی تھی۔ چنانچہ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی نے ’’اسلامی سائنس فائونڈیشن‘‘ کا نعرہ بلندکیا۔ مسلم ممالک نے اسے اپنا محسن سمجھا اور اس عظیم مقصد کے لئے خطیر رقم اس کے قدموں میں نچھاور کردی، اس طرح یہ قادیانی مسلم ممالک کی دولت پر ’’اسلامی سائنس فائونڈیشن‘‘ کا شہ بالا بن گیا۔ علاوہ ازیں مسلم ممالک (پاکستان سے مراکش تک) کے سائنسی ادارے بھی ایک قادیانی کی دسترس میں آگئے۔ اب مسلم ممالک کا کوئی راز راز نہیں رہے گا۔ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کے لئے اپنے مرشد مرزا غلام احمد قادیانی کی سنت کے مطابق اسلامی ممالک کی ایٹمی صلاحیتوں کی رپورٹیں اعدائے اسلام کو پہنچنا آسان ہوگا، اور مسلم ممالک کی مخبری میں اسے کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔

(2)        ’’اسلامی سائنس فائونڈیشن‘‘ کے قیام کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ مسلم ممالک کے سائنسی اداروں میں ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کا عمل دخل ہوگااور ان اداروں میں قادیانی نوجوانوں کو بھرتی کرنا آسان ہوگا،جیسے پاکستان کی وزارات خارجہ کا قلمدان جن دنوں ظفراللہ قادیانی آنجہانی کے حوالے تھا ان دنوں ہمارے بیرون ملک سفارت خانوں میں قادیانیوں کی بھر مار تھی۔ قادیانیوں کونوکریاں بھی خوب مل رہی تھیں اور نوکری کے لالچ میں نوجوانوں کو قادیانی بنانا بھی آسان تھا۔ اب اسلامی ممالک کی چوٹی پر سرظفراللہ کی جگہ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کو بٹھا دیا گیا۔ اب سائنسی اداروں میں قادیانی نوجوانوں کو بہترین روزگار کے مواقع خوب خوب میسر آئیں گے۔ اور مسلمان نوجوانوں کو قادیانیت کی طرف کھینچنے کے راستے میں ہموارہوجائیں گے۔ اسی کے ساتھ اگر مسلمانوں میں کوئی جوہر قابل نظر آیا تو اس کے ’’ناپسندیدہ‘‘ قرار دے کر نکال دینے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ پاکستا ن میں اس کا تماشا دیکھاجا چکا ہے۔بعض افراد، جن میں قادیانی ہونے کے سوا کوئی خوبی نہیں تھی وہ سائنسی ادارے کے کرتا دھرتا رہے۔ اور ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد بھی ان کی ملازمت میں توسیع ہوتی رہی۔ اس کے برعکس بعض اعلیٰ پائے کے سائنسدان گوشہ گمنامی میں دھکیل دئیے گئے۔ ہفت روزہ چٹان لاہور6 تا13جنوری1986ء میں اس دل خراش داستان کی تفصیلات دیکھی جاسکتی ہیں۔

(3)        ایک اہم ترین فائدہ قادیانیت کی تبلیغ کا ہے۔’’سائنس فائونڈیشن‘‘ کو قادیانیت کی تبلیغ کا ذریعہ کیسے بنایا جائے گا؟ اس کے لئے درج ذیل نکات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔

(الف)     ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کا شمار قادیانی امت کے ممتاز ترین افراد میں ہوتا ہے۔ قادیانیوں کے تیسرے سربراہ مرزا ناصر احمد آنجہانی نے 14 اگست 1980ء کو لندن میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا، جس کی رپورٹ 17 اگست1980ء کو آئرش سنڈے ورلڈ‘‘ میں شائع کرائی گئی جس کا عنوان تھا:’’احمدیہ تحریک آئر لینڈ کو حلقہ بگوش اسلام کرنے کی تیاری کررہی ہے۔‘‘اس رپورٹ میں بڑے فخر سے کہا گیاہے’’اس جماعت کے مشہور ارکان میںسے سرظفراللہ خان ہیں جو کہ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اور سابق صدر اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف کے ہیں۔ اس کے علاوہ پروفیسر عبدالسلام ہیں جنہوں نے فزکس میں نوبل انعام حاصل کیا ہے۔‘‘          

(قادیانی اخبارروزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 26 اکتوبر1980ء )

(ب)       قادیانی امت کو ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی پر یہ بھی فخر ہے کہ وہ جہاں جاتا ہے قادیانیت کی تبلیغ ضرورکرتا ہے۔حوالہ ملاحظہ ہو:’’انہوں نے دین (قادیانیت) کو دنیا پر ہمیشہ مقدم رکھا، اور سائنسدانوں اور بڑے بڑے لوگوں تک احمدیت کا پیغام پہنچا یا ‘‘                                          (کتابچہ ’’ڈاکٹر عبدالسلام‘‘ ۔ از محمود مجیب اصغر صفحہ56)

             قادیانی ماہنامہ ’’تحریک جدید‘‘ ربوہ بابت ماہ اکتوبر1985ء میں قادیانیوں کے موجودہ سربراہ مرزا طاہر احمد قادیانی کے دورہ اٹلی کی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے:’’حضور(مرزا طاہر) نے فرمایا، اٹلی میں پہلے بھی جماعت کے نمائندے بھجوا کر اٹلی کو جماعت سے متعارف کرانے کی کوشش کی گئی تھی اور اب ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے ذریعہ سے بھی ایک تقریب کا بندوبست کیا گیا جس میں توقع سے زیادہ معززین تشریف لائے جو کہ پہلے احمدیت سے متعارف نہ تھے۔ اس میں ٹیلی ویژن کے نمائندے بھی موجود تھے۔‘‘

                                                                                              (تحریک جدید ربوہ صفحہ7 اکتوبر1985ء )

(ج)        قادیانیوں کی طرف سے اعلان کیا جارہا ہے کہ پندرھویں صدی ہجری حقیقی اسلام (قادیانیت) کے غلبہ کی صدی ہوگی اور ان کے منصوبہ کے مطابق قادیانیت کا یہ غلبہ سائنس کے ذریعہ ہوگا۔قادیانی اخبار ’’الفضل‘‘ کا یہ اقتباس پڑھ لیجئے:’’عالم اسلام کے قابل فخر سپوت، یعنی حقیقی اسلام کے فدائی نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے کہا کہ سائنس کے میدان میں اسلام کی کھوئی ہوئی عظمت حاصل کرنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ ہمارے احمدی نوجوان ان علوم میں درجہ کمال کو پہنچیں۔محترم ڈاکٹر سلام صاحب نے کہا ہماری جماعت اسلام کے احیاء کے لئے کھڑی ہوئی ہے۔ اس لئے ہمیں پہنچنا چاہیے کہ دیگر علوم کے علاوہ سائنسی علوم میں بھی آگے بڑھیں اور کمال حاصل کریں۔‘‘

                                                                                      (اخبار الفضل ربوہ 13نومبر1979ء )

پس ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کی طرف سے ’’اسلامی سائنس فائونڈیشن‘‘ کے نام پر جو رقمیں اسلامی ممالک سے وصول کی جارہی ہیں ان کا ایک اہم مقصد خود مسلمانوں ہی کے پیسے سے قادیانیت کی تبلیغ اور اسے دنیا میں غالب کرنے کی کوشش ہے۔ جتنے نوجوان سائنسی علوم کی تکمیل کے لئے ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کے قائم کردہ، یا اس کے زیر اثراداروں سے رجوع کریں گے ، ان کو ہر ممکن قادیانیت کا انجکشن دینے کی کوشش کی جائے گی اور ان کی ترقیات کا معیار یہ قرار دیا جائے گا کہ وہ قادیانیت کے حق میں کتنے مخلص ہیں۔